پورا پانی جہاز کھچاکھچ بھرا ہوا تھا ، کہیں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ، تمام چہروں پر خوف کے سایے لہرا رہےتھے ، مائیں اپنی گودوں میں اپنے معصوموں کو اٹھائے ہوئی تھیں ، بچوں کے لب خشک تھے ، بوڑھی آنکھوں میں حیرت بھرا تاسف تھا ، ہر طرف مایوسی کی دبيز پرتیں تھیں اور یوں لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہیں ۔یہ ایک ہی جہاز نہیں تھا ، اس جیسے لاتعداد جہاز تھے اور سارے جہازوں کا وہی حال تھا ۔
بڑے بڑے دانشوروں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اب ہجرت ہی واحد اپائے ہے ، یہ سارا قافلہ کئی ملکوں سے گزر کر یورپ پہنچنے والا تھا ، ہوائی جہاز پر چاروں طرف سناٹا تھا ، ہر زبان سراسیمگی کی مہیب کیفیت میں خاموشی اوڑھے ہوئی تھی لیکن اسے بہت سارے سوالات پریشان کررہے تھے ، وہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ تیس کروڑ کی آبادی ہجرت کرکے کہاں جائے گی ؟ کیا جہاں جائے گی وہاں اسے پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوگا ؟ کیا ان پریشانیوں کا یہیں رہ کر مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ یہ ہجرت ہے یا پھر یہ فرار ہے جسے ہجرت کا نام دے دیا گیا ہے ؟ اس نقل مکانی کے نتائج کیا رونما ہوں گے ، اسے یہ سوال بھی کھائے جارہا تھا کہ آخر خود وہ کیوں اس ہوائی جہاز میں سفر کررہا ہے ؟ ٹھیک ہے کہ اس کے والدین مان کر نہيں دے رہے ، اس کے بھائیوں نے بھی ماں باپ کی بات مان لی ہے لیکن وہ تو اپنی راہ پر چل ہی سکتا تھا ۔اس نے خاموشی کے اس حصار کو توڑا ، سامنے بیٹھے بزرگ سے اس نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے سیدھے سادے اور دو ٹوک اندازمیں اپنی باتیں کہہ دیں ۔ بزرگ ایک دم سے برس پڑے : بیٹھے رہو ، خاموش کیوں نہیں رہتے ، اب کیا چاہتے ہو کہ یہیں پوری طرح مار دیے جائیں ؟ وہ پہلے فسادات کراتے تھے ، اب تو شہریت تک چھین رہے ہیں ، دن دہاڑے مسجدوں پر حملہ کررہے ہیں ، بیٹیاں محفوظ نہيں ، گھروں کو ڈھا رہے ہیں ، کہیں سے کوئی داد رسی نہیں ہورہی ۔ کیا کریں ؟ گھٹ گھٹ کر مر جائیں یا پھر کہیں اور اللہ کی وسیع زمین پر کوئی جائے امان تلاش کریں، کیا کریں ؟اس نے بزرگ کی بات غور سے سنی اور ایک سوال پھر جڑ دیا : چچا! ایک ایسی ہی ہجرت تو پہلے بھی ہوئی تھی تب آپ لوگ کیوں نہیں گئے تھے ؟ بزرگ جیسے اس سوال کے لیے تیار ہی بیٹھے تھے : بھتیجے! ہم بے وقوف تھے ، خوش فہمی تھی ہماری کہ برادران وطن ایسے نہیں ہوں گے ، ان ستر پچہتر سالوں نے ساری خوش فہمیاں دور کردیں ، ہماری نادانی تھی ورنہ ہم بھی وہیں ہوتے جہاں ہمارے اور بھائی چلے گئے۔ ہائے ہماری اور ہمارے بزرگوں کی نادانی ۔ دیکھو آج کس حال میں آ پہنچے ہیں ۔
چچا! لیکن کیا جو لوگ وہاں گئے ان کے سارے مسائل حل ہوگئے ؟ کیا انہیں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ؟ یا جو لوگ پہلے سے وہاں تھے انہیں کوئی مسئلہ در پیش نہیں ؟ کیا آپ جہاں جارہے ہیں وہاں اس قسم کے مسائل جنم نہيں لیں گے؟ کیا یورپ میں ہی جہاں مسلمانوں کی تعداد نسبتا زیادہ ہے وہاں اس قسم کے واقعات رونما نہیں ہورہے ؟ کیا برقع اور داڑھی وہاں بھی مسئلہ نہیں ؟؟؟
چچا کو اس سوال کے جواب میں تھوڑی پریشانی ہو رہی تھی ، وہ جیسے اس سوال کے لیے تیار نہیں تھے ۔ بھتیجے ! جانے والے پھربھی ہم سے زیادہ اچھے ہیں ، مسائل تو خیر ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہم جہاں جا ر ہے ہیں وہاں بھی مسائل ہوہی سکتے ہیں لیکن ہمارے پاس دوسری کوئی راہ بھی کہاں بچی ہوئی ہے ۔تمہی کہو کہ ہم لوگ آخر کیا کریں ؟چچا! میرے خیال سے یہ حالات کا درست مطالعہ نہیں ہے ، ہم جلد بازی کررہے ہیں ، ہم اس سرزمین پر آج سے نہیں ہیں ، ہماری نسلیں یہاں پروان چڑھی ہیں ، ہم نے ہر طرح کے حالات دیکھے ہیں ، آج سے بھی بدتر حالات پیدا ہوئے ہيں لیکن ہم نے مقابلہ کا ذہن رکھا ہے ، یہ شکست خوردہ ذہنیت کا شاخسانہ ہے کہ ہم فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں ، یہ ہجرت تیس کروڑ لوگوں کے لیے ممکن نہيں ، یہ ہجرت بڑے لوگ ہی کرپائیں گے اور پھر جو پیچھے رہ جائیں گے ان کے لیے اپنے دین وایمان اور شناخت کی حفاظت مزید مشکل ہوجائے گی ، چچا! یہ فرار ہے ، ورنہ اگر ہم آج بھی یہ طے کر لیں کہ ہم جھکیں گے نہیں اور ہم ظلم کا مقابلہ کریں گے تو ہمیں مٹانا کسی کے بس میں نہيں ہوگا۔ آزادی کے بعد ہم اس ملک میں ساڑھے تین کروڑ تھے ، آج اگر ہم صرف سرکاری اعداد وشمار کو دیکھیں تو بھی چوبیس کروڑ ہیں ، ویسے تو ہم تیس کروڑ سے کم نہیں ہیں ، سوچیے کیا یہ آبادی کہیں بھی سکونت اختیار کرسکتی ہے ؟ یہ بھی طے ہے کہ ہمارے بدخواہوں کو پتہ ہے کہ وہ ہمیں یہاں سے نکال نہيں سکتے ، اس لیے وہ پریشان کرتے ہیں ، شیطان ویسے بھی پریشان ہی کرسکتا ہے ، ہمیں حالات سے لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔
اور ہاں سچ پوچھیے تو ابھی ایسے بھی حالات پیدا نہیں ہوئے ہیں کہ ہجرت ہی اپائے رہ جائے ۔ ابھی بھی بہتر حکمت عملی اور مضبوط قوت ارادی سے حالات کا رخ موڑ کر نئی تاریخ رقم کی جاسکتی ہے ۔آپ کو یہ جان کرتعجب ہوگا کہ جب بنگلہ دیش اپنی آزادی کی لڑائی لڑ رہا تھا تو بھارت کے جس ڈپلومیٹ نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ سرگرم کردار ادا کیا وہ سید شہاب الدین تھے ، بعد میں جب وہ مجلس مشاورت کے لیڈر کے طور پر ابھرے اور ان سے یہ سوال کیا گيا تو انہوں نے دو باتیں کہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ ان کا قومی کردار تھا اور دوسرے یہ کہ اسی میں ان کی اپنی ملت کی بھی بھلائی تھی کہ 71 سے پہلے لوگوں کو لگتا تھا کہ وہ سفر کرکے پاکستان جاسکتے ہیں ، 71 کے بعد یہ صورت حال بالکل بدل گئی اور انہوں نے اپنی ساری تقدیریں اسی سرزمین سے وابستہ کرلیں اور پھرساری توجہات یہیں مرکوز کردیں اور اس کا بہر حال فائدہ بھی ہوا۔چچا! دشمنوں کی اصل سازش یہی ہے کہ ہم اس سر زمین پر اپنے حقوق ملکیت سے دستبردار ہوجائیں یا ان کی سازشوں کا شکار ہوکر کسی طرح خود کو کمتر سمجھنے کی غلطی کرنے لگ جائیں ، یاد رکھیے کہ یہ لڑائی صرف مادی نہيں ہے، یہ فکری اور نظریاتی بھی ہے اور ہمیں بہت قوت سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ہمیں تو لگتا ہے کہ ہم نے ڈر کو اپنا لیا ہے ، یہ ہجرت نہیں ہے ، یہ فرار ہے اور اس سے مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا ، سوچیے کہ اگر ہم سمجھدار لوگ نکل جائیں گے تو ہمارے کمزوروں کی یہاں کیا درگت ہوگی ، ان کا پرسان حال کوئی نہ ہوگا ، اگر خوف کا عالم ابھی یہ ہے تو بعد میں کیفیت کیا ہوگی ؟ کیا تب ہم خود کو معاف کرپائیں گے ؟؟
چچا نے اس کی بات بغور سنی اور کہا کہ بیٹے تم ٹھیک کہتے ہو ۔ ڈر کے عالم میں لیا گيا یہ ایک جذباتی فیصلہ ہے ، تم نے ہماری آنکھیں کھول دیں ، ہمیں رکنا ہوگا اور بقیہ تمام لوگوں کو روکنا ہوگا ۔ ایسا کرو کہ تم جہاز سے اترو اور ہماری طرف سے اعلان کرو۔اس نے ہوائی جہاز سے اتر کر زور زور سے آواز لگانی شروع کی : ہمیں یہیں رکنا ہے ، ہم لوگ اپنا ملک نہیں چھوڑ سکتے ، ہم مقابلہ کریں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے ، سب لوگ رک جائیے ۔۔۔۔۔۔وہ زور زور سے اعلان کررہا تھا ۔۔۔۔ یکایک اس کی آنکھ کھل گئی ، اس کی بیوی اس کے سر کے بال سہلا رہی تھی اور پوچھ رہی تھی : کیا ہوا ؟ ڈر گئے تھے کیا ؟ عجیب وغریب آوازیں نکال رہے تھے آپ ؟ دائیں کروٹ سوئیے ، دعائیں پڑھ لیجیے اور بائيں طرف تھکتھکا دیجیے ۔
کیا ہندوستانی مسلمانوں کو ایک اور ہجرت کے بارے میں سوچنا چاہیے ؟- ثناءاللہ صادق تیمی
previous post