ایودھیا کے نامورصحافی شیتلا سنگھ گزشتہ ہفتے ہم سے جدا ہوگئے۔ان کی عمر94 سال تھی، جو انھوں نے سچ بولنے، سچ لکھنے اور سچ کی پرورش کرنے میں گزاری۔ یہ کام انھوں نے ایک ایسی سنگلاخ سرزمین میں کیا جہاں برسوں سے جھوٹ کی حکمرانی ہے۔وہ فیض آباد سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ ’جن مورچہ‘ کے تقریباً پچاس برس سے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے اس اخبار کے ذریعہ حق گوئی، بے باکی اور بے خوفی کی متعدد مثالیں پیش کیں۔2018میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ’ایودھیا:رام جنم بھومی۔بابری مسجدکا سچ‘اس سلسلے کی ایک اہم دستاویز ہے، جو انھوں نے اس خاکسار کو مطالعہ کے لیے نذرکی تھی۔ اس کتاب کے چشم کشامندرجات پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے، آئیے پہلے شیتلا سنگھ کے بارے میں کچھ اور جانتے ہیں۔شیتلا سنگھ کاجنم6/اگست1932 کو ہوا۔انھوں نے1963 میں ’جن مورچہ‘ کی کمان سنبھالی۔ انھیں آزاد اور بے باک صحافت کے فروغ سے ہمیشہ دلچسپی رہی اور اس کام کے لیے انھوں نے فیض آباد میں صحافیوں کی تربیت کا ایک ادارہ بھی قایم کیا۔ وہ پریس کونسل کے رکن اور اترپردیش شرم جیوی پترکا ر سنگھ کے صدر بھی رہے۔ انھوں نے ایودھیا میں بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازعہ کو حل کے لیے ایک ٹرسٹ بھی بنایا۔یہ الگ بات ہے کہ فرقہ پرستوں کی سازشوں کے نتیجے میں وہ اس سنگین تنازعہ کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن انھوں نے کبھی جھوٹ کے علمبرداروں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور آخری وقت تک مورچے پر جمے رہے۔ انھوں نے ہمیشہ سیکولرازم کا پرچم بلند رکھا۔ اس میدان میں اپنی بیش بہا خدمات کے لیے کئی اعزاز بھی حاصل کئے۔ انھوں نے موت کے بعد اپنا جسم طبی تحقیق کے لیے عطیہ کرنے کی وصیت کی تھی، اس لیے ان کی آخری رسوم کی ادائیگی نہیں ہوئی۔ہندوستان میں جب بھی بے باک اور بے خوف صحافت کی تاریخ رقم ہوگی تو اس میں شیتلا سنگھ کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔
ایودھیاتنازعہ پرشیتلا سنگھ معرکۃ الآراء کتاب منظرعام پر آنے کے بعد میں نے ان سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھاکہ اس کتاب کو لکھنے کی تحریک انہیں سابق پولیس آفیسر وبھوتی نارائن رائے نے دی۔ وبھوتی نارائن رائے خود فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کی زیادتیوں کا پردہ چاک کرنے والی ایک انتہائی اہم کتاب ”فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس“ لکھ چکے ہیں۔ شیتلا سنگھ کی مذکورہ کتاب میں اجودھیا تنازعہ کے سیاسی استحصال کی پرتیں ہی نہیں کھولی گئی ہیں بلکہ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو اس تنازعہ کو ہوا دینے میں ایک دوسرے کا معاون اور مدد گار بھی بتایاگیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ1987میں جب اجودھیا کے ہندو اور مسلمان اس تنازعہ کو حل کرنے پر رضامند ہوگئے تھے تو کس طرح اس وقت کے آر ایس ایس چیف بالا صاحب دیورس نے اسے یہ کہتے ہوئے سبوتاژ کردیاتھا کہ ہمارا مقصد رام مندر بنانا نہیں بلکہ اس مسئلے کا سیاسی استعمال کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔
شیتلا سنگھ کی یہ کتاب ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ اجودھیا تنازعہ میں تمام پیچیدگیاں سیاست دانوں نے اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے پیدا کیں۔ یہ کتاب اس تلخ حقیقت کو بھی بے نقاب کرتی ہے کہ ایک طرف جہاں اجودھیا کو دومذہبوں کے درمیان کا تنازعہ سمجھ کر حل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں تو وہیں دوسری طرف سیاست کے غیر مرئی ہاتھ ان کوششوں کو سبوتاژ کرتے رہے ہیں۔ شیتلا سنگھ کی کتاب یہ تفصیل بھی بیان کرتی ہے کہ آزادی کے بعد کس طرح کانگریس اس تنازعہ میں نہ صرف92۔1990کی بی جے پی بلکہ اس سے قبل جن سنگھ اور اس سے بھی پہلے ہندومہاسبھا سے ’ہندوکارڈ‘ کی چھینا جھپٹی کرتی رہی ہے۔ آج کانگریس شکوہ کرسکتی ہے کہ92۔1990وہ اس چھینا جھپٹی میں ناکام ہوگئی لیکن نئے نئے آزاد ہندوستان میں اترپردیش اسمبلی کے پہلے ضمنی انتخاب میں اس نے اسی ’ہندوکارڈ‘ کا استعمال کرکے سوشلسٹ لیڈر اچاریہ نریندردیو کو نہ صرف چناؤ ہرایا بلکہ ان کے خلاف مہم بھی چلائی۔ اتنا ہی نہیں انہیں شکست دینے والے کانگریسی ایم ایل اے راگھو داس نے بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے کی سازش رچنے والوں کی کھلے عام حمایت بھی کی۔ شیتلا سنگھ کے مطابق ”ہندو کارڈ کی چھینا جھپٹی کی اس سیاست کا عکس یکم فروری 1986 کو بابری مسجد کا تالا کھولے جانے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے اور 9 نومبر1989کو کئے گئے رام مندر کے شیلا نیاس میں بھی۔6دسمبر 1992کو انہدامی کارروائی میں بھی اور اس کے بعد قانون بناکر یا آرڈیننس لاکر مندر تعمیر کرانے کے وعدوں میں بھی۔“
شیتلاسنگھ کی کتاب کا سب سے کارآمد حصہ وہ ہے جس میں انہوں نے یکم فروری1986کو فیض آباد کی ضلع عدالت کے ذریعے بابری مسجد کا تالاکھولنے کے حکم کے بعد کے حالات کی تفصیل بیان کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس وقت اس تنازعہ کو ناسور بننے سے روکنے کے لئے اجودھیا کے ہندومسلم باشندوں کی طرف سے طے کئے گئے فارمولے کو آر ایس ایس کی قیادت نے اس لئے سبوتاژ کردیا کہ اسے اس تنازعہ کے بھڑکنے سے ہندوؤں میں آرہی ’بیداری‘ کا استعمال ملک کے اقتدار پر قبضے کے لئے کرنا تھا۔ اس تنازعہ کو حل کرنے کی بعد میں کی گئی مزید کوششوں کو بھی اسی نظریے نے ساقط کیا کہ وہ کسی بھی سمجھوتے میں دوسرے فریق کی مکمل خودسپردگی سے کم کچھ بھی قبول نہیں کرے گا۔
شیتلا سنگھ نے اپنی کتاب کے صفحہ 110 پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ ان کی معلومات کا ذریعہ وشوہندوپریشد کے لیڈروشنو ہری ڈالمیا کے دست راست لکشمی کانت جھن جھن والا ہیں۔ جھن جھن والا اس وقت ڈالمیا کے لئے کچھ کاغذات لینے شیتلا سنگھ کے پاس آئے تھے اور کاغذات لے کر دہلی لوٹ گئے تھے۔ اگلے دن جب وہ فیض آباد آئے تو انہوں نے شیتلا سنگھ کو کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے کہاکہ’پنج جنیہ‘ اور ’آرگنائزر‘ (آر ایس ایس کے اخبار) کے27 دسمبر 1987کے شمارے میں خبر چھپی ہے کہ رام بھکتوں کی فتح ہوگئی ہے۔ کانگریس سرکار مندر بنانے پر مجبور ہوگئی اور اس کے لئے ٹرسٹ بن گیا ہے۔ اسے رام مندر آندولن کی کامیابی بتایا گیا تھا۔’پنج جنیہ‘ کے صفحہ اول پر وشوہندوپریشد کے جنرل سکریٹری اشوک سنگھل کی فوٹو شائع ہوئی تھی۔ جھن جھن والا نے بتایا کہ اس دن دہلی میں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر کیشو سدن (جھنڈے والان) میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں آر ایس ایس سربراہ بالا صاحب دیورس بھی موجود تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے اشوک سنگھل کو طلب کرکے پوچھا کہ تم اتنے پرانے سویم سیوک ہو، تم نے اس منصوبے کی حمایت کیسے کردی۔ اشوک سنگھل نے کہاکہ ہمارا آندولن تو رام مندر کے لئے ہی تھا، اگر وہ منظور ہوتا ہے تو خیرمقدم کرنا ہی چاہئے۔ اس پر دیورس جی ان پر بپھر گئے اور کہاکہ تمہاری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے۔ایودھیا میں رام کے800 مندر موجود ہیں، ایک اور بن جائے تو801 واں ہوگا۔ یہ آندولن عوام کے درمیان مقبول ہورہا تھا۔ اس کی حمایت بڑھ رہی تھی جس کی بنیاد پر ہم سیاسی طورپر دلّی میں حکومت بنانے کی حالت تک پہنچتے۔ تم نے اس کا خیرمقدم کرکے حقیقت میں آندولن کی پیٹھ میں خنجر بھونکا ہے۔ یہ تجویز منظور نہیں ہوگی۔ جب اشوک سنگھل نے انہیں بتایا کہ اس میں تو مندر آندولن کے اویدھ ناتھ، جسٹس دیوکی نندن اگروال سمیت مقامی اور باہر کے کئی لیڈر شامل ہیں تو انہوں نے کہاکہ اس سے باہر نکلو کیونکہ یہ ہمارے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنے گا۔“شیتلا سنگھ کی مذکورہ کتاب اردو میں بھی شائع ہوچکی ہے۔