Home ستاروں کےدرمیاں شعرائے مدھوبنی کا مختصر تعارف – حسیب الرحمٰن شائق قاسمی

شعرائے مدھوبنی کا مختصر تعارف – حسیب الرحمٰن شائق قاسمی

by قندیل

قسط (10)

(20) م ۔ سرور پنڈولوی
شاعر ، انشائیہ نگار
نام محمد سرور انصاری ، قلمی نام م۔ سرور پنڈولوی ، والد محترم کا نام محمد ہاشم انصاری مرحوم ، یہ پوسٹ ماسٹر تھے ۔

5/جنوری 1964ء کو نبٹولیہ (نیاٹولہ) پنڈول میں ان کی ولادت ہوئی ، بی۔ایس۔ سی (ریاضی) تک تعلیم حاصل کی ، بعد ازاں پیشہءتدریس سے وابستہ ہوگئے ، روز اسٹڈی سرکل اسٹیشن روڈ پنڈول مدھوبنی میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
زمانہ طالب علمی سے ہی اشعار موزوں کرنے کا شوق رہا ؛ لیکن انہوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1995ء میں کیا ، اس فن میں باضابطہ ان کے کوئی استاد نہیں ؛ البتہ شروع میں انور پردیسی مرحوم سے اصلاح لیتے تھے ، اب گاہے ماہے حسب ضرورت پروفیسر اختر الحسن ، پروفیسر ایم ۔ اے ۔ ضیا ، حسین منظر اور جناب رہبر چندن پٹوی سے مشورہءسخن کرتے ہیں ۔
سرور صاحب شروع میں گلاب تخلص کرتے تھے اور رسائل میں ایم ۔ ایس ۔ گلاب کے نام سے چھپتے تھے ، اب ان کی شناخت ادبی حلقوں میں م ۔ سرور پنڈولوی کے نام سے ہے ، سرور ۔ اے ۔ الٹر کے نام سے مزاحیہ شاعری بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ماسٹر نعمت اللہ بڑہارا کی معرفت ہمیں بھیجا ہے ، جو اس وقت میرے پیش نظر ہے ، اس میں تین حمد ، ایک نعت ، تین نظمیں اور تریسٹھ غزلیں ہیں ، کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بے باک اور حق پرست انسان ہیں اور اپنی شاعری میں اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں ، کتاب کی پشت پر فطین اشرف صدیقی مقیم حال صلالہ،سلطنت عمان کی ایک وقیع تحریر مرقوم ہے ، جس میں ان کے کلام کے تعلق سے لکھا ہے کہ ” موصوف (م. سرور پنڈولوی) کے کلام میں جذبے کی صداقت اور خیال کی رعنائی کے ساتھ حالات کے جبر سے نبرد آزمائی کا پیغام عام ہے تو مشاہدات و تجربات کو فنی پیرہن میں ڈھالنے کی خوب کوشش ہے ، بدلتی تہذیب اور اخلاقی زوال پر تازیانہ بھی ہے” ۔
سرور صاحب کو انشائیہ نگاری سے بھی خاصی دلچسپی ہے ، کئی انشائیے اخبار و رسائل میں چھپ چکے ہیں ، جن میں "کمال کرکٹ کمنٹری کا” ، "ڈاگڈر بابو” اور "ضرورت ہے ایک عدد بیوی یا ٹی وی کی” وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ اول الذکر انشائیہ آل انڈیا ریڈیو دربھنگہ سے بھی نشر ہو چکا ہے ۔ ایک انشائیوں کا مجموعہ زیرطباعت ہے ، جو منصہ شہود پر آیا ہی چاہتا ہے ، دو شعری مجموعے بھی زیر ترتیب ہیں ۔ تخلیقی سفر ہنوز جاری ہے ، نسل نو کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں ۔ میری دعا ہے کے اللہ تعالی اردو ادب کی خدمت کا کام اسی طرح لیتا رہے ۔

نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے۔

قلم میرا سیاہی چاہتا ہے
کہاں یہ واہ واہی چاہتا ہے

محبت تو فقیری چاہتی ہے
مگر وہ بادشاہی چاہتا ہے

نئی تہذیب کا پروردہ انسان
نہ پانی اور ہوا ہی چاہتا ہے

مرا رہبر یقیناً مختلف ہے
کہ وہ میری تباہی چاہتا ہے

جہاں تک آسکوں میں کام آؤں
میرا دل یا الہی چاہتا ہے

اسے مطلوب ہے میری تباہی
دکھانا خیرخواہی چاہتا ہے

تو چاہے جس قدر مجھ کو ستا لے
میرا دل توں بھلا ہی چاہتا ہے

سلیم اس عہد کا بزدل بہت ہے
کرم ! ظل الہی چاہتا ہے

میاں سرور ہمیں حیرت ہوئی ہے
کہ تو کار رفاہی چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی بھی تیر نہ اس کا لگا نشانے پر
کمان تان کے بیٹھا رہا نشانے پر

کھٹک رہا ہوں میں خورشید بن کے آنکھوں میں
اسی لیے ہے نشیمن مرا نشانے پر ہے

یہ کون ہے جو اندھیروں سے پیار کرتا ہے
یہ کس رذیل نے رکھی ضیا نشانے پر

مرا خدا ہے میرے ساتھ غم نہیں ہے مجھے
بھنور میں ناؤ ہے یا ناخدا نشانے پر

وہ من کی بات دکھاوے کو یوں ہی کرتا ہے
مگر ہے دل سے ہمیں تو لیا نشانے پر

چلی گئی ہے جو دستار رونا کیا سرور
بچی جو جسم پہ اب ہے قبا نشانے پر

(21)مقصود عالم رفعت پنڈول
شاعر ، افسانہ نگار

اصل نام محمد مقصود انصاری ، قلمی نام مقصود عالم رفعت ، والد گرامی کا نام محمد حبیب انصاری ، والدہ محترمہ تحویلہ خاتون مرحومہ ، شریک حیات کنیز فاطمہ ۔
23/ فروری 1971ء کو جرہٹیہ مومن ٹولہ مقصودہ پنڈول میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم پرائمری مکتب جرہٹیہ مومن ٹولہ رہیکا مدھوبنی میں ہوئی ، میٹرک اور انٹر کے بعد اردو میں ایم۔ اے۔ کیا ، حال ہی میں انھوں نے پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔
درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں ، جرہٹیہ مومن ٹولہ کے پرائمری مکتب میں صدرمدرس کے عہدہ پر فائز ہیں ۔
شعرو سخن سے بے پناہ لگاؤ ہے ، ملک کے مؤقر اخبارات و رسائل میں وقتا فوقتا ان کا کلام شائع ہوتا رہتا ہے ، باضابطہ طور پر کوئی استاد نہیں ؛ البتہ شروع میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر انقلاب جناب احمد جاوید سے مشورہءسخن کرتے تھے ، بعد ازاں جناب حسین منظر سے اصلاح سخن کرنے لگے ۔
رفعت صاحب ایک باوقار اور سنجیدہ انسان ہیں ، متانت و سنجیدگی ان کی شاعری میں بھی نمایاں ہے ۔ ان کا ایک ارسال کردہ مجموعہء کلام "کربلائے زیست” میرے سامنے ہے ، یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے ، اس میں ایک مناجات آٹھ نعتیں اور باسٹھ غزلیں ہیں ، کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلاسیکی شاعری کے رچاؤ اور فنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ جدیدیت کی عناصر بھی ان کی غزلوں میں موجود ہیں ۔ ڈاکٹر نبیل احمد نبیل (لاہور ، پاکستان) نے ان کی شاعری کے حوالے سے لکھا ہے ” شاعری مقصود عالم رفعت کی فطری چہکار اور ان کے مافی الضمیر کے اظہار کا لازمی ذریعہ ہے ، وہ زود گو شاعر ہیں، ان کو شعرگوئی کا ہنر آتا ہے، ان کے یہاں متنوع موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں ، ان کے کلام میں رومانوی موضوعات بھی خلق ہوتے ہیں اور سیاسی صورتحال کے بطن سے بھی وہ جواھر ریزے نکال لیتے ہیں ، وہ معاصر زندگی کے مہاساگر میں غواصی کرکے تخلیق کی پاتال سے متعدد موضوعات کو ڈھونڈ نکالتے ہیں ” ۔
رفعت صاحب افسانہ نگار بھی ہیں ، شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھتے ہیں ۔

نمونہءکلام

جنون عشق میں حد سے گزر جانے کو جی چاہے
تمہاری روح کے اندر اتر جانے کو جی چاہے

صنم آغوش الفت میں بکھر جانے کو جی چاہے
تمہاری زلف کے سائے میں مر جانے کو جی چاہے

میرا اب عہد و پیماں سے مکر جانے کو جی چاہے
تجھے رسوا سر بازار کر جانے کو جی چاہے

یہ بار زیست نے کچھ اس قدر معذور کر ڈالا
میرا اب کشت و جاں سے بھی اتر جانے کو جی چاہے

شراروں سے رہا ہے کھیلنے کا مشغلہ میرا
میرا طوفاں میں بے خوف و خطر جانے کو جی چاہے

تمہارے شہر کا موسم صنم بے حد سہانا ہے
یہاں اک شام میرا بھی ٹھہر جانے کو جی چاہے

میری غربت چھپا ئے پھر رہی ہے منہ اپنوں سے
محلے سے دبے پاؤں گزر جانے کو جی چاہے

نہیں ڈرتا کبھی طوفان سے اب ہرگز بھی میں رفعت
میرا تو چڑھتے دریا میں اتر جانے کو جی چاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاش وہ پیکر گلاب آئے
میری محفل میں بھی شباب آئے

جس طرف بھی گئے فساد ہوا
باز عادت سے کب جناب آئے

ایک عرصے سے منتظر ہوں میں
میرے خط کا کوئی جواب آئے

جب بھی آئی بہار گلشن میں
یاد مجھ کو وہ بے حساب آئے

اے فلک منتظر ہوں برسوں سے
میرے گھر بھی تو ماہ تاب آئے

چاندنی میں نہا رہے ہیں وہ
کرنے آب و ہوا شراب آئے

یاد آئے نہ یوں وہ برسوں تک
یاد جب آئے بے حساب آئے

ان کے کوچے سے لوٹ کر رفعت
ہم پشیماں سدا جناب آئے

You may also like

Leave a Comment