Home نقدوتبصرہ شکستِ آرزو کا مؤثر بیانیہ:میں نے رام اللہ دیکھا-حقانی القاسمی

شکستِ آرزو کا مؤثر بیانیہ:میں نے رام اللہ دیکھا-حقانی القاسمی

by قندیل

تہذیبی وتاریخی تشخص کی گمشدگی اور وطنی شناخت سے محرومی ایک عظیم المیہ ہے۔ فلسطینی قوم بھی مدتوں سے اسی المیے کی شکار ہے کہ ان کی آنکھوں سے نہ صرف اُن کے خواب اور نیند چھین لئے گئے بلکہ ان کے تہذیبی اور ثقافتی استعاروں کو بھی مسخ اور مسمار کر دیا گیا اور نصیب میں دربدری، جلاوطنی، پناہ گزینی لکھ دی گئی۔ نقشہ سے اُس وطن کو غائب کر دیا گیا جس سے فلسطینیوں کی گہری، جذباتی وابستگی تھی اور اسرائیل کی شکل میں اس کی ایک نئی شناخت قائم کر دی گئی۔ یہ استعماری جارحیت اور بربریت کی ایک بدترین مثال تھی جس کی وجہ سے پوری فلسطینی قوم ایک وجودی بحران ،جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی بے جڑی کے احساس سے دوچار ہوئی۔ فلسطینی جن قیامتوں سے گزرے ہیں اس کا احساس تو پوری دنیا کو ہے، مگر اُن کے داخلی وجود پر اسرائیلی تسلط کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے،اس کا ادراک دوسرے لوگوں کو ذرا کم ہے۔ اسی لیے فلسطین کی حقیقی، داخلی صورت حال سے آگہی کا سب سے بہتر ذریعہ فلسطین کی شاعری اور فکشن ہے۔ فلسطینیوں کے وجود میں جو آتش فشاں ہے اسے محمود درویش، ابراہیم طوقان، توفیق زیاد، فدویٰ طوقان، سمیح القاسم، غسان کنفانی، امیل حبیبی، سحر خلیفہ، سلمیٰ خضرا الجیوسی کووغیرہ کو پڑھے بغیر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی جڑوں سے بچھڑنے کا دکھ ان کے شعرو ادب میں نمایاں ہے۔ ان کے لیے وطن مٹی کا ایک ٹکڑا نہیں اور نہ ہی ایک جغرافیائی نقشہ ہے؛ بلکہ ان کی دھڑکنوں اور سانسوں کا حصہ ہے۔ان کے ثقافتی تشخص اور تہذیبی شناخت کا ایک استعارہ ہے۔ مزاحمتی شاعر فیض احمد فیض نے فلسطینیوں کی بے گھری کے کرب کو یوں زبان دی ہے:
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہلاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

اردو کے شاعروں اور ادیبوں نے بھی فلسطینیوں کے المیے کو اپنے حساس وجود کے اندر محسوس کیا۔ المیۂ فلسطین پر اردو میں لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں علامہ اقبال، ادا جعفری، رفعت سروش، قیصر الجعفری، کوثر صدیقی، نعیم صدیقی، عائشہ مسرور وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔علامہ اقبال نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کاا گر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟
فیض احمد فیض نے یہ بھی کہا تھا:
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے!
اسی احساس کے ساتھ فلسطینی زندہ ہیں اور اپنے ذہن میں مقتولوں کے وطن کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ صہیونی مستعمریت کے خلاف آخری دم تک لڑنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ جس کی ایک مثال انتفاضہ تحریک ہے۔ فلسطینیوں نے اپنے وطن کو زندہ کرنے کے لیے موت کو گلے لگا لیا، مگر اپنے خوابوں کے پرچم کو نگوں نہیں ہونے دیا۔
مرید البرغوثی (8؍جولائی 1944 ۔14فروری 2021) بھی اسی فلسطین کے فرزند ہیں ،جن کی شناخت ایک اہم شاعر اور ادیب کے طور پر ہے۔ انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کیاہے۔ اُن کی شعری تخلیقات میں ’الطوفان و اِعادۃ التکوین(1972)، فلسطینی فی الشمس (1974)، نشید للفقرالمسلح(1977) ، الارض تنشر اسرارھا(1978)، قصائد الرصیف(1980)، طال الشتات (1987)، رنۃ الابرۃ(1993)، منطق الکائنات (1996)، لیلۃ مجنونۃ (1996)، الناس فی لیلھم (1999)، زھر الزمان(2000)، منتصف اللیل (2005)، استیقظ کی تحلم (2018) قابل ذکر ہیں اور نثری تخلیقات میں ’رأیت رام اللہ‘ (1997)، ولدت ھناک ولدت ھنا (2009) کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان کا وطن ’دیر غسانہ‘ بھی اسی سرزمین کا حصہ ہے، جس کی شناخت پہلے فلسطین کی شکل میں تھی، مگر1967میں،جبکہ برغوثی مصر میں زیر تعلیم تھے، اس کی شناخت مکمل طور پر بدل دی گئی۔ اسرائیل سے چار سال بڑے البرغوثی کی آنکھوں کا جس شہر سے رشتہ تھا وہ زمیں دوز کر دیا گیا:
’’وہیں ’’صوت العرب‘‘ کی نشریات سے احمد سعید نے مجھے خبر دی کہ رام اللہ اب میرا نہیں رہا،میں وہاں کبھی نہیں لوٹ سکتا،پوراشہر زمیں دوز ہوچکا ہے۔‘‘
دیرغسانہ اُن کی آنکھوں سے اوجھل رہا، مگر ان کے ذہن میں آباد رہا :
’’دیرِ غسانہ میں’ ’دارِ رعد‘‘ ہمارے گھر کا نام ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ نام کہاں سے آیا، ممکن ہے کہ رعد ہمارے آبا و اجداد میں سے کسی کا نام رہا ہو؛ کیوں کہ گاؤں کے باقی سارے گھروں کے نام بھی لوگوں کے نام پر ہی تھے ؛چنانچہ وہاں آپ کو دار صالح، دار العطرش، دار عبدالعزیز، دار السید وغیرہ مکانوں کے نام ملتے ہیں۔ دار رعد بھی ایسا ہی ایک نام تھا، ہمیں یہ بھی یقین سے نہیں معلوم کہ ہمارا خاندان، جسے فلسطین کے دیہی علاقوں کا سب سے بڑا خاندان سمجھا جاتا ہے، ’’البرغوثی‘‘ کے لقب سے کیسے مشہور ہوا۔‘‘
برسوں مہاجرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے رام اللہ بھی اُن کی آنکھوں میں بسا رہا:
’’رام اللہ بھی عجیب شہر ہے۔ مختلف ثقافتوں کا مجموعہ، مختلف الاشکال، کبھی بھی یہ کھردرا ،یک رُخایا بد ہیئت شہر نہیں رہا، ہمیشہ نئے تجربات کو اپنانے میں پیش پیش رہا، رام اللہ میں، میں نے دبکہ(عربی رقص) دیکھا گویا میں دیر غسانہ میں ہوں، یہیں اپنی نوعمری کے سالوں میں، میں نے ٹینگو سیکھا، الانقر بلیئرڈ ہال میں میں نے سنوکر کھیلنا سیکھا، رام اللہ میں میں نے شاعری میں اپنا ہاتھ آزمانا شروع کیا اور’’ ولید‘‘ ،’’ دنیا‘‘ اور ’’جمیل‘‘ جیسے فلمی شوز دیکھ کر میرا فلموں کا شوق بڑھا، رام اللہ میں، میں کرسمس اور نیا سال بھی منایا کرتا تھا۔‘‘

البرغوثی اجنبی زمین پر دربدری، جلاوطنی اور پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اسی ثقافتی اجنبیت اور بے وطنی کے احساس نے اُن کے جذبات، احساسات کی دنیا بدل کر رکھ دی ۔ وطن سے دوری نے اُن کے ذہن میں محزونی اور محرومی کے احساس کو شدید سے شدید تر کر دیا۔ اُن کی یہ جلاوطنی تلاشِ معاش یا بہتر مستقبل کے لیے نہیں تھی؛ بلکہ یہ دوسری نوعیت کی ہجرت اور جلاوطنی تھی، جس کے بارے میں انہوں نے یہ لکھا :
’’جلاوطنی اور بے گھری میرے نزدیک دراصل شکستِ آرزو کا نام ہے۔ ایک شخص اگر اپنی معیشت بہتر کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک جاتا ہے تو اسے بے گھر یا جلا وطن نہیں کہیں گے،اس نے تو اپنے اختیار اور اپنی پسند سے نقل مکانی کی ہے اور اس کے دل میں اپنے وطن کے تئیں غیر معمولی محبت و وارفتگی پائی جاتی ہے،وہ جب چاہے اپنے وطن لوٹ سکتا ہے۔ مگر جو شخص زبردستی اپنے وطن سے نکالا گیا ہو یا قوانین، افواج، سپاہ،پولیس اسے اپنے اولین وطن میں داخلے سے روکتے ہوں،تو وہ شخص جلاوطن اور بے گھر ہے، اس کے دل میں اپنے وطن کے تئیں وہ جذبۂ محبت نہیں ہوگا؛بلکہ اس کے دل میں نفرت و غضب کے جذبات ابھر رہے ہوں گے۔‘‘
مدتوں بعد جب اوسلو معاہدہ کی وجہ سے گھر واپسی کی صورت نکلی تو انہوں نے یہ دیکھا کہ سارے تہذیبی نشانات اور ان کی یادوں کے مقامات مٹ چکے ہیں۔ الحرش الصغیر اب حلمش نامی اسرائیلی بستی میں بدل گیا ہے۔ اُنھوں نے ماضی کے مقامات کو نہیں بلکہ مقامات کے ماضی کو شدت سے یاد کیا، انھیں مٹتے ہوئے نشانات کا بڑا دکھ ہوا جس کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:
’’اب ہمارے خطوط ہمارے پتوں پر نہیں آتے، انھوں نے ہم سے ہمارے گھروں کے پتے اور راہوں کی خاک تک چھین لی، انھوں نے ہمارے شہر کے ہجوم ،اس کے دروازوں اور اس کی گلیوں پر بھی قبضہ کرلیا، انھوں نے اس خفیہ کوٹھے کو بھی اپنے تصرف میں لے لیا، جس کے دروازوں پر کھڑے ہندوستانی اَصنام جیسے خوب صورت اجسام ہمارے نوخیز جذبات کو برانگیختہ کیا کرتے تھے، انھوں نے المطلع ہسپتال اور جبل الطور کو بھی ہتھیا لیا، جہاں میرے ماموں عطا رہا کرتے تھے، محلہ شیخ جراح بھی اب ان کے قبضے میں ہے، جہاں کبھی ہم رہا کرتے تھے،انھوں نے منگل کے آخری سبق میں اپنی میزوں پر بیٹھے طلبہ کی جمائیوں اور سستیوں پر بھی قبضہ کرلیا، حجن حفیظہ اور ان کی بیٹی حجن راشدہ سے ملنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں پڑنے والے میری نانی کے نقوشِ قدم پر بھی ہمارا حق نہ رہا، پرانے شہر میں واقع ان خواتین کے چھوٹے سے گھر اور اس چٹائی کو بھی لے گئے،جس پروہ نمازیں پڑھتیں اور وقت گزاری کیا کرتی تھیں، وہ اس دکان پر بھی قابض ہو گئے، جہاں سے میں خاص طور پر عمدہ چمڑے کا جوتا خریدنے کے لیے رام اللہ سے وہاں تک کا سفر کیا کرتا تھا اور واپسی میں گھر والوں کے لیے ’’زلاطیمو‘‘ سے کیک اور ’’جعفر‘‘ سے کنافہ لیتا اور پانچ قرش ادا کرکے بامیہ کی بس سے سولہ کلو میٹر کی مسافت طے کرکے خوشی خوشی رام اللہ اپنے گھر لوٹا کرتا تھا۔‘‘
اس کے علاوہ جن جن مقامات سے اُن کی یادیں وابستہ تھیں، انھیں وہ شدت سے تلاش کرتے رہے، مگر وہ مقامات بھی اپنی حقیقی شکل و صورت کھو چکے تھے اور اُن کی ہیئتیں بدل چکی تھیں۔دراصل جب تہذیبی اور ثقافتی علامتیں منہدم یا معدوم ہونے لگتی ہیں تو اس کا دکھ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ القدس بھی ایک ایسا ہی شہر تھا جس کی ایک مذہبی اور تقدیسی اہمیت و معنویت ہے، مگر اس شہر کی شکل و صورت بھی بدل دی گئی۔ البرغوثی نے اس لاہوتی اور اسطوری شہر کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’دنیا القدس کوطاقت اور اقتدار کی علامت کے طورپر جانتی ہے، خصوصاً قبۃ الصخرہ کو دیکھ کر آنکھیں مبہوت و مسخر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ القدس دراصل مختلف مذاہب کا شہر ہے، سیاست کا شہر ہے، تنازعات اور کشمکشوں کا شہر ہے، یہ اپنے آپ میں ایک دنیا ہے؛ لیکن باہر کی دنیا کو ہمارے شہر قدس، یہاں کے لوگوں کے شہرقدس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ القدس میںدوسرے شہروں کی طرح ہی مکانات ہیں ،گلیاں ہیں ، عوامی بازار ہیں ،جہاں مسالے اور سرکے بھی ملتے ہیں،یہاں عربک کالج ہے، رشیدیہ اور عمریہ اسکول ہیں، یہاں قلی اور ٹورسٹ گائڈ بھی ہیں، جو دنیا کی ہر زبان اس حد تک جانتے ہیں کہ اس کی بہ دولت وہ دن میں تین وقت کے کھانوں کا معقول انتظام کرسکتے ہیں، یہاںتیل کی منڈی اور نوادرات، موتی اور تل کے کیک بیچنے والے بھی ہیں، اس شہر میں لائبریری، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر اور دلہنوں کے مہنگے جوڑے بھی ملتے ہیں، یہاں بسوں کے ٹرمینلز بھی ہیں، جہاں بس پر سوار ہو کر ہر صبح گاؤں دیہات کے کسان خرید و فروخت کے لیے آتے ہیں، اس شہر میں پنیر، تیل، زیتون ، انجیر کی ٹوکریاں، ہار ، چمڑے کی مصنوعات اور صلاح الدین اسٹریٹ بھی ہے،جہاں ہمارے پڑوس میں ایک راہبہ رہتی تھی اور اس کا پڑوسی ایک مؤذن تھا، جو ہمیشہ جلدی میں رہتا تھا۔ پام سنڈے(عیسائی تہوار) کو تمام گلیوں میں کھجورکی ٹہنیوں کے جھنڈ نظر آتے ، یہاں گھریلو پودے لگانے کا بھی رواج ہے، یہاں کی گلیاں پختہ، تنگ اور ڈھکی ہوتی ہیں، یہاں دھلے ہوئے کپڑے الگنیوں پر سکھائے جاتے ہیں،یہ ہمارے حواس، ہمارے جسم اور ہمارے بچپن کا شہر ہے، وہ القدس، جس میں ہم اس کی ’’قداست‘‘ کے احساس کے بغیر چلتے ہیں؛ کیونکہ ہم اس شہر کے باسی ہیں؛ کیونکہ یہ شہر ہم سے ہے، جس کی سڑکوں پر ہم چپل یا بھورے یا کالے جوتے پہنے ہوئے تیز تیز چلتے ہیں، دکان داروں سے بھاؤ تاؤ کرتے اور عید کے لیے نئے کپڑے خریدتے ہیں، جہاں ہم رمضان کی خریداری کرتے اور روزہ رکھتے ہیں اور اس کمینی لذت کو محسوس کرتے ہیں، جب ہمارے نوعمرجسم ایسٹر کے دن یورپی سیاح لڑکیوں کے جسموں سے ٹکراتے ہیں،کنیسۂ قیامت کی تاریکی میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں اوران کے ساتھ ہی سفید موم بتیاں اٹھاتے ہیں، جنھیں وہ روشن کرتی ہیں۔‘‘

ایسے بہت سے اور بھی شہر اور قریات، چہرے، موسم، پرندے، گھر ،آنگن، دیوارو در ہیں جنھیں یاد کرتے ہوئے البرغوثی کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں اور جذبات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ مرید البرغوثی نے اپنے اُن محسوسات، جذبات اور کیفیات کو ’رأیت رام اللہ‘ کی شکل میںپیش کیا ہے۔ یہ تمام صنفی تشخصات کو توڑتی ہوئی ایک ایسی تخلیق ہے جو فکشن، خودنوشت، سفرنامہ، رپورتاژ کا خوبصورت مونتاژ ہے۔ یہ مختلف صنفی اسالیب کا حسین امتزاج ہے۔ یہ صرف ان کی آٹوبایوگرافی نہیں؛ بلکہ Autoethnography ہے۔ ایک ’نژاد نامہ‘ جس میں اُن کی نسل کے تمام احوال و کوائف اور زندگی کے نشیب و فراز اور مدو جزر محفوظ ہیں۔ یہ اُن کی یادوں کا ایک البم ہے، جس میں اُن کے اجڑے ہوئے محلے، ویران گلیاں آباد ہیں۔ یہ بے گھر ہوتی زندگی کی ایک المیہ داستان ہے؛ اس لیے اس میں ناسٹلجیائی عناصر کی کثرت ہے۔ اس میں ماضی کی یاد بھی ہے، تشخص کے بحران کا ذکر بھی ہے، مقامی ثقافت سے محبت کے ساتھ ساتھ ثقافتی تصادم کا بھی بیان ہے۔ انھوں نے اپنی جلاوطنی کے تجربات، وطن، تہذیب، روایت، زبان، کلچر اور لینڈاسکیپ سے دوری کی کیفیات کو سیاست ، سماج اور ثقافت کے سیاق و سباق میں پیش کیا ہے اور اجنبی زمین پر ہجرت کے تجربات کی پوری کیفیت بھی درج کی ہے۔Alienation, disassociation, deracination کو انہوں نے بہت دردمندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

یہ المیۂ فلسطین پر اپنی نوعیت کی پہلی ایسی سیاسی اور ثقافتی دستاویز ہے، جس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہواہے،Diasporic Literatureمیں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزی، فرانسیسی،اسپینش، ہالینڈی، نارویجین، ڈچ، ڈینش، پرتگالی، انڈونیشیائی، اطالوی، ترکی اور چینی کے علاوہ ملیالم اور بنگالی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوچکے ہیں۔انگریزی میں مصری ادیبہ اہداف سویف نے اس کا ترجمہ کیا تھا۔جب کہ ہندوستان کی ایک علاقائی زبان ملیالم میں کیرالہ کی شاعرہ انیتا تھمبی نے اسے ترجمہ کا پیکر عطا کیا ہے۔ البرغوثی کی اس کتاب کا مقدمہ مشہور دانشور ایڈورڈ سعید نے تحریر کیا تھا، جنھوں نے اس کتاب کی اہمیت اور معنویت کو واضح کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ:
’’برغوثی کی کتاب کی فنی اور تخلیقی عظمت اور قوت و تازگی اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ یہ بڑی جزرسی کے ساتھ ایسے کرب زدہ احساسات کو واشگاف کرتی اور اس قسم کے حالات میں انسان کے ذہن پر جیسے افکار و خیاات وارد ہوتے ہیں، اانھیں بڑی وضاحت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہے…اس کتاب نے فلسطینی تجربے کو نہایت متاثر کن اسلوب میں پیش کرنے کے ساتھ اسے ایک نئی معنویت سے ہمکنار کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر علی الراعی، ڈاکٹر فریال غزول، ڈاکٹر عبدالمنعم تلیمہ، خیری شلبی، صافی ناز کاظم، ڈاکٹر سید البحراوی، پیٹر کلارک نے بھی اس کتاب کے حوالہ سے بہت عمدہ تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ علی الراعی کی نظر میں یہ محض ایک کتاب نہیں ، ’یہ لخت ہائے دل اور اُس زندگی کا نچوڑ ہے، جسے اس عظیم شاعر نے پیہم جلاوطنیوں، مسافرتوں اور مہاجرتوں میں بسر کیا ہے۔‘واشنگٹن رپورٹ میں اس کتاب کے حوالے سے بہت اہم بات لکھی گئی ہے:
’’اس کتاب کی اہمیت دراصل اس حققیت میں مضمر ہے کہ دنیا کے بہت سے دوسرے لوگ تو پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات کرتے ہیں، مگر خود پناہ گزین یا تو خاموش رہتے ہیں یا انھیں سنا نہیں جاتا۔ برغوثی اس خاموشی کو اپنے طاقت ور، نغمہ ریز، مترنم و مؤثر بیانیے کے ذریعے توڑتے نظر آتے ہیں۔‘‘
اردو میں اس کے ترجمے کی شدید ضرورت تھی کہ ’قضیۂ فلسطین‘ کا اردو ثقافت اور صحافت سے ایک گہرا جذباتی رشتہ رہا ہے۔ نایاب حسن نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اسے اردو کا پیرہن عطا کیا ہے۔ انھوں نے ترجمہ کے تلازمات کا پورا خیال رکھا ہے اور کتاب کی روح کو بھی زندہ رکھا ہے، جب کہ زیادہ تر ترجموں میں تخلیق کی روح مر جاتی ہے۔ ترجمہ کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے اور اپنے اندر ایک جادوئی کیفیت بھی رکھتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی انگریزی اور دیگر زبانوں سے کہیں زیادہ ہوگی۔

You may also like