سدرشن ٹی وی نے جو زہر پھیلانا تھا وہ ٹریلر کے ذریعے پھیلا دیا۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا بلکہ دستور میں دی گئی حق مساوات کی ضمانت کی دھجیاں اڑائیں۔ اس طرح قانونی پیچیدگی سے بچنے کے لئے اس نے ٹریلر کا سہارا لیا۔ جامعہ کے طلبا، آئی پی ایس ایسوسی ایشن اور دیگر انصاف پسند لوگوں نے اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ کے طلبا کی درخواست پر ٹریلر کی اسٹوری نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔سپریم کورٹ ممکن ہے حقِ اظہار رائے کے تحت پابندی ہٹا دے۔
سدرشن ٹی وی کا بد نام زمانہ اینکر ہندوؤں کو یہ کہہ کر ڈرا رہا ہے کہ یو پی ایس سی کے مقابلہ جاتی امتحان میں جامعہ کوچنگ سینٹر کے کامیاب ہونے والے 30 طلبا وطالبات میں سے 14 مسلم طلبا و طالبات کی کامیابی یعنی تقریباً 45% (جبکہ پورے ملک میں کامیاب ہونے والے مسلم طلبا وطالبات کی شرح تقریباً 5% ہی ہے لیکن ہندوؤں کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے صرف جامعہ کوچنگ کو ایشو بنایا) کی کامیابی خطرے کی گھنٹی ہے اور اسے نوکر شاہی (بیوروکریسی) جہاد کا نام دیا ہے۔
یونین پبلک سروس کمیشن ملک میں ہونے والے کمپیٹیشن میں سخت مقابلہ جاتی امتحانات میں سے ایک ہے۔ اس میں کامیاب ہونے والے:
١- آئی اے ایس (انڈین اڈمنسٹریٹیو سروس) یعنی ڈی سی / ڈی ایم دوسرے لفظوں میں ضلع انتظامیہ کے سربراہ (سادہ لفظوں میں ضلع کے مالک ہوتے ہیں ) یا وزارتوں کے سکریٹریز بنتے ہیں۔
٢-آئی پی ایس انڈین پولیس سروس میں ایس پی سپرنڈیپنڈنٹ آف پولیس بنتے ہیں
٣- آئی ایف ایس انڈین فارن سروس کے تحت بیرون ملک ہندوستان کے سفیر اور قنصل بنتے ہیں
یہ بدطینت اینکر ہندوؤں سے سوال کر رہا ہے کہ آپ اپنے ضلع کے کسی مسلم مالک کے رحم و کرم پر رہنا پسند کریں گے ؟ وغیرہ وغیرہ؛ لیکن انگریزی کے مقولہ blessing in disguise کی مانند کل کچھ مسلم نوجوان جو میڈیکل اور انجینئرنگ کی تیاری کر رہے ہیں یا +2 کے بعد آئی ٹی یا کوئی اور پروفیشنل کورسز کا منصوبہ بنا رکھاہے، نے بتایا کہ اب بطور ضد وہ یونین پبلک سروس کمیشن یعنی آئی اے ایس اور آئی پی ایس یا کم از کم صوبائی پبلک سروس کمیشن کی تیاری کی ٹھان رہے ہیں۔ امر واقعی یہ ہے کہ آئی اے ایس وغیرہ کے مقابلہ جاتی امتحانات کے بارے میں بہت سے نوجوانوں کو تفصیل سےمعلوم نہیں تھا۔ سدرشن ٹی وی نے اس موضوع کو اٹھا کر سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا دیا جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کے اندر اسے جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ اللہ کرے ان کے ارادے ، اس موضوع کے ٹھنڈا ہونے کے ساتھ، متزلزل نہ ہوں۔ ان کا آئی اے ایس اور آئی پی ایس بننے کا عزم باقی رہے۔
ویسے تو آئے دن ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ کوئی اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتا ہے، کوئی مسلمانوں کے چار بیویاں اور چالیس بچے بتا کر ہندوؤں کو ڈراتا ہے کہ ٢٠٥٠ تک مسلم اس ملک میں اکثریت میں ہو جائیں گے اور قابض ہو جائیں گے، یہ اینکر جھوٹ اس اعتماد کے ساتھ بولتا ہے کہ سیدھے سادے ہندو تو ہندو، بعض مسلمان بھی یقین کر لیتے ہیں اور اسی بیانیہ کو ذہن میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کے عائلی قوانین، پرسنل لا وغیرہ پر تنقید و تنقیص کرتے ہیں۔ یہ اینکر چند سال قبل لال قلعہ کو ہندوؤں کا تعمیر کیا ہوا مندر ثابت کرنے کے درپے تھا اور بطور ثبوت کہہ رہا تھا کہ اسلام کا رنگ ہرا ہے جبکہ ہندوؤں کا رنگ گیروا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لال قلعہ دہلی میں لگے پتھروں کا رنگ لال گیروا ہے۔
ہمارا سنجیدہ طبقہ بلکہ میں خود بھی اس طرح کی بکواس کو کبھی قابل اعتنا نہیں سمجھا اور یہی کہتا رہا کہ ملک کے اصل مسائل گرتی ہوئی معیشت بے روزگاری پڑوسی ممالک کے ساتھ بگڑتے رشتوں سے توجہ ہٹانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور بے بنیاد باتیں ٹی وی چینلز پر چلائی جاتی ہیں لیکن اب شاید پرسیپشن چینج کرنا ہوگا وہ اس لئے کہ شوشہ سے ہی سہی، یہ چینلز ڈیمیج تو کر رہے ہیں اور نقصان بھی ناقابل تلافی ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے پاس دفاع کرنے کے لئے اور حقیقت بتانے کے لئے چینل، انگریزی، ہندی اور مقامی زبانوں کے اخبارات نہیں ہیں۔