عبدالعزیز
مسٹر ہرش مندر اپنے سماجی اور فلاحی کاموں کی وجہ سے پورے ملک میں جانے جاتے ہیں۔ موصوف 20 سال تک مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقے میں آئی اے ایس افسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ عوام کے حق اطلاعات کی قومی مہم کے وہ اساسی ممبر ہیں۔ بندھوا مزدور اورمینٹل ہوسپیٹل کے اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف انڈیا کے کور گروپ کے ممبر تھے۔ اوربہت سے فلاحی اداروں کے ممبر رہ چکے ہیں۔ 2010ء میں سونیا گاندھی نے ہندستان کے قومی مشاورتی کونسل کا انھیں ممبر بنایا تھا۔
He was appointed a Member of India’s National Advisory Council by the council President Sonia Gandhi in June 2010. He convened the working groups on the Food Security Bill, Land Acquisition and Rehabilitation Bill, Child Labour Abolition, Urban Poverty and Homelessness, Disability Rights, Bonded Labour, Street Vendors and Urban Slums, and co-convened the groups on the Communal and Targeted Violence Bill, Dalits and Minorities and Tribal Rights, among others. His tenure was not renewed in 2012.
He is currently the Director of the Centre for Equity Studies, an autonomous institution engaged in research and advocacy on issues of social and economic justice and equity. He is also the founder of the campaigns Aman Biradari, for secularism, peace and justice; Nyayagrah, for legal justice and reconciliation for the survivors of communal violence; Dil Se, for street children; and Hausla for urban homeless people. He has also been appointed the Special Commissioner to the Supreme Court of India for the purpose of monitoring the implementation of all orders relating to the right to food (PUCL vs Union of India and others, Writ Petition 196 of 2001).
اتنے سارے فلاحی اداروں کے شاید ہی ہندستان میں کوئی ممبر ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانیت کیلئے جو ان کے دل میں درد ہے اور ہندستان کا جو ان کا تصور ہے NRC اور CAB کی وجہ سے ان کو بھاری صدمہ پہنچ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے انھوں نے ایک ایسا اعلان کیا ہے جو ایک بڑے دھماکے سے کم نہیں ہے۔ آج (11دسمبر) ان کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا ہے۔ پہلے انھوں نے جامع دلائل کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ شہریت کا ترمیمی بل کس قدر غیر انسانی، غیر دستوری اور غیر اخلاقی ہے۔ مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ”اگر شہریت ترمیمی بل پاس ہوا تو میں فیصلہ کرچکا ہوں کہ سول نافرمانی کروں گا۔ سب سے پہلے میں مسلمان ہونے کا اعلان کروں گا۔ اورایسے شہریوں کے ساتھ لڑائی لڑوں گا جن کو ستانے کی کوشش کی جائے گی۔ جب این آر سی کا قومی پیمانے پر کام شروع ہوگا تو میں اس کا بائیکاٹ کروں گا اور کوئی بھی دستاویز دینے سے انکار کردوں گا اور اپنے لئے اسی سزا کا مطالبہ کروں گا جو مسلمان بھائیوں اوربہنوں کو حراست کیمپ یا کسی اور طرح سے ان کو حقوقِ شہریت سے محروم کرنے کے بعد دیا جائے گا“۔
ایسے حالات میں جبکہ چاروں طرف اندھیرا ہے روشنی کی یہ کرن جو بحر ظلمات پر بھاری ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں ہمیشہ حق کے پاسبان ہوتے ہیں اور زمین کا نمک کہلاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے تاتاریوں کے حملے کے حوالے سے کہا تھا ؎
’ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے…… پاسباں مل گئے کعبے کے صنم خانے سے‘
کب کس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اور اس کے دل کو حق و انصاف سے معمور کردے کہا نہیں جاسکتا۔ جگر مراد آبادی نے سچ کہا ہے ؎
’اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں …… فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں‘
انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ”دستور مستقل محاصرے میں ہے۔ جب سے نریندر مودی دوبارہ برسر اقتدار آئے ہیں دستور کو تیز چھری سے ذبح کرنے کی کو شش کی جارہی ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل پاس ہوگیا تو وہ پنجڑے میں بند ہوجائے گا اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی اور ایک ایسی نئی قوم ابھر کر سامنے آئے گی جس کے اندر غیظ و غضب، برہنہ طاقت، اکثریتی جارحیت اور اقلیتوں کیلئے دشمنی اور عناد پائی جائے گی۔ اس بل کے ذریعے حقوق کی تقسیم ہوگی کہ کس کو کتنا اور کس طرح دیا جائے۔ کون ہندستان سے تعلق رکھتا ہے اور تعلق رکھنے کی کیا شرائط ہوں اور حقیقت میں ہندستان کا تعلق کس سے ہے اور کس سے نہیں ہے؟ ان بیہودہ چیزوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی“۔
ایک بنگالی نژاد آسامی قاضی نیل نے کہا ہے کہ ”یہ ملک میرا ہے لیکن مجھے اس ملک کا باشندہ نہیں مانا جارہا ہے (یعنی میں اپنے گھر میں بے گھر ہوں)“۔ وہ ہندستان سے محبت کرتا ہے لیکن ہندستان اسے اپنانے سے گریز کرتا ہے۔ ان سب سوالوں کا مفصل جواب انسانی نقطہ نظر سے دستور میں محفوظ ہے۔
دستور میں ہر ایک ہندستانی کو برابری کا حق دیا گیا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھتا ہو۔ عیسائی، پارسی، ہندو، سکھ اور جینی سب کے برابر مسلمانوں کو بھی حق دیا گیا ہے۔ آزادی سے پہلے سنگھ پریوار کے ہیرو اور نظریہ ساز وی ڈی ساورکر نے ہندو مسلمان کے نظریے کو پیش کیا تھا۔ اسے بعد میں مسلم لیگ نے اپنالیا۔ ہندستان کی دستور ساز اسمبلی نے وی ڈی ساورکر نے مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کو مسترد کردیا۔ اس آئیڈیا کو بھی مسترد کردیا کہ ہندستان کا تعلق صرف ہندوؤں سے ہے۔ جواہر لعل نہرو نے اعلان کیا کہ ”ہم ہر کسی کو ہندستانی تسلیم کریں گے جو اپنے آپ کو ہندستانی شہری کہے گا“۔ بی جے پی گورنمنٹ نے ’سی اے بی‘ کو پارلیمنٹ پیش کرکے پرانے زخموں کو پھر تازہ کردیا ہے اور ایک ایسا قانون بنانے جارہی ہے جو مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر ہے اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کی بات درج ہے۔ شہریت کے قانون میں آزادی کے بعد کئی ترمیمات ہوئی ہیں لیکن کبھی بھی مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر کسی کی تفریق نہیں کی گئی۔ آسام میں 19لاکھ لوگوں کو غیر شہری قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے جو غیر مسلم ہوں گے اس بل کے ذریعے انھیں شہریت دے دی جائے گی اور جو مسلمان ہوں گے ان کو شہری حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔ ایک طرح سے’سی اے بی‘ این آر سی ہی کیلئے بنائی گئی ہے۔ سی اے بی کے قانون ہونے کے بعد یہ پیغام ہوگا کہ مسلمانوں کے سوا جن کے پاس بھی دستاویز ہو یا نہ ہو ان کو شہریت دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے خوف و دہشت میں مبتلا کیا جائے گا۔
کیونکہ دستاویز کے ذریعے مذہب کی شناخت کی جائے گی جو خود ایک پیچیدہ مسئلہ ہوگا، کیونکہ دستاویز ہی اس کا مذہب اور عقیدہ ثابت کرے گا۔ میں ایک مذہب کے ماننے والوں میں پیدا ہوسکتا ہوں اور جب میں بالغ ہوجاؤں تو اسے مسترد کرسکتا ہوں یا میں ایسے والدین کے گھر میں پیدا ہوجاؤں جن کا کوئی مذہب ہی نہ ہو۔ اگر مذہب کو خصوصی بنیاد حاصل ہوجاتا ہے سٹیزن شپ قرار دینے یا نہ قرار دینے کا تو آخر کس دستاویز کو تسلیم کیا جائے گا؟ اگر میں رفیوجی ہوں تو مجھے حراست کیمپ میں بھیج دیا جائے گا۔
اس سے تو صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو ملک کا دستور ہے وہ ناقابل عمل ہے۔ اس کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔جو لوگ حکومت کی کرسی پر ہوں گے یا ان کے ماتحتین ہوں گے وہ جس کو جب چاہیں گے اور جس طرح چاہیں گے پریشان کرنے کی کوشش کریں گے“۔ ہرش مندر نے اپنے مضمون میں اس طرح کے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ اس طرح کے سوالات اور لوگ بھی اٹھا رہے ہیں۔
انگریزی اخبار ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ نے بھی آج (11دسمبر) اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ”CAB appears to being pushed through without adequate thought of social, political, constitutional and foreign policy consequences. The Rajya Sabha, acting as India’s House of Elders, may want to give it a hard look. (سماجی، سیاسی، دستوری اور خارجہ پالیسی کے نتائج کے بارے میں شہریت ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے صحیح طور پر غور و فکر سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ راجیہ سبھا میں بزرگ اور تجربہ کار ممبران ہوتے ہیں، ان کو چاہئے کہ اس بل کو نظر غائر سے دیکھیں)۔ اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ اس طرح کی نقصان دہ اور خطرناک سوچ کو ختم کرنا چاہئے کیونکہ شہریت ترمیمی بل مسئلہ حل کرنے کے بجائے بہت سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے۔
نریندر مودی اور امیت شاہ دونوں اس وقت اپنی پارٹی میں بھی اور ملک میں بھی آمر ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے کسی بہتر اور صحت مند سوچ یا فکر کا پیدا ہونا مشکل ہے۔ اقتدار کا نشہ ہر نشہ سے بدتر ہوتا ہے۔ انسان جب تک تباہ و برباد نہیں ہوجاتا اور جب تک بے جا اختیارات سے محروم نہیں ہوتا وہ صحیح سوچ اور سمجھ سے قاصر ہوتا ہے۔ خوشامدیوں کا ایسا گھیرا ہوتا ہے کہ خوشامدی اس کی بے جا تعریف و توصیف کرکے اسے کہیں کا نہیں رکھتے۔ اس وقت بی جے پی کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ امیت شاہ دو بلوں کو پاس کراکر بی جے پی میں اپنی قیادت کا لوہا منوالیا ہے۔ بعض یہ کہہ رہے ہیں کہ کئی لحاظ سے امیت شاہ نریندر مودی سے آگے ہوگئے ہیں۔ اگر چہ نریندر مودی کی طرح ان کا کرشماتی کردار نہیں ہے لیکن وہ نریندر مودی سے زیادہ جرأت مند معلوم ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے لوگ پارلیمنٹ میں امیت شاہ نے جو الٹے سیدھے جوابات دیئے ہیں اس پر بھی وہ بہت خوش ہیں۔ حالانکہ ان کا ہر جواب جھوٹ سے بھرا ہوا تھا اور تاریخی حقائق سے پرے تھا۔ بی جے پی میں وہ جتنے بھی مقبول ہوجائیں لیکن دانش مندوں میں ان کی نادانی اور حماقت پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ بی جے پی کے ایم پی یہ بھی کہہ رہے کہ مودی جی نے امیت شاہ کو آگے بڑھاکر اپنے جانشیں کو مقرر کرلیا ہے۔ ایک وقت تھا واجپئی اور ایڈوانی جی میں مقابلہ کیا جاتا تھا۔ ایڈوانی جی نے واجپئی کو خود ہی وزیر اعظم کا چہرہ ہونے کا انتخابی موقع پر اعلان کیا تھا۔ دونوں کا انداز ان دونوں کی طرح نہیں ہے۔ واجپئی جی میں بردباری تھی۔ ایڈوانی کی جو جارحیت تھی اس کو واجپئی کم کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ایڈوانی واجپئی کی بے جا تعریف بھی نہیں کرتے تھے۔ امیت شاہ جو نریندر مودی کے چہیتے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امیت شاہ مودی کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ مودی کو خوشامد اور حاشیہ برداری بہت پسند ہے۔ امیت شاہ سے زیادہ اس کمزوری کو کون جانتا ہوگا۔ امیت شاہ نریندر مودی کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ اب تو دونوں ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوگئے ہیں کہ لوگ مودی حکومت کہنے کے بجائے مودی-شاہ حکومت کہنے لگے ہیں۔ میرے خیال سے دونوں ملک کیلئے بلا ہیں اور حکومت آفت کے مترادف ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ بلا یا آفت کب ٹلے گی؟
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068