Home نقدوتبصرہ شبلی شناسی کی نئی جہات (علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے) – عبداللہ ندیم

شبلی شناسی کی نئی جہات (علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے) – عبداللہ ندیم

by قندیل

اشتیاق احمد ظلی صاحب سے ہماری قرابت داری ہے ،دور کی ہی سہی ،لیکن ہمارا مزاج ایساہے کہ قرابت داریاں ہمارے لیے دوریوں کا سبب بن جاتی ہیں ۔مولانا عبدالحسیب اصلاحی مرحوم ہمارے پھوپھا تھے ۔ہم جب تک فلاح میں رہے ،ہماری کوشش یہی رہی کہ کسی کو اس رشتے کے بارے میں بھنک نہ لگنے پائے۔انکی عربی دانی کے چرچے دور دور تک تھے (مولانانے امین احسن اصلاحی صاحب کی کئی کتابوں کو عربی میں منتقل کیا ہے )لیکن ہماری ہمت کبھی نہیں ہوئی اپنے پاس بہنے والے اس چشمے سے کچھ فیض اٹھالیں ۔ظلی صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ۔ایک دنیا انکے علم وفضل کی قائل اور تبسم ِ دل آویز کی قتیل ہے ،لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اگر ملاقات ہوجائے تو رسمی علیک سلیک بعد فورا بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور اگر مارے باندھے بیٹھنا پڑجائے ،توتاک میں رہتے ہیں کہ کب موقع ملے اور رسی تڑا کر بھاگ لیں ۔اسے ہمارے مزاج کا ٹیڑھ پن نہ سمجھا جائے ،یہ ہماری فطری جھجک اور جذبۂ احترام ہے ۔ابھی کچھ دن پہلے مرسلین اصلاحی نے اپنی فیس بک وال پر لکھا تھا کہ

“مدرستہ الاصلاح کی دو شخصیت ایسی ہیں ، جن کے انداز خطابت سے میں کافی متاثر ہوا ، وہ جب خطاب کرتے تو ان کی خطابت کے طنطنے ، لب و لہجہ کے ہمہمے اور زبان و اسلوب کے زمزمے سے ایک سماں بندھ جاتا ، الفاظ و جملوں کی بندش ایسی کہ رشک پیدا ہو جائے ۔ فکری طور پر دونوں بزرگ مدرسۃ الاصلاح کے مایہ ناز فرزند ہیں ۔ پہلی شخصیت استاذ گرامی محترم مولانا محمد ایوب اصلاحی غفر لہ کی تھی ، دوسری شخصیت پروفیسر اشتیاق احمد ظلی صاحب کی ہے”

لیکن ہم ہنوز اس سعادت سے محروم ہیں کہ ظلی صاحب کی گل افشانی گفتار سے حظ اٹھا سکیں یا اپنی کم علمی پر کف افسوس مل سکیں ۔”شبلی شناسی کی نئی جہات ،علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے “ سے پہلے ہم نے انکی کوئی تحریر بھی نہیں پڑھی تھی ۔صد شکر کہ ہمارے اندر ایک موکھا ،ایک روزن تو کھلا ۔

ظلی صاحب عالمِ دین ہونے کے ساتھ تاریخ داں بھی ہیں اور ان معنوں میں انھیں اس سلسلتہ الذہب کی ایک کڑی سمجھنا چاہیے، جس کے اولین سرے پر علامہ شبلی ہیں ۔

یہ کتاب اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ شبلی شناسی کے سلسلہ میں اس جہت سے ابھی تک کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا تھا ۔یہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو صرف نہ علامہ شبلی اور علی گڑھ سے انکے تعلق کی نوعیت کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ ہے ،بلکہ اس کے آئینے میں ان کے ذہنی ارتقاء کو بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔خود ظلی صاحب کے الفاظ میں

“علامہ شبلی اگر علی گڑھ نہ آتے تو بھی وہ پرانے انداز کے ایک بڑے عالم ہوتے ،لیکن وہ شبلی نہ ہوتے، جس نے علم وتحقیق کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑے ،جس سے فکر وفن کی شاہ راہ آج بھی روشن ہے اور کتنے ہی گم کردہ راہ قافلوں کو اپنی منزل کا نشان ملتا ہے “

آگے بڑھنے سے پہلے ذرا اس گزٹ کی تاریخ بھی جان لیتے ہیں۔ظلی صاحب کے بقول

“سر سید نے اپنے قیام غازی پور کے زمانے میں پڑھے لکھے لوگوں کو جدید سائنس سے متعارف کرانے کے مقصد سے ایک انجمن قائم کی ،جس کا نام انھوں نے سائینٹفک سوسائٹی رکھا ۔جب ان کا تبادلہ 1864میں علی گڑھ میں ہوا تو وہ اس انجمن کو اپنے ساتھ لائے ۔یہاں اس ادارے سے انھوں نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے اخبار نکالنا شروع کیا ۔اس کی خصوصیت کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ بیک وقت دو زبانوں میں نکلتا تھا “

ایسا نہیں کہ اس گزٹ سے اس پہلے کسی نے استفادہ نہیں کیا لیکن علامہ شبلی کے تعلق سے معلومات جمع کرنے کی ایسی کسی کوشش کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ظلی صاحب کا کارنامہ یہ انھوں نے اس کی ذریعہ علامہ کی زندگی کی وہ تصویر پیش کردی ،جس پر گو کہ پوری طرح پردہ نہیں پڑا تھا لیکن اس کے نقوش بہت غیر واضح اور دھندلے تھے ۔عوام الناس اور خواص ،دونوں کے لیے اس کتاب کی حیثیت نعمت ِ غیر مترقبہ جیسی ہے ۔مثلااس گزٹ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی اہم شخصیت کا ورود کالج میں ہوتا ،تو استقبالیہ پیش کرنے کی ذمہ داری علامہ شبلی کی ہوتی ،جو عموما ایک قصیدے کی شکل میں ہوتا اور فارسی میں ہوتا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ نے اپنی فارسی کلیات میں وہ کلام تو رکھا ،جس کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی صاحب اور ان کے ہم نواؤں کا کہنا ہے کہ رندی ،سرمستی اور بوالہوسی میں حافظ کے ہم پلہ ہے ،لیکن ان قصائد کو خارج کر دیا ۔ظلی صاحب اس کی توجیہ یوں کرتے ہیں کہ یہ باطمینان ِ قلب نہیں بلکہ باکراہِ قلب لکھے گئے تھے۔علامہ کو تملق اور مدح سرائی سے کوئی واسطہ نہیں تھا ،لیکن کالج کی محبت میں وہ یہ فریضہ بھی انجام دے لیتے تھے ۔دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ مہمانان کو جو تحفہ دیا جاتا ،وہ علامہ کی کتابوں پر مشتمل ہوتا،گویا کالج سب سے بیش بہا اثاثہ یہ تصنیفات تھیں ۔(مولوی عبدالحق صاحب کا کہنا تھا کہ تھوڑے دن کی بات ہے کہ ان کتابوں کو لونی لگ جائے گی ۔کاش وہ آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ انکی مانگ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور دھڑادھڑ انکے ایڈیشن شائع ہو رہے ہیں )

علی گڑھ آنے سے پہلے ہی علامہ کی بحیثیت مصنف شناخت بن چکی تھی ۔ان کی دو کتابیں “اسکات المتعدی “ اور “ظل الغمام فی مسئلتہ القراءہ خلف الامام “شائع ہو چکی تھیں لیکن بحیثیت مورخ اسلام انھیں کوئی نہیں جانتا تھا ۔اس کی بنیاد بھی علی گڑھ میں پڑی ۔سر سید کے ذاتی کتب خانے سے استفادے نے انھیں شبلی سے علامہ شبلی بنا دیا ۔یہاں پر یورپ میں چھپی ہوئی وہ کتابیں موجود تھیں ،جو تاریخ نگاری کے جدید اصولوں پر مبنی تھیں ۔اردو میں اس سے پہلے مصنفین کسی حوالے اور سند کو ضروری نہیں سمجھتے تھے، جب کہ یورپ میں بغیر حوالے کے کسی بات کو قبول عام حاصل نہیں ہو سکتا تھا ۔شبلی نے پہلی بار تاریخ نگاری میں اس اصول کا التزام کیا ۔اس کتب خانے سے انھوں نے کس طرح فیض اٹھایا ،ظلی صاحب سے جانتے ہیں

“سر سید نے انھیں لائبریری کے استعمال کی عام اجازت دے رکھی تھی ۔وہ گھنٹوں اپنی پسند کی کتابوں کی الماری کے سامنے کھڑے کھڑے پڑھتے رہتے اور جب تھک جاتے تو فرش پر بیٹھ جاتے ۔جب سر سید نے ان کا یہ ذوق وشوق دیکھا تو وہاں ایک میز اور کرسی رکھوا دی تا کہ وہ وہاں بیٹھ کر مطالعہ کر سکیں اور ضروری نوٹس لے سکیں ۔اسی لائبریری نے ان کے عہد حاضر کے سب سے بڑے مسلمان مورخ ہونے کی راہ ہموار کی ۔”

علی گڑھ (اے ایم یو)کی ایک شناخت اس کایونیفارم بھی ہے اور یہ بھی شبلی کی دین ہے ۔ترکی ،مصر اور فلسطین سے واپسی کے بعد انھوں نے جو سفرنامہ لکھا ہے،اس میں ترکی میں ہوسٹل میں رہنے والے طلبہ کی طرز بود وباش کے تعلق سے بھی لکھا ہے ۔وہاں انھیں سب سے زیادہ جو چیز پسند آئی،وہ طلبہ کا یونیفارم تھا۔شبلی کا خیال تھا کہ اگر اسے علی گڑھ میں بھی رائج کر دیا جائے تو طبقاتی فرق مٹ جائے گا۔اور اس طرح علی گڑھ شیروانی،جو اس کا طرۂ امتیاز ہے ، وجود میں آئی ۔

اس سفرنامہ کے تعلق سے ایک اور غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے ۔عمومی تصوریہ ہے کہ سر سید اس سفر نامے کے خلاف تھے ۔وجہ ؟ اس وقت انگریزوں اور ترکوں کے تعلقات خاصے کشیدہ تھے اور ترکی سے جو خطوط علامہ نے سر سید کے لکھے تھے ،انمیں جس طرح کے جذبات کا مظاہرہ کیا تھا،اس کی بنا پر انھیں یقین تھا کہ وہ سفرنامے میں بھی یہی کچھ لکھیں گے اور ہو سکتا ہے کہ انگریزوں کو یہ بات پسند نہ آئے ۔حالانکہ اس میں شمہ برابر بھی سچائی نہیں ہے ۔گزٹ کے حوالے سے سر سید کی یہ تحریر دیکھیں

“پروفیسر مولوی محمد شبلی صاحب بخیر وعافیت ترکی ،مصر وفلسطین کے سفر سے واپس آگئے ہیں اورہم مولوی صاحب موصوف کے سفر نامہ کے نہایت مشتاق ہیں “

شبلی اور حالی کے درمیان معاصرانہ چشمک کا جو شوشہ مولوی عبدالحق نے چھوڑا تھا ،اور جس کے نتیجے میں “شبلی شکنی” کی ایک پوری مہم شروع ہوئی تھی ،اس سلسلے میں بھی ایک بہت اہم تحریر اس کتاب کا حصہ ہے ۔مولانا حالی کی کتاب “حیات سعدی “ پر علامہ شبلی نے جو تبصرہ کیا تھا ،وہ دونوں بزرگوں کے درمیان تعلقات اور احترام باہمی کی سب سے قابل اعتماد دستاویز ہے ۔

علامہ شبلی اور ندوہ کو لیکر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ،اور اس پر مزید خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں ہے لیکن ظلی صاحب نے گزٹ کے ایڈیٹر سید وحید الدین سلیم کی اس رپورٹ کو دوبارہ شائع کر کے اور اس کتاب کا حصہ بناکر، جو ندوہ کے جلسہ سنگ بنیاد پر محیط ہے اور جو 2019 کے معارف میں شائع ہوئی تھی ،بڑا اہم کام کیا ہے ۔اس دستاویز کی اہمیت اس لیے اور زیادہ ہے کہ خود ندوہ کے ریکارڈ میں اس کے تعلق سے صرف اتنا کہا گیا ہے “دار العلوم کے لیے گورنمنٹ نے ایک وسیع آراضی عطاکی اور درس گاہ کا کام شروع ہوا۔ایک شاندار جلسہ سنگ بنیاد منعقد ہوا،جس میں حکام اور ہر طبقہ کے عمائد نے شرکت کی “

غرض کتاب کیا ہے ،انسائیکلو پیڈیا ہے اور بجا طور پر اسے شبلی شناسی کی نئی جہات سے موسوم کیا گیا ہے ۔گزٹ کی تاریخی اہمیت اور اس سے استنباط اپنی جگہ ،ظلی صاحب کے مقدمے نے اس کتاب میں چار چاند لگا دئے ہیں ۔ زبان و بیان کے اعتبار سے ظلی صاحب کا طرزِ نگارش موثر اور متوجہ کرتا ہے۔ ایسے موضوعات کے لیے درکار علمی زبان پیش نظر کتاب کا قابلِ توجہ وصف ہے۔موٹے طور پر اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔پہلا باب اہم تقریبات اور کمیٹیوں کے سے متعلق ہے اور اس کے تحت ذیلی عنوان قائم کیے گئے ہیں ۔دوسرے باب میں متفرقات جمع کیے گئے ہیں اور تیسراباب معارف میں چھپے مضامین کا احاطہ کرتا ہے ۔مختصرا یہ کہا جاسکتا ہے کہ شبلی شناسی میں نئی جہات کے متلاشی اور نقد و تحقیق سے سنجیدہ شغف رکھنے والے احباب کے لیے یہ کتاب کار آمد طے پائے گی ۔

ظلی صاحب ادھر عرصے سے صحت کے مسائل سے دوچار ہیں اوریہ کام پتا مار۔ویسے پتا ماری محققین اور مورخین کا دستور العمل ہے لیکن “شبلی شناسی کی نئی جہات “ جیسی کتاب کے لیے جذبۂ عشق کی بھی فراوانی چاہیے۔اس کتاب کا حرف حرف ظلی صاحب کے عشق سے عبارت ہے۔لیکن اس عشق کے باوجود معروضیت کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹا نہیں ہے۔ہر بات حوالے اور سند سے آئی ہے ۔خدا انکے جنوں کا سلسلہ دراز کرے۔

کتاب دار المصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ نے چھاپی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے اکیڈمی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like