شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی، دہلی
تسلیم کیجیے کہ ادب کے ایجنڈے میں تمام بنی نوع انسان کے مسائل شامل ہیں ، مگر دنیائے ادب کے معاملات میں نہ تو ہر فرد بشرکو دخل و اختیار کی اجازت ہے نہ اس کے انتظامی امور میںبھانت بھانت کے شعبے قائم ہیں۔ یوں جانیے کہ ادب کی کائنات میں بس تین قسم کے لوگوں کی بساوٹ ہے: اول تخلیق نگار حضرات،دوم قارئین کرام اور سوم صائب الرائے ناقدین۔ بعض ممالک یا بعض ادوار میں چوتھی قسم کے لوگوں نے صاحبان اقتدارکی حیثیت سے اس میں جب جب شمولیت اختیار کی یا اس کی کوشش کی تو ادب کی صورت حال وہی ہوئی جو اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں ہندوستان کے الکٹرانک میڈیا کی ہے ؛جس میں ایمانداری کا فقدان،اصولوں کی پامالی اور ’زبان غیر سے شرحِ آرزو ‘ کرنے کاانداز اظہر من الشمس ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانے کی تخلیق اپنے عہد کی عکاسی سے کہیں زیادہ اس عہد کے تخلیق نگاروں کے فکروفن اور ان کے ویژن کی آئینہ داری کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کسی رجحان یاتحریک کے تحت لکھے جانے والے ادب کے انبار میں شاہکارکا درجہ انھی فن پاروں کو ملتا ہے جن کے خالق کا ویژن عظیم اورمطالعہ وسیع ہوتا ہے اوروہ خود فن کے رموز واسرار اور ذریعۂ اظہار کی نزاکت و نفاست سے بخوبی واقف ہوتاہے ۔اس ضمن میں پریم چند سے لے کر حجاب امتیاز علی ،قرۃ العین حیدر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، سریندر پرکاش، انتظار حسین،نیر مسعود، اسد محمد خاں، سلام بن رزاق اور علی اکبر ناطق وغیرہ تک کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ سچائی یہ بھی ہے کہ ہر عہد ، رجحان یا تحریک اپنے تخلیق نگاروں اور قاریوں کے ساتھ ناقدوں کی بھی ایک کھیپ تیار کرتی ہے جس کی وجہ سے تخلیق کار کی فنکاری ، ادب کی سمت ،اس کی نشو ونما ، اس کے معیار کے تعین ، قاری کے شوق مطالعہ، ذہنی نمو اورذوق جمال کی تعمیر میںایک نوع کی معاونت ہوتی ہے ۔ لیکن ہمارے عصر کا المیہ یہ ہے کہ اس میں کوئی ادبی رجحان یا تحریک سرے سے ہے ہی نہیں ؛ نہ نئی نہ پرانی ۔سو، ہمارے معاصر تخلیق کار، ناقدین اور قاری فکشن کے اومنی پریزنٹ راوی کی مانند ہمہ جہت آزاد ہیں۔ کہنا چاہیے کہ تخلیق کاروں، قاریوں اور ناقدوں کا ہم عصر گلّہ، گلّہ ٔ بے صفورہ ہے جس کا نہ کوئی رہنماہے ، نہ نگہبان،نہ ہمدرد۔شاید یہی وجہ ہے کہ سنہ اسی سے لے کر اب تک تقریباً چالیس سال سے ہم ادب کے وسیع وعریض ’میدان ِتیہ ‘ میں بنی اسرائیل کی طرح کسی جائے اماں کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ہماری سمجھ میں اب تک یہ نہیں آرہا ہے کہ ہم ادب کا کون سا معیار متعین کریں، کیونکہ زبان و بیان اور فکر و خیال کے پرانے معیار کو تسلیم کرنے کے لیے ہم راضی نہیںاور اپنا کوئی قابل قبول معیار متعین کر نہیں پائے ہیں۔ ہمارے عہد میں کوئی رجحان یا تحریک بھی نہیں چل رہی ہے جس سے اوب کر یا اس کی ضد میں ہمارے اندر رد عمل کی نفسیات پیدا ہو اور ہم کسی متضاد یا مماثل رجحان یا تحریک کو جنم دیں۔ حد تو یہ ہے کہ آئیڈیا سیل کے اس معاشی عہد میں جہاں دنیا کی تمام مصنوعات اور پیشہ ورانہ صلاحیتوںسے زیادہ قیمت آئیڈیا کی چکائی جارہی ہے؛ خواہ وہ آئیڈیا مصنوعات کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کی جیبوں کے پیسوں کو چند سرمایہ داروں کے اکاؤنٹ میں کھینچ لانے کا ہو ، کسی ملک کے ذخائر اور اقتدار کو غصب کرنے کے لیے دنیا کو اپنا ہمنوا بنانے کاہو، اکیلی سیاسی پارٹی یا متحدہ محاذ کے لیے ووٹوں کو ہموار کرنے، یا پھر حکومتوں کے ذریعے عوام کو زندگی کے بنیادی مسائل، جمہوری حقوق اور منشور میں کیے گئے وعدوں سے دور رکھنے کا۔ فی الوقت ہمارے پاس نئے ادب کی تخلیق یا معاصر ادب کو مزید بہتر بنانے کاایسا کوئی آئیڈیا بھی نہیں ہے۔
غالباً آپ کے ذہنوں میں اس نوع کے سوالات نے سر ابھارنے شروع کردیے ہوں گے کہ : ’’ اس کا مطلب ہمارے معاصر تخلیق کار یا تو لکھ نہیں رہے ہیں ، یابہت خراب لکھ رہے ہیں، یا پھرلکیرکے فقیر بنے بیٹھے ہیں؟‘‘ ان سوالات کے متعلق بحث کرنے ، ان کا جواب ڈھونڈنے یا کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے آئیے اقلیم ادب کے تینوں قسم کے باشندوںیعنی تخلیق نگار،قاری اور ناقد کے معاصر کردار کے حوالے سے مختصراً گفتگوکر لی جائے ۔(کیا پتہ پھر اس گفتگو کے بعد بحث کرنے، جواب ڈھونڈنے اور نتیجے تک پہنچنے کی ضرورت ہی نہ رہے ۔ )
ابتدا ناقد سے کرتے ہیں۔واضح رہے کہ ناقدکی حیثیت نہ توقاری اور فن پارے کے مابین ترجمان کی ہے ، نہ وہ تخلیق کارکا محاسب ہوتاہے اور نہ ہی قاری کا معلم۔ تسلیم کیجیے کہ ناقدایک آزاد اور خود مکتفی فنکار ہے ۔ ہاں ! اسے تخلیق کار کا مشیر و معاون اور قاری کا دوست و ہمنوا کہنا بیجا نہ ہوگا۔ البتہ یہ بات ضرور ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ جس طرح ٹوپی اوڑھ لینے والاہر شخص مسلمان نہیں ہوتاویسے ہی ہر مضمون نگار بھی ناقد نہیں ہوتا۔ در اصل نقاد کے لازمی اوصاف میںجو چیزیں شامل ہیں وہ ہیں: مختلف علوم و اصناف سے گہری واقفیت، فن کے رموز و اسرار سے مکمل آگہی،زبان و بیان کی نزاکت و نفاست کی رمز شناسی اور مختلف تہذیب و ثقافت سے آشنائی کے علاوہ جرأت ودیانتداری اوربے تعصبی ۔ ناقد کابنیادی وظیفہ فنکار کی محض تحسین و تنقیص ، ذاتی علوم کی نمایش یاقاری کی نمائندگی نہیں بلکہ فن پارے کے تحلیل و تجزیے کے حوالے سے حاصل مطالعہ کو بطور فن پوری ایماندار ی ، سنجیدگی اور بے باکی سے پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس تعلق سے محمد حسن عسکری، پروفیسر احتشام حسین،پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی ، پروفیسر محمد حسن، وارث علوی اور پروفیسر قاضی افضال حسین وغیرہ کے نام بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔
غالباً ان حضرات کی جرأت و دیانت کی سخت گیری اور غیر معیاری تخلیقات سے بے اعتنائی کے رد عمل کی بنا پر ہی فکشن نگاروں نے اپنا نقاد خود اپنی جمعیت سے پیدا کرنے کی تحریک چلائی اور اس میں خاطر خواہ انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔ سو کہنے کی اجازت دیجیے کہ آج ہمارے بیشتر معاصرین فکشن نگار ہی فکشن کے نقاد بھی ہیں۔ چنانچے غضنفر کے فن پر صغیر افراہیم ، صغیر افراہیم پہ غضنفر، حسین الحق کے فن پاروں پہ بیگ احساس، بیگ احساس کے افسانوں پہ حسین الحق ، و علیٰ ہٰذا القیاس۔ اسی طرح اور لوگ بھی آپس میںایک دوسرے پہ تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں۔ جب حالت یہ ہو کہ آپس میں ہی ایک دوسرے کوکارکردگی کا رپورٹ کارڈ دینے اور انھی لوگوں سے اپنا رپورٹ کارڈ لینے کا معاملہ آپڑا ہو تو جراحت پہنچانے والی حق گوئی و بے باکی کے مقابلے میں’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘والے بے ضرر اور تسکین آور مشروب کو مباح قرار دے لینے میں کیابرا ئی ہے۔
تنقید کی دوسری صورت حال یہ ہے کہ ناقدین جن کی شناخت جری ، ایماندار اور بے ریا کے طور پر قائم تھی ان میں سے بعض نے باباؤں کا روپ دھارن کرلیااور غرض مندوں کو عقیدت اورخواہش و ضرورت کی اس قدر افیم پلائی کہ ہر گروہ نے اپنے اپنے بابا کومقنع خدا اور ان کی تحریروں کو چاہ نخشب سے نکلا ہوا چاندجانا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے سایہ ٔ عاطفت میں آنے والے مرعوب ناقدین ادب و تنقید کی وسیع کائنات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بجائے خود آشرم کی چہار دیواری میں محصور ہوگئے اور اپنے آزاد فکر و خیال کو ایمائے مرشد کا تابع بنانے میں عافیت سمجھی ۔ نتیجے کے طور پر تنقید کا ایک نیا دبستان قائم ہوا جسے’ گروہی دبستان ‘کہنا چاہیے۔ اس دبستان کی بنیادی شناخت یہ ہے کہ جب یہ دوسرے گروہ کے فنکار یا اس کے فن کے تعلق سے لکھتا ہے تو بیان میں افراط وتفریط لہجے میں تیزابیت اور زبان میں رکاکت و ابتذال تک شامل ہوتے ہیں۔ جب کہ اپنوں کے لیے معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔ مرعوب ناقدین کے ان جتھوں کو جارج آرویل کے معروف ناول’’ اینمل فارم‘ ‘میں موجود بھیڑوںکے اس ریوڑ سے تشبیہ دیجیے تو غلط نہ ہوگا جو ’اسنوبیل‘ اور ’نپولین ‘کے رٹائے ہوئے اس جملے کوحرزِ جاں بنا ئے رکھتے ہیں : ’’چار پاؤں والے اچھے دو پاؤں والے خراب، چار پاؤں والے اچھے دو پاؤں والے خراب۔‘‘ اب ناقدین کے ایسے گروہ سے معاصر تخلیق کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچا ، اس کے تجزیے کا یہ موقع نہیں ہے ۔
تنقید کی تیسری صورت حال یہ ہے کہ بیشتر تخلیق نگاروں کا تعلق اہم اداروںبالخصوص کالجز اور یونیورسٹیز سے ہے۔ سو، نوکری کے دلاسے ،اور بحالی سے لے کر پروموشن، اور سیمناروں کی دعوت سے لے کر فائدہ پہنچانے والی کمیٹیوں میں نامزدگی تک کا اختیارانھی صدق و دیانت کا درس دینے والوں کے پاس ہے جن کی فطرت کو سچائی اور بے باکی ذرا کم کم ہی راس آتی ہیں۔ پھر سوئے اتفاق یہ کہ ناقدوں کی نئی پود کی اکثریت بھی ایسے ہی اداروں سے منسلک یا ان میں باریابی کے لیے کوشاں ہے۔ چنانچے اس زمرے کے زیادہ تر ناقدین تخلیقی فن پاروں کے ساتھ ساتھ صاحبان اختیار کی تنقیدی نگارشات اوران کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلوؤں اور جملہ کارناموں کواس حوصلے سے بیان کرتے ہیں گویا وہ چیچک کے داغوں میں ستاروں کی چمک ثابت کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا انویسٹمنٹ کر رہے ہوں ۔ ان کی تنقیدی تحریروں اور تبصروںمیں افراط ،لہجے میں خوشامد ، بیان میں مبالغہ بلکہ مکاذبہ اور زبان میں بے جا صفات کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ خائنوں ، سارقوں اور نان رائٹر تک کے قد کو جینوئن تخلیق کار اور ناقدین کے قد سے اونچا اٹھانے کی ناکام کوششوں میں بھی کوئی فنی یا اخلاقی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس طریقۂ کار کا نتیجہ معاصر ادب اور ادیبوں کے لیے بالکل ویساہی ہے جیسے’ داعش‘ کا مذہب اسلام اور مسلمانوں سے دوستی کا دعویٰ ۔ یا بزبان غالب: ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔
اس قدر گفتگو کے بعد کافی حد تک یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نقادوں کی جمعیت جوعلمی و ادبی فضا کی نگہبان و محافظ، فنی اعتبار سے تخلیق کار کی مشیر و معاون اور اخلاقی طور پر بے ریا ، بے باک اور غیر جانبدارتھی ؛ معاصر عہد میں اس کے متعدد افراد کافی حد تک مصلحت، مفاہمت اور کسی حد تک منافقت کا شکار ہوچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تخلیق کار کو ناقد سے مخلصانہ مشاورت، علمی معاونت، نئے فکر و نظر کی روشنی یا دیانتدارانہ فنی احتساب کی وہ کُمَک نہیں مل پا رہی ہے جو اُن کا ادبی حق ہے۔
ناقدین کی مصلحت و مفاہمت اور قارئین کی قلت کے با وجود آفریں ہے معاصر تخلیق نگاروں کو جنھوں نے نہ تو ہمت ہاری، نہ ہی نئے تخلیقی جہان کی دریافت اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ چھوڑا ہے۔ وہ اب بھی لکھ رہے ہیں اور پورے جوش و خروش کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ محض اکیسویں صدی کے سولہ سترہ برسوں میں شائع ہونے والے متعدد ناولوں کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ معاصر تخلیق نگار کمیاب موضوعات کو ڈھونڈ رہے ہیں، نئے اسلوب وضع کر رہے ہیں، بیانیے میں تنوع پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان دیکھی ،انجان اور نظر انداز کی گئی دنیاؤں کو منکشف کرنے کا ہنر ایجاد کر رہے ہیں،نئے اور نایاب کرداروں کی تلاش و تخلیق کے عمل سے گزر رہے ہیں اور فن کو جدید رنگ و آہنگ سے آراستہ کرنے میں کوشاں ہیں ۔ اس حوالے سے پاکستان میں لکھے گئے ناولوں میں مرزا اطہر حسین کا’ غلام باغ‘، اور ’صفر سے ایک تک‘، خالد طور کا ناول ’بالوں کا گچھا‘،علی اکبر ناطق کا بڑا ہی خوبصورت، رواں اور تازہ کار ناول ’ نولکھی کوٹھی‘، اختر رضا سلیمی کا ناول ’جاگے ہیں خواب میں ‘ ، ظہور احمد خاں کا ناول ’ آدھی رات کا سورج‘اور ہندوستان میں ’شمس الرحمٰن فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ ، انیس اشفاق کا ’خواب سراب‘ مشرف عالم ذوقی کا ’اس کارگہِ شیشہ گری میں‘،سید محمد اشرف کا ناول ’ آخری سواریاں‘ شموئل احمد کا ’گرداب‘ اور حسین الحق کا ’اماوس میں خواب‘ بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ناولوں کے موضوعات اہم ہیں اورفنی ٹریٹمنٹ عمدہ۔کہانی کے زمانی عرصے، علاقے، کردار، بیانیہ ،بیان کردہ تہذیب ور وا یات، مناظراور واقعات میں بڑی ہم آہنگی ہے ۔ بیان ِ واقعہ میں مخصوص بہاؤاور ہر لمحے آگے بڑھنے کا دلچسپ اور تجسس آمیز احساس موجود ہے ، طریقۂ اظہار میں ایک نوع کی سنجیدگی اورزبان میں ایک خاص طرح کا حسن او رسلیقہ نمایاں ہیں۔ان میں سے کئی ناولوں کو ان کے تخلیق کاروں نے تحقیقی کاوش، کثرت مطالعہ، تاریخی دستاویز سے استفادے ، ماضی کی بازیافت ، چست بیانیے اور انوکھے موضوع کے حوالے سے شاہکار کی حیثیت عطا کی ہے ۔
ظاہر ہے مذکورہ ناول معاصر تخلیقی عہد کا شناخت نامہ نہیں ؛ محض عمدہ ناول نگاری کی چند مثالیں ہیں۔ مقصد ناولوں کی فہرست سازی بھی نہیں، کہ ان سترہ ،اٹھارہ برسوں میں ڈیڑھ سو سے زائد ناول شائع ہوئے ہیں، افسانوں کی تعداد اس سے سوا ہے۔ ان سب کی زمرہ بندی اور ان پر گفتگو دقت طلب، طویل مدتی اور آزمائشی مرحلہ ہے۔یوں ان میں سے بیشتر ناولوں اور افسانوں کے مطالعے اور چند فکشن نگاروںکے رویوں سے جو ایک عمومی صورت حال سامنے آتی ہے وہ کافی حد تک قابل اطمینان تو ہے لائق افتخار ہر گز نہیں۔ بعض ناولوں اور افسانوں میں توکہانی کا زمانہ کچھ ہوتا ہے ثقافتیں کچھ اور۔ علاقہ کہیں کا ہوتا ہے زبان کہیں اور کی ۔ کردار کوئی اور ہوتا ہے اعمال و افعال کسی اور کے انجام دیتا ہے۔ گویاان میں زبان و بیان، فکر و خیال ، زمان و مکان اور راوی و کردار میں ہم آہنگی مشکل سے نظر آتی ہے ۔ایک دو ناول ایک اکائی یا مربوط فن پارہ بننے کے بجائے دو لخت ہوگئے ہیں۔ بعض کم ضخامت کے ناول میں ایک دو ،یا تین چار نہیں بیک وقت آٹھ دس موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چند ایک پر کثرت مسائل کی وجہ سے بھان متی کے پٹارے کا گمان ہوتا ہے۔کچھ ناول خلط مبحث کا شکار ہیں ۔ بعض ناولوں کے بیانیے حساس مسائل کے ملغوبے اور جذباتی تقریر کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔بعض ناولوں میں سنسنی خیزی پیدا کرنے کی غیر ضروری اور انھیں متنازعہ بنانے کی شعوری کوشش سطح پر نمایاںہے۔ چند ناول غیر دلچسپ سوانح اور سفرنامے معلوم ہوتے ہیں۔ کئی تو ہم عصر صحافت نامہ ہے۔ کچھ میں انشائیوں کی سی کیفیت در آئی ہے۔ چند ایک تو ’کاتنے سے پہلے لے دوڑنے کا اعلان کرتے ہیں اور بیشتر ناول تخلیقی زبان کے استعمال، دلکش بیانیہ ، سحر انگیز فضاکی تخلیق اور فراہمی مسرت و بصیرت سے عاری ہیں۔یہ ساری باتیں بیشتر افسانوں پہ بھی لاگو ہوتی ہیں۔
نہیں بھولنا چاہیے کہ عمدہ ناول کے لیے موضو ع کی انفرادیت اور تازگی ، فکر و خیال کی بلندی ، زمان و مکان کی وسعت ، واقعات میں ربط وتوازن ، بیانیے میں منطقی صداقت اور دلکشی ،کرداروں میں انوکھی واقعیت، کہانی میں دلچسپی کے عناصر ، زبان میں تخلیقیت اور ان سب میں ہم آہنگی کے علاوہ پیش کش میں سلیقہ مندی اور ایک نوع کی سنجیدگی بہر طور ہونی چاہیے ۔ ہمارے معاصر تخلیق کار خوب جانتے ہیں کہ یہ سب کثرت مطالعہ، وسیع النظری ،فنی کاوش ، مناسب ٹھہراؤ اور ادبی مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ناول اور افسانہ اپنے معیار ، موضوع اور زبان و بیان کی بنا پر قارئین میں ہلچل پیدا کرتا تھا، اب فکشن نگار اپنے ناول یا افسانوں کے تعلق سے اخباری بیانوں ، سوشل میڈیااور مختلف پینتروں کے ذریعے قارئین اور غیر قارئین میں ہلچل پیدا کرنے کے طریقے آزماتے ہیں۔ وہ فن پر محنت کرنے سے کہیں زیادہ اپنے فن پارے کی پبلسٹی کے حربوں پر توجہ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ عام لوگوں تک ناول یا افسانہ پہنچنے سے پہلے ان پر تحسینی پروگرام کی مفصل رپورٹیں، رسائل کے گوشے یا نمبراور بعض دفعہ محض اس ایک ناول سے متعلق تنقیدی مضامین کا مجموعہ یا باضابطہ کتاب تک شائع ہوکرلوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ کئی تخلیق کار اور ناقدین توتخلیق و تنقید کے رخسارو زلف سنوارنے سے قطع نظر اپنی شخصیت پر کتابیں لکھوا کر اپنا قد مزید اونچا اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حیرت نہ کیجیے کہ یہ معاملہ شاذ اور معیوب کے دائرے سے باہر نکلتا جارہا ہے۔
اب ایسی صورت حال میںمعاصر عہد کا بے چارہ قاری (ظاہر ہے قاری میں تخلیق کار اور ناقدین بھی شامل ہیں) کیا کرتا۔ سو، ہوا یہ کہ تازہ، عمدہ،معیاری تخلیق اور دیانتدارانہ، سنجیدہ اور بے باک تنقیدکی نایابی یا کمیابی کی صورت میں وہ اپنے وقت کا قابل قدر حصہ مع علمی و ادبی نان نفقے کے فیس بک، واٹس اپ اور چیٹنگ باکس کے نام کرچکا ہے ۔ جہاں وہ دوئم سوئم درجے کے لطیفے پڑھنے،کچے پکے اشعار پہ داد دینے،جھوٹی سچی خبروں پہ رد عمل کا اظہار کرنے،الٹی سیدھی تصویر وں پہ ماشا ء اللہ ،سبحان اللہ لکھنے اور فکری ، نظریاتی اور مسلکی مباحثے میں شمولیت اختیار کرنے کے علاوہ روزانہ دسیوں شارٹ ویڈیودیکھنے میں ایسا کھویا کہ اس دل لگی میں ’عزت سادات ‘کا بھی اسے خیال نہ رہا۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ وہ معاصر کتابوں سے عشق کا موقع بھلا نکالے بھی ؛ تو انھیں ڈھونڈے کہاں؟ یقین کیجیے کوئی دل ربا کہانی، دلکش مجموعہ،نک سک سے درست ناول یا کوئی سچی تنقید قاری کو اپنی طرف مائل کرے،ترغیب دے سکے ،اپنے ساتھ وقت گزارنے پر آمادہ کر لے ، تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور نہ ہوجائے۔ اور اگرشہر ادب ایسے مستند صحیفوں سے خالی ہے تو یہ ذمہ داری ہمارے معاصر تخلیق کار اور ان کے مشیر و معاون ناقدوں کی ہے کہ وہ مرتد قاریوں کو ادب وتنقید کی شریعت میں واپس کیسے لائیں۔ سوچنا تو ناقد اور تخلیق کار کو ہی ہوگا کہ قاری کے شوق مطالعہ کو پروان چڑھانے، ان کے جمالیاتی ذوق کو آسودگی بخشنے اور انھیں مسرت و بصیرت فراہم کرنے والی تخلیق وتنقیدکی تشکیل نو کے لیے کیا کیا جائے ۔
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ معاصر تخلیق کار اور ناقد مصلحت ، مفاہمت،خوشامد اور حصول شہرت کی مکروہ حویلیوں سے نکل کر سعی و کاوش اور دیانت و جرات کے ریگزار میں اترنے کی ذمہ داری محسوس کریں ۔ فی الوقت تو صورت حال یہ ہے کہ معاصر تخلیق اور اس کے تعلق سے لکھی جانے والی تنقید پردیانتدارانہ اظہار رائے سے لوگ ویسے ہی خوف کھاتے ہیں،جیسے اِن دنوں سرکاری خدمت گاروں کے بارے میںلوگ سچی بات کہنے سے ڈرتے ہیں ۔ رسالوں میں چھپے ہوئے قارئین کے خطوط، کتابوں پر تبصرے اور سیمناروں کے صدارتی خطبے سے لے کر مختلف جرائد میں شائع ہونے والے تنقیدی مضامین ومقالات تک کو پڑھ جائیے ہر جگہ خیریت ہی خیریت یا پھر مفاہمت نظر آئے گی۔الا ماشاء اللہ ۔ میر تقی میرؔ،خواجہ حالی اور کلیم الدین احمدجیسے ناقدوں کا زمانہ رہا نہیں، وارث علوی صاحب خدا کو پیارے ہوگئے ، پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی ان کج کلاہوں کی آخری قابل احترام شخصیت ہیں۔ تاہم مقام شکر ہے کہ روایت پرستی اور مصلحت پسند ی کا طعنہ دینے والوں سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فکر وخیال کی جدت اور دیانت و جرأت کی اقلیم تنقید میں ابھی ہمارے پاس فاروقی اورپروفیسر قاضی افضال حسین جیسے با وقار اور نئی نسل میں آفتاب احمد آفاقی،رحمٰن عباس اور جاوید رحمانی جیسے بیباک ناقد زندگی کرتے ہیں۔ کیا عجب کہ مرعوب ، سہمے اور مفاہمت پسندوں کی بھیڑ سے سنجیدہ اور بے ریاؤں کی کوئی نئی کھیپ سامنے آئے، جن کی تحریروں سے لوگوں کو یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہو کہ اردوکی اگلی تحریک یا رجحان دراصل ’بے باک پسندی‘ کا ہوگا۔