Home ستاروں کےدرمیاں شبلی کا مشن اور یوم شبلی کی معنویت -محمد خالد اعظمی

شبلی کا مشن اور یوم شبلی کی معنویت -محمد خالد اعظمی

by قندیل

یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ملک کی موجودہ نظریاتی و مذہبی سیاست کے بنیادی خدوخال برطانوی نوآبادیاتی دور کی پالیسی کے عین مطابق ہیں، اور وطن عزیز میں آج بھی مذہبی بنیادوں پر سماجی تفریق کو سیاست کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ آج ملک کی سماجی اور سیاسی صورتحال کچھ اس انداز پر گروہی تقسیم کا شکار ہے کہ عوام تعلیم ، صحت، رہائش اور روزگار جیسے بنیادی مسائل سے لاتعلق ہوکر اسی منصوبہ بند حکمت عملی کاشکار ہوگئے ہیں جس میں ہندوستانیوں کو ہندوستانیوں کا ہی دشمن بنادیا گیا ہے ۔ تقسیم اور تصادم کی بعینہ یہی سیاست آج سے تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل اس وقت بھی تھی جب سر سید و شبلی اور ان کے رفقاء نے نو آبادیاتی سیاست سے صرف نظر کرتے ہوئے جدید اعلی تعلیم کے حصول کوہی مسلمانوں کے بنیادی مسائل کا حل قرار دیا تھا۔ شبلی اپنے زمانے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مجتہد اور وقت کے نبض شناش ہونے کے ساتھ سرسید کی علمی تحریک سے کافی متاثر تھے اور اسی طرح کی علمی تحریک اور علوم جدیدہ کے حصول کو مسلمانوں کے بیشتر مسائل کا حل سمجھتے تھے اور سر سید نے شبلی کو ان کے علم وکمال سے متاثر ہوکر انہیں اپنے کالج میں عربی اور فارسی کا پروفیسر مقرر کیا تھا۔ شبلی نے اپنے وطن اعظم گڑھ میں جدید تعلیم کے فروغ کےلیے علی گڑھ کے ہی طرز پر جب ۱۸۸۳ میں اسکول کی بنیاد ڈالی تو ان کا مقصد اور مطمح نظر بھی وہی تھا کہ جدید تعلیم کے ذریعہ قوم کی ذہنی و فکری پسماندگی کو دور کیا جائے۔

اس سے قطع نظر ایک بنیادی سوال موجود ہے کہ کیا شبلی کا مطمح نظر صرف یہی تھا کہ اسکول اور کالج کھول کر طلبہ کو امتحانی اسناد عطا کردی جائیں، یا ان کا مقصد تھا کہ علمی تحریک اور تجدید علوم و افکار کے ذریعہ قوم کی فکری تربیت کا بہتر انتظام کیا جائے جس کے ذریعہ حالات اور واقعات کا ادراک حاصل کرنے اور عوام کی قوت فیصلہ کو صحیح سمت دینے کی سبیل پیدا کی جائے۔ شبلی ایک عملی جدو جہد کے ساتھ قوم کو ذہنی پسماندگی اور عملی پراگندگی سے نکال کر اعلی تعلیم کے ذریعہ ملک اور معاشرے میں ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلوانا چاہتے تھے ۔شبلی ایک مربوط حکمت عملی کے ذریعہ ملک میں جدید طرز کی اعلی تعلیم کے فروغ کے لیے سر گرم عمل تھے جس کے ذریعہ مشرقی اور اسلامی علوم کے ساتھ ہی سائنس اور فلسفے کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ آج مسلمانوں کے حالات اس سےکہیں بدتر ہیں جو شبلی کے وقت میں تھے، لیکن شبلی کی علمی تحریک کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ان کے جانشینوں نے تعلیم کے فروغ کے ذریعہ قومی وقار کی بحالی کے ان کےمنصوبے کو بروئے کار لانے کے لیے کبھی کسی سنجیدہ کوشش کا مظاہرہ نہیں کیا۔

یہ حقیقت ہے کہ ملک کے اندر اور بطور خاص شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشرتی ارتقاء کی بلندیوں پر لے جانے کےلیے جس کوشش اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے اس کے لیے خود مسلمانوں کے درمیان وقت اور حالات کے مطابق سنجیدہ حکمت عملی اور مناسب اقدام کی بے حد کمی ہے۔ اس وقت مسلمان تعلیم کے فروغ اور سماج میں علمی بیداری پیدا کرنے کے نام پر مختلف سطح کے نجی ملکیت کےادارے کھول کر انہیں تجارتی بنیادوں پر چلانے میں مصروف ہیں، جس میں بہتر تعلیمی سہولیات کے نام پر بچوں سے فیس کی شکل میں اتنا زیادہ پیسہ وصول کیا جاتا ہے جو ایک اوسط یا کم آمدنی والے سرپرست کے لیے ممکن نہیں ہوپاتا۔ دوسری طرف سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں تعلیمی اخراجات توکم ہوتے ہیں لیکن تعلیم و تربیت کا نظام اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ وہاں طلبہ اور طالبات کی ذہنی افزودگی، علمی لیاقت اور شخصیت کے ارتقاء میں کوئی قابل ذکر تبدیلی بھی تقریباً عنقا ہے۔ ساتھ ہی ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام عوامی زمرے کے اداروں میں انتظامی چپقلش اور ذمہ داران کے درمیان انا اور ذاتی بغض عناد کی بنیاد پر جاری رہنے والے آپسی اختلافات اتنا زیادہ ہوتے ہیں کہ ادارے کی ترقی اور اس کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں ہمیں شبلی کے خواب، ان کی جدوجہد اور قوم کی ترقی کے لیے ان کی کوششوں اور خدمات کا جائزہ لینا چاہیے تب ہی ہم موجودہ حالات کے تناظر میں شبلی کو ایک بہترین خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔

علامہ شبلی علیہ الرحمہ کی پوری زندگی تعلیم کے میدان میں طویل مدتی منصوبہ بندی، نصاب و نظام میں تبدیلی اور اس کےلیے عملی اقدامات سے بھری پڑی ہے ۔ اس تبدیلی کے ذریعہ وہ مسلمانوں کے نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمان اپنے وقت کے تقاضوں اور معاشرتی رجحانات کو سمجھنے کے اہل ہو سکیں۔ اپنے اس مشن کے فروغ اور مقصد کے حصول کے لیے انہوں بڑے پیمانے پر ملکی اور غیر ملکی دورے کیے، اسی دوران اعلیٰ پائے کی محققانہ تصنیفات بھی قلم بند کیں، ملکی اور غیر ملکی حکومتوں سے ایوارڈ اور تمغے بھی حاصل کئے تاکہ مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کی تحریک کو طاقت ور بنیاد فراہم ہوسکے۔ لیکن اسے وقت کا المیہ کہا جائے یا ان کے جانشیں ہونے کے دعویدار اداروں اور منتظمین کا ان کے مشن کے تئیں غیر جانبداررہنے کا ایک محتاط رویہ کہا جائے کہ اس وقت ان کے میدان کار کی جولان گاہ کا ہر ادارہ طرز کہن کو اپنانے یا اسی پر اڑے رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اس وقت اعظم گڑھ میں ان کے جانشین شبلی کالج اور اسکول تک ہی محدود ہو کر رہ گئے اور ان کو شائد اس بات کا احساس بھی نہیں رہا کہ علامہ شبلی اس کالج کو علم و تحقیق کی کن بلند پر لیجانے کے آرزومند تھے ۔ شبلی کی قومی حمیت، ملی خدمات اور ان کے علمی و عملی جد وجہد کا فیض آج بھی پوری آب وتاب سے جاری ہے اور ان کی خدمات کا تذکرہ مسلسل کرتے رہنے سے نئی نسل کو بھی ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ بزرگوں کی تقلید میں کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، لیکن کیا اہل اعظم گڑھ میں کوئی ایسا ہے جو شبلی کےادھورے خواب کی تکمیل کا بیڑا اٹھا سکے۔ امر واقعہ ہے کہ شبلی اپنے وطن میں ایک ایسی عالمی یونیورسٹی کی تعمیر کے خواہش مند تھے جو قدیم و جدید علوم کا صرف سنگم ہی نہ ہو بلکہ وہ علوم کا آب رواں ہو جس کے اندر اپنے راستے کے آنے والے ہر صحرا کو سیراب کرنے کی اہلیت اورصلاحیت ہو ۔ شبلی کے جانشین اگرچہ شبلی کالج کو ایک یونیورسٹی کا درجہ تو نہیں دلوا سکے لیکن یہ ادارہ علاقے میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے لگا تار پیش رفت کر رہا ہے امید ہے کہ شائد یہ ان کے مشن کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا کسی حد تک سدباب کرسکے۔

شبلی کے مشن اور مقصد کو جاری رکھنے کے لیے بس یہی کافی نہیں ہے کہ ہم سال میں ایک دفعہ ان کی برسی مناکر علامہ شبلی کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو جائیں ۔ یوم شبلی کے موقع پر علامہ شبلی کے معتقدین اور ان کے علمی و فکری وارثین کی توجہ ان امور کی طرف لازماً ہونی چاہیے جو شبلی کی تمام ترعلمی تحریک اور ان کی زندگی بھر کی تگ وتاز کا بنیادی مقصد تھا۔ شبلی کی اپنے وقت کی ہر علمی تحریک میں شمولیت اور اس کی حوصلہ افزائی کا مقصد جہاں ایک طرف جدید تعلیم کا فروغ تھا وہیں دوسری طرف جدید اصول ونظریات کو سامنے رکھتے ہوئے قدیم و جدید علوم پر مشتمل ایک مثالی نصاب کی تشکیل اور ایسے تعلیمی اداروں کا قیام تھا جو مقامی زبان میں جدید طرز پراعلی تعلیم کو فروغ دے سکیں ۔ اسی فکر کے ساتھ وہ پوری زندگی قوم کی علمی و فکری سر بلندی کے ليے ہمہ تن مصروف رہے اور ان کی تمام تر سرگرمیوں میں قوم کی ترقی کے لیے ان کا یہی وژن اور مشن ہر جگہ بالکل واضح نظر آتا ہے۔ اسکے حصول کےلیے انہوں نے اپنے کو صرف اعظم گڑھ یا نیشنل اسکول تک محدود نہیں کیا ورنہ وہ بھی سرسید کے طرز کا ادارہ اپنے وطن میں کھول کر اسے ویسی ہی ترقی دےسکتے تھے لیکن شبلی کے پیش نظر اس سے کہیں اعلیٰ تر مقاصد تھے جس نے پوری زندگی انہیں ایک جگہ سکون سے بیٹھنے نہیں دیا۔ زمانے کے نشیب و فراز اور شبلی کی روز افزوں بڑھتی ہوئی قومی و ملی مصروفیات، علی گڑھ اور حیدرآباد کی ملازمت، علمی و قومی ترقی کے لیے مختلف طرز کے اجلاس کا انعقاد،ان کی کامیابی کے لیے دور دراز کے اسفار وغیرہ کئی ایسے عوامل رہے کہ شبلی کو اعظم گڑھ میں سکون کے ساتھ رہنے کا موقع ہی نہیں مل سکا اور ان کا نیشنل اسکول ان کی زندگی میں بھی ترقی کی وہ منازل طے نہیں کرسکا جس کا شبلی نے خاکہ تیار کیا تھا۔

You may also like