Home نقدوتبصرہ شعرائے مدھوبنی کا مختصر تعارف – حسیب الرحمٰن شائق قاسمی

شعرائے مدھوبنی کا مختصر تعارف – حسیب الرحمٰن شائق قاسمی

by قندیل

قسط (9)

(17) عبدالعلام ہوش ، شکری رئیس ابن رئیس اور شاعر

عبدالعلام نام ، عرف کھکھن بابو ، ہوش تخلص ، شکری کے رئیس اور زمیندار بابو واجد حسین والد گرامی ۔
1900عیسوی مطابق ١٣١٨ہجری کو ہرسنگھ پور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا مسکن شکری ہے ، آپ اگر چہ رئیس ابن رئیس بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ؛ لیکن مزاج میں نرمی اور رواداری تھی ، شعروشاعری سے کافی دلچسپی تھی۔
1964ء مطابق ١٣٨٤ھ بہ مقام شکری آپ کا وصال ہوا ۔

نمونۂ کلام

اس بساط ارض پر جیتے گا وہ
چال جو شطرنج کی بہتر چلے

کل تو واعظ بھی شریک محفل رندانہ تھا
مئے کی بوتل تھی بغل میں ہاتھ میں پیمانہ تھا

جناب شاداں فاروقی نے جناب اختر حسین سید نیانگری کے حوالے سے ایک شعر اور نقل کیا ہے ؎

وہ مڑ کے دیکھے نہ دیکھے ہماری قسمت ہے
پڑے ہوئے سر رہ گزار ہم بھی ہیں

(بزم شمال۔ص:٤٢٧)

(18) ماہر رضوی ،مدہوبنی
محبِ اردو ، شاعر اور ادیب

سید رضی احمد رضوی نام ، ماہر تخلص ، آپ کی پیدائش 1912ء مطابق ١٣٣١ھ کو ہوئی۔ آپ کا مسکن محلہ مومن ٹولہ شہر مدہوبنی ہے ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پھر مدرسہ منظر الاسلام بریلی یوپی میں داخل ہوئے ، وہاں سے آپ نے 1935ء میں فارسی مضمون میں فاضل کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا ۔
1937ء سے 1942ء تک سمری ہائی اسکول ، سمری دربھنگہ میں ہیڈ مولوی کے عہدہ سے متعلق رہے ۔
1943ء میں ترک ملازمت کر کے اپنے سسرال محلہ لعل باغ دربھنگہ میں مقیم ہوگئے ۔ جناب مولانا عبدالعلیم آسی نے 1944ء میں "اردو ادارہ ” کے نام سے ایک ادبی انجمن شہر میں قائم کی تھی ، آپ اس کے پہلے صدر بنائے گئے ، آپ کی رہنمائی میں اس ادبی ادارے نے نوجوانوں میں صحیح ادبی شعور پیدا کیا ۔
1955ء میں آپ نے جی ۔ ایم ۔ ایس ۔ایس ۔ ایم ۔ ای اسکول مدھوبنی میں دوبارہ اپنی ملازمت کی ابتدا کی ، 1956ء میں واٹسن ہائی اسکول مدہوبنی میں ہیڈ مولوی ہوگئے اور تادم حیات درس و تدریس میں منہمک رہے ۔

"انجمن ترقی اردو” کے نام سے ایک ادبی تنظیم مدھوبنی میں تھی ، عرصہ دراز تک اس کے آپ سربراہ رہے ۔ یہ تنظیم اب کس حالت میں ھے ، معلوم نہیں ۔
1972ء مطابق ١٣٩٢ھ کو آپ کا انتقال ہوا۔

حضرت ماہر رضوی کو شعر و سخن سے دلچسپی ابتدا ہی سے رہی ، آپ نے نظمیں اور غزلیں خوب لکھیں ، قیامِ دربھنگہ کے ابتدائی دور میں کئی نظمیں کہیں ، جن میں "شب تنہائی” اور "ستارہ” قابل ذکر ہیں ،ان کے علاوہ "تجدید پیمان وفا” ، "کسی کی مسکراہٹ” اور "تسخیر حیات” اپنے انداز کی وہ منفرد نظمیں ہیں جنہوں نے دربھنگہ کے چھوٹے سے ادبی ماحول میں پے درپے طوفان اٹھا کر اپنا مقام بنایا ۔ اپنے خلوص کے سبب حضرت ماہر عوام و خواص میں مقبول رہے ۔
آپ کی کوئی نظم نہ مل سکی البتہ مشہور و معروف محقق شاداں فاروقی کی کتاب بزم شمال سے آپ کی غزلوں کے چند منتخب اشعار پیش کیے جا رہے ہیں ۔

سرمایہ کے ہاتھوں کٹتی ہے انسان کی شرافت کیا کہیے
ہر فتنہ کی تہہ میں ہوتی ہے کچھ اس کی کرامت کیا کہیے

کیا تم سے کریں ہم شکوہءغم ہوتی ہے ندامت کیا کہیے
اپنوں کی شکایت کیا کیجئے غیروں کی حکایت کیا کہیے

روباہ بنایا شیروں کو بھیڑوں کو لڑایا شیروں سے
ہیں کھیل میں نرالی دنیا کے دولت کی شرارت کیا کہیے

ہاں کون سنے گا ماہر کی فریاد کی لے ہے دھیمی سی
دل خضر طریق الفت تھا رہبر کی رفاقت کیا کہیے

کیوں راز دارِ عالم امکاں بنا دیا
تو نے یہ کیا کیا مجھے انسان بنادیا

بربادیوں کی اپنی زمانے نے رکھ لی شرم
خاک مزار تک کو پریشان بنا دیا

تیر نظر سے ہے یہ جگر کا معاملہ
دل میں اتر گیا تو رگ جاں بنا دیا

دیکھو تو شوق درد میں پرواز آرزو
محمل کو جس نے پیکر جاناں بنادیا

منظور تھی جو ان کو نمائش جمال کی
آئینہ دے کے کیوں مجھے حیراں بنا دیا

اس شوخ بے حجاب کا اللہ رے حجاب
ماہر کی جس نے فکر کو عریاں بنا دیا

پاتا ہوں سامنے اسی بیداد گر کو میں
دل کو چراؤں اب کہ بچاؤں جگر کو میں

رنگ جہاں کو دیکھ کے ہیں اپنے ہوش گم
لاؤں کہاں سے ہمت اہل نظر کو میں

ہشیار! آرہی ہے جگر تاکتی ہوئی
پہچانتا ہوں کسی کی نظر کو میں

تھی کعبۂ خیال کبھی بارگاہ دوست
ہر پھر کے تاکتا ہوں اسی بام و در کو میں

افراط غم میں حضرت ماہر یہ میکشی
گھر جلنے پر چلا ہوں بجھا نے شرر میں

حیف "ترہت” نے مری قدر نہ جانی کچھ بھی
رہ گیا ابر میں خورشید درخشاں اپنا

اب وہ مجمعِ احباب نہ محفل کا وہ رنگ
یک بیک ہو گیا شیرازہ پریشاں اپنا

شکوہءدوست گوارہ نہیں دل کو ماہر
کس طرح تم سے کہیں حال پریشاں اپنا

مار ڈالے گی مجھے آہ یہ سعئ ناکام
اپنی محفل میں کوئی روح رواں ہے کہ نہیں

مفلوج ہوئے اعضائے عمل ہمت کا سہارا کوئی نہیں
منجدھار پڑی ہے کشتی دل، دریا کا کنارہ کوئی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغ ہی داغ ملے حسرت وآلام کے داغ
زندگی اپنے لیے چہرہء زیبا تو نہیں

(بزم شمال۔ص:٤٥٥)

(19) *محمد یعقوب آزاد ، بھلنی*

نام محمد یعقوب ، آزاد تخلص ، والد گرامی کا نام مولانا ابراہیم ، یہ اردو اور فارسی کے مسلم الثبوت استاذ اور علمِ ریاضی کے ماہر تھے ، کئی سال تک واٹسن ہائی سکول میں بحیثیت استاد کے اپنی خدمات انجام دی۔
محمد یعقوب آزاد ململ میں پیدا ہوئے ، سنِ پیدائش کا علم نہیں ۔ ململ سے بھلنی منتقل ہو گئے اور وہیں سکونت پذیر ہوئے ۔ ان کے حالات کا زیادہ علم نہیں ، البتہ اتنا پتہ چلا ہے کہ وہ عصری علوم سے آراستہ تھے ، شفیع مسلم ہائی اسکول لہریا سرائے میں کچھ دنوں تک علمِ ریاضی کے استاذ رہے ، اس کے بعد دربھنگہ ڈسٹرکٹ بورڈ میں اسٹیمیٹر کی حیثیت سے بحال ہوئے ۔
پروفیسر عبد المنان طرزی صاحب نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ آپ کی شاعری کے حوالے سے کوئی جانکاری نہیں مل سکی ، البتہ آپ ایک اچھے شاعر تھے اور اندازِ بیاں اتنا دلکش تھا کہ گفتگو سن کر لوگوں پر محویت کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ، فارسی کے اکابر شعرا کے بہت سے اشعار یاد تھے ۔
(رفتگاں وقائماں۔ص:١٥٣)

آپ کا کوئی کلام دستیاب نہ ہوا ؛ اس لیے نمونہءکلام پیش کرنے سے ہم معذور ہیں ۔

ان کا منظوم تعارف بھی دیکھتے چلیں ۔

آزاد اچھے شاعر
شعر و سخن کے ماہر

عمل گراں کے حامل
فکر جواں کے حامل

پیشے کے ایسٹیمیٹر
لیکن ادب کے گوہر
( حوالہ سابق۔ ص:٣٧)

You may also like

Leave a Comment