Home تجزیہ شکریہ بھاگوت جی لیکن … – ودود ساجد

شکریہ بھاگوت جی لیکن … – ودود ساجد

by قندیل

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے تازہ بیان کی بیشتر حلقوں میں بڑی پزیرائی ہو رہی ہے۔ یہ بیان فی الواقع اتنا دلکش ہے کہ اس کی پزیرائی ہونی ہی چاہئے۔ انہوں نے مہاراشٹر کے شہر پونے میں منعقد ’ہندوسیوا‘ پروگرام میں ان لوگوں کی سرزنش کی جو ایودھیا میں رام مندر کے بعد دیگر تنازعات اٹھاکر خود کو ہندئوں کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا یہ بیان ان کے اسی تبدیل شدہ موقف کا توسیعی سلسلہ ہے جس میں انہوں نے جون 2022 میں کہا تھا کہ ’ہر مسجد کے نیچے شولنگ کیوں تلاش کرنا‘ کیوں جھگڑا بڑھانا‘۔ انہوں نے نئے تنازعات کو اٹھانے والوں کی کوششوں کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ ہم سب کو مل جل کر رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ’رام مندر کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ تھا لیکن صرف انتہائی نفرت، بغض، دشمنی کی وجہ سے یومیہ بنیادوں پر اس طرح کے نئے مسائل کو اٹھانا ناقابل قبول ہے۔”

اس میں تو کوئی اشکال ہی نہیں کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان اپنے جرأتمندانہ الفاظ‘ ہیئت ترکیبی اور دل کشی کے اعتبار سے بہت بڑا بیان ہے۔ اصل سوال تو زمین پر اس بیان کی اثر پزیری کا ہے۔ شرپسندوں کی طرف سے مذکورہ نوعیت کے تنازعات کا براہ راست اثر اس ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاں تک موہن بھاگوت کے اس نوعیت کے تازہ یا پرانے بیان کا تعلق ہے تو مسلمانوں نے من حیث القوم پہلے بھی خیر مقدم کیا تھا اور آج بھی وہ اس بیان کی ستائش کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی انہی کالموں میں ان کے پہلے بیان کا بھی خیر مقدم کیا تھا اور آج بھی کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہی ہے کہ بھاگوت کے بیان کا روئے سخن جن شرپسندوں یا جن لیڈروں کی طرف تھا کیا انہوں نے بھی اس بیان کا کوئی اثر لیا؟

موہن بھاگوت کا اس نوعیت کا پہلا بیان جون 2022 میں آیا تھا۔ لیکن اس وقت سے دسمبر 2024 تک ملک کی مختلف عدالتوں میں مسجدوں اور درگاہوں کے خلاف 10عرضیاں دائر کردی گئیں۔ گیان واپی سمیت دیگر کئی مقامات پر مقامی عدالتوں نے ان عرضیوں پر سرسری سماعت کرکے بجلی کی رفتار سے سروے کے احکامات جاری کردئے۔ ایجنسیوں اور انتظامیہ نے بھی سرعت کے ساتھ سروے کرڈالے۔ اور اس کا تازہ مگر بھیانک نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی اترپردیش کے شہر سنبھل میں پولیس نے گولیاں چلائیں اور پانچ بے قصور نوجوان جاں بحق ہوگئے۔ مسجدوں کے نیچے مندروں کے باقیات تلاش کرنے والے شرپسندوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا اور اجمیر میں آٹھ صدیوں سے قائم درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے خلاف بھی مقامی عدالت میں عرضی دائر کردی۔

ممبئی میں 3 جون 2022 کو موہن بھاگوت نے اپنے سینکڑوں عہدیداروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’ٹھیک ہے کہ کاشی سے ہماری پرانی عقیدت ہے‘ وہاں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار نہ ہندو ہیں اور نہ مسلمان‘ کچھ قانونی اشوز ہیں جو عدالت میں زیر غور ہیں‘ لیکن ہر مسجد کے نیچے شولنگ کیوں ڈھونڈنا؟‘ ہندو یہاں کے مسلمانوں کے مخالف نہیں ہیں‘ وہ بھی ہمارے ہی ہیں‘ ان کے آباء و اجداد بھی ہندو ہی تھے‘ ان کا عبادت کا طریقہ بھلے ہی باہر سے آیا ہو لیکن وہ تو ہمارے ہیں‘ ہمارے یہاں کسی خاص طرز عبادت کی مخالفت نہیں ہے‘ آخر جھگڑا کیوں بڑھانا‘ روز ایک نیا معاملہ نکالنا‘ یہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

اس سے بھی پہلے 4 جولائی 2021 کو انہوں نے جو تقریر کی تھی اس نے درحقیقت ایک سنسنی خیزی پیدا کردی تھی۔ دانشور اور قلم کار ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب ’دی میٹنگ آف مائنڈس‘ کی تقریب رسم اجراء میں انہوں نے ’لنچنگ‘ کرنے والوں کو ہندوتو مخالف بھی قرار دیا تھا۔ کتاب کے مصنف خواجہ افتخار احمد نے موہن بھاگوت کے سامنے مسلمانوں کے عقیدے کی حساسیت اور اہمیت کو جس مضبوطی کے ساتھ رکھا اس کی بھی ستائش ہوئی تھی۔ لیکن پھر وہی سوال ہے کہ جولائی 2021 کے بعد سے دسمبر 2024 تک کیا ماب لنچنگ کے واقعات نہیں ہوئے؟

میں نے وشو ہندو پریشد کے صدر آلوک کمار سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا جو 5 فروری 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جو لوگ وی ایچ پی کے نام سے مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں پولیس کو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شرپسندی پھیلانے والے لوگ ان کی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے۔ لیکن پھر وہی سوال ہے کہ کیا ماب لنچنگ اور دوسری قسم کی شرانگیزی کے واقعات بند ہوگئے؟

وی ایچ پی کے تعلق سے یہ بتانا بھی برمحل ہوگا کہ پچھلے دنوں اسی کے پروگرام میں الہ آباد ہائی کورٹ کے برسرکار جج‘ جسٹس شیکھر یادو نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی تھی۔ ان کے خلاف ملک بھر میں رائے ظاہر کی گئی‘ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں ان کے مواخذہ کی تحریک جمع کرائی اور خود سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے رپورٹ طلب کی اور سپریم کورٹ کالجیم نے جسٹس شیکھر یادو کو بلاکر ان سے بند کمرے میں ’باز پرس‘ کی۔ لیکن کیا جسٹس شیکھر پر اس کا کوئی اثر ہوا؟ اگر اثر ہوا ہوتا تو وہ دھرم سنسد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف شرانگیزی کرنے والے یتی نرسنگھانند سے نہ ملتے۔ یتی نے ان سے ملاقات کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے اپنے موقف پر نہ صرف قائم رہنے بلکہ اسے آگے بڑھانے کی درخواست بھی کی۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تک نے جسٹس یادو کی تائید کرڈالی۔ پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ اور وزیر اعظم نے کانگریس سے اپنا سیاسی حساب کتاب بے باق کرنے کیلئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ کانگریس مسلمانوں کو ریزرویشن دیدیگی۔

ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ایسے قابل ستائش بیانات کے بعد ان سے رسم و راہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔خود موہن بھاگوت بھی مسلمانوں کے بعض اداروں میں گئے۔ جمعیت علماء نے بھی ان سے رابطہ کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے ان سے ملاقات کی۔ اسی سال مئی میں مولانا نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’میرے پاس ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو بی جے پی کے ہمنوا ہیں‘ آر ایس ایس سے بھی تعلق رکھنے والے ہیں‘ کچھ بہت پڑھے لکھے اور صاحب فکر لوگ اور کچھ ایسے بھی جو بی جے پی میں اندر تک رسائی رکھتے ہیں‘ لیکن وہ موجودہ صورتحال سے عاجز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک جس راستہ پر جارہا ہے وہ بربادی کا راستہ ہے۔ جب میں ان کی زبان سے یہ بات سنتا ہوں تو مجھے تعجب بھی ہوتا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ ملک کے مفاد میں ایسا سوچتے ہیں۔ میں اس نظریہ کو بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میرے کچھ دوستوں نے جو آر ایس ایس کے بنیادی لوگ ہیں‘ پیش رفت کرکے موہن بھاگوت سے ملاقات کرائی۔ بھاگوت نے دوگھنٹہ کی گفتگو کے بعد مجھ سے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی‘ میں آپ کو دو ڈھائی سال میں اپنے اجتماع میں بلائوں گا اور جو باتیں یہاں ہوئی ہیں ہماری خواہش ہوگی کہ آپ وہاں بھی دوہرائیں۔

مولانا نے مزید بتایا تھا کہ "موہن بھاگوت کے ساتھ میری پوری گفتگو کا محور یہی تھا کہ ہم بھی ہندوستانی ہیں اور ہمارے آبا و اجداد بھی ہندوستانی تھے‘ جہاں تک مذہب کا سوال ہے تو وہ ہر فرد کا ذاتی اختیار ہے۔ زبردستی کسی کو اپنے مذہب کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ موہن بھاگوت نے مجھ سے کہا کہ ہم بہت آہستہ چلتے ہیں‘ اسی لئے میں نے آپ کو دو ڈھائی سال کے بعد بلانے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں تیز چلوں گا اور کہیں پہنچ کر مڑکر دیکھوں گا تو میں اپنے آپ کو تنہا پائوں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں اور سب اسی ملک کے رہنے والے ہیں اور پچھلے 1300 سال سے ہم امن و محبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دیہات در دیہات مسلمان موجود ہیں‘ وہ باہر سے آئے ہوئے نہیں ہیں۔ ان کی برادری یہیں ہے۔ مسلمان گوجر بھی ہے‘ چودھری اور ٹھاکر بھی ہے۔ ہر برادری کے مسلمان یہاں موجود ہیں۔ اگر ایک دو فیصد کوئی باہر سے آیا بھی ہو تو وہ یہاں اتنا گھل مل گیا ہے کہ اب اس کی انفرادیت ختم ہوگئی ہے۔ آخر آج کون سی نئی بات ہوگئی ہے کہ کل مسلمان رہ سکتا تھا آج نہیں رہ سکتا۔ یہ سمجھنا کہ آپ اسے ہندو بنالیں گے تو یہ نہیں ہوپائے گا۔”

مولانا نے مزید کہا تھا کہ "مجھے خوشی ہے کہ بھاگوت نے میری ان باتوں کی نہ صرف یہ کہ تردید نہیں کی بلکہ بغور سنا بھی۔ ان سے پہلی ملاقات کو سات آٹھ برس ہوگئے ہیں‘ انہوں نے بلایا ہی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس نظریہ کو پیش کرنا چاہا اور جو ان سے میری بات ہوئی تھی اس پر چلنا چاہا لیکن مجھے لگتا ہے کہ آر ایس ایس نے 95 برس تک جس نظریہ کو فروغ دیا آج اتنے عرصہ کے بعد کوئی دوسرا نظریہ پیش کرنا موہن بھاگوت کیلئے بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔‘‘

زیر نظر موضوع مزید تفصیل کا متقاضی ہے لیکن مختصراً یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ موہن بھاگوت آرایس ایس کی 100 سالہ زندگی کے چھٹے سربراہ ہیں۔ ان کے پانچوں پیش رو ان سے مختلف تھے۔ سیکولر افکار کیلئے مشہور بہت سے ہندو تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ موہن بھاگوت آر ایس ایس کے ایک اصلاح پسند سربراہ ہیں۔ انہوں نے اس راستے سے کچھ ہٹ کر چلنے کی کوشش کی ہے جس کی تعمیر پچھلے سو برس سے کی جارہی ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ راتوں رات بہت کچھ بدل کر رکھ دیں گے مناسب نہیں ہوگا۔ یقیناً انہیں اپنے ہی لوگوں سے مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ ان کی ایک طرف تو بی جے پی کی تاریخ کے طاقتور ترین لیڈر نریندر مودی ہیں اور دوسری طرف اس ہندوتو کے نظریہ کے حامل افراد ہیں جس کی پرورش ایک صدی سے کی جارہی ہے۔ ایسے میں اگر وہ مسلمانوں سے رسم وراہ کا تیسرا محاذ کھولنے کی جرأت کر رہے ہیں تو ان کی اس جرات کی ستائش کی جانی چاہئے۔

یقینی طور پر ایک طرف جہاں اقتدار کے گلیاروں سے ان کی ’اصلاح پسندی‘ کو تائید و حمایت نہیں مل رہی ہوگی وہیں دوسری طرف خود ان کے اپنے متبعین بھی ان سے نالاں ہوں گے۔ ہمیں موہن بھاگوت کے تازہ بیان کی دلکشی کی غیر مشروط ستائش کی کوئی عجلت نہیں ہے۔ جو کام ہمارا نہیں ہے اور جس کے کرنے سے کوئی بڑا فرق آنے والا نہیں ہے وہ ہم نہیں کریں گے۔ لیکن موہن بھاگوت کا یہ بیان ہندوستانی مسلمانوں اور ان کی مذہبی‘ سماجی اور سیاسی قیادت کو ایک بار پھر ایک سنہرا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان کے بیان کے بہانے سے ہی سہی ان کے قریب جائے اور ان سے وہی سوالات کرے جو اس وقت ایک عام مسلمان کے ذہن ودل کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس یقین کا ہتھیار سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اللہ کے رسول اسی یقین کے سبب اپنے کھلے جانی دشمنوں کے قریب جاتے تھے۔ کیا ہمیں اللہ کے رسول سے بھی زیادہ تکلیفوں کا سامنا ہے؟

You may also like