نتن یاہو نےحسن نصراللہ کا خاتمہ کردیا ہے۔ لیکن اصل سوال ابھی زندہ ہے: کیا اب اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کے متفرق قسم کے حملے تھم جائیں گے؟
اسرائیلی ذرائع کے مطابق نئے لیڈر ’صفی الدین ہاشم‘ نے حزب اللہ کا چارج سنبھال لیا ہے۔ اسرائیل کے انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف اسرائیل‘ اور عبرانی زبان کے روزنامہ ’یدیعوت احرونوت‘ نے اسرائیل کے ملٹری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ نئے لیڈر کی قیادت میں حزب اللہ نے تل ابیب سمیت اسرائیل کے کئی شہروں پر زبردست بمباری کا منصوبہ بنایا ہے۔ حزب اللہ نے بھی حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
لبنان میں حزب اللہ پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو حزب اللہ سے درپیش خطرہ میں فی الواقع مزید شدت آسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حزب اللہ صرف حسن نصراللہ کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک فکر اور ایک نظریہ کا نام ہے جس کے پیروکار لبنان میں اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ادھر اسرائیل کے وسطی شہروں پر حزب اللہ کے حملے اسی طرح جاری ہیں اور ان میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بھلے ہی نقصان کم ہو لیکن اسرائیل کو حزب اللہ کے حملوں سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسرائیل کا یہ مزاج ہے کہ وہ اپنے نقصان کو کم کرکے بتاتا ہے اور اکثر تو نقصان کو چھپا لیتا ہے۔
کچھ بھی ہو اس وقت تو اسرائیل کا ہی پلہ بھاری ہے اور دنیا کے نقشہ پر انگوٹھے سے بھی چھوٹا یہ غاصب ملک پوری دنیا کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔ غزہ کی تباہی و بربادی اور 40 ہزار سے زائد بے قصور شہریوں کے قتل عام کے بعد اب وہ لبنان کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ گزشتہ 23 ستمبر سے وہ شمالی اسرائیل سے متصل جنوبی لبنان کے درجنوں علاقوں پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ اس نےاب تک ایک ہزار سے زائد شہریوں کو شہید اور کئی ہزار افراد کو زخمی کردیا ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ لوگ اجڑ گئے ہیں۔ یہ حملے وہ لبنان کی عسکری جماعت حزب اللہ کے متفرق حملوں کے جواب میں کر رہا ہے۔
حسن نصراللہ کے علاوہ اسرائیل نے حزب اللہ کے متعدد قائدین کو بھی ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔ 8 اکتوبر 2023 کو غزہ پر حملوں کی ابتدا کے بعد اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر حزب اللہ شمالی اسرائیل میں حملے کرتی رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس نے اسرائیل کے متعدد شہروں اور قصبوں میں یہاں تک کہ سات دہائیوں کے مناقشہ کی تاریخ میں 25 ستمبر کو پہلی بار اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب میں اندر تک حملے کئے۔ اس کے بعد اسرائیل اور امریکہ کے جو بیانات آئے ہیں ان سے واضح ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دونوں حزب اللہ پر بھیانک حملوں کے باوجود مستقبل کے تعلق سے فکر مند بھی ہیں۔ امریکہ کی ایجنسی ’موڈیز‘ نے اسرائیل کی اقتصادی رینکنگ اے ون سےگھٹا کر بی ون کردی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اسرائیل کے پاس جنگ کےاس بھیانک جال سے باہر نکلنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔
ان دنوں امریکہ کے شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کا 79 واں عام اجلاس جاری ہے۔ کل 30 ستمبر کو اجلاس کا آخری دن ہے۔ 25 ستمبر 2024 کو قطر کے ’الجزیرہ‘ عربی چینل اور اسرائیل کے انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف اسرائیل‘ نے ایک وزیر’رون دیرمر‘ کے حوالہ سے بتایا تھا کہ نتن یاہو لبنان کے ساتھ مذاکرات اور عارضی جنگ بندی کیلئے تیار ہیں۔ اس کی تصدیق امریکہ اور فرانس کے سینئر عہدیداروں نے بھی کی تھی۔ تفصیلات کے مطابق یہ تجویز کئی دن پہلے مشترکہ طور پر امریکی صدر بائیڈن اور فرانس کے صدر میکرون نے ہی پیش کی تھی‘ یہ دونوں اسرائیل کے مسلسل رابطے میں بھی تھے اور نتن یاہو نے اس پر پورے وثوق کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔ لیکن ابھی نتن یاہو نیو یارک کے راستے میں جہاز پر ہی تھےکہ ان کے دفتر نے اس خبر کی تردید کردی۔ خود جہاز میں موجود نامہ نگاروں کو بھی نتن یاہو نے یہی بات کہی کہ انہوں نے کسی جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق نہیں کیا ہے۔
جنگ بندی پر رضامندی کی مذکورہ خبر کے بعد اسرائیل کے وزیر دفاع یو آف گالانت نے اس خبر پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر نتن یاہو اس تجویز پر آگے بڑھے تو ہم اس کے خلاف ووٹ دیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں اس وقت کئی سیاسی پارٹیوں کی مخلوط حکومت ہے۔ لیکن امریکہ کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ہمیں ایک مکمل جنگ کا خطرہ ہے جو صرف لبنان کو ہی نہیں بلکہ اسرائیل کو بھی برباد کردے گی۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان بہت اہم ہے۔ اس بیان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ حزب اللہ کے ساتھ بھرپور جنگ کے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ضرور ہے۔
لبنان میں جنگ بندی اور مذاکرات کے تعلق سے آنے والی خبر سے جو امید بندھی تھی‘ حسن نصراللہ پر قاتلانہ حملے سے وہ ٹوٹ گئی ہے۔ لیکن امریکی صدر بائیڈن اور فرانس کے صدر میکرون‘ نتن یاہو کے رویہ پردم بخود ہیں۔ وہائٹ ہائوس کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جون کیربی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ کئی دن سے امریکہ‘ فرانس اور اسرائیل کے درمیان گفتگو ہورہی تھی‘ اب معلوم نہیں اچانک نتن یاہو اس سے کیوں مکر گئے۔
ٹائمز آف اسرائیل میں شائع جیکب مجید‘ لیزر برمن اور ایمانوئل فیبیان کے تجزیات سے پتہ چلتا ہے کہ نتن یاہو کے ساتھ مذاکرات اور جنگ بندی کی تجویز کی بات اتنی آگے بڑھ گئی تھی کہ نتن یاہو کے نیو یارک ہوائی اڈہ پر اترتے ہی توقع تھی کہ وہ یہ بیان دیں گے کہ ’وہ مذاکرات اور 21 روزہ جنگ بندی کےلیے تیار ہیں‘۔ یہاں تک کہ وہ بیان بھی لکھا جاچکا تھا جو انہیں اقوام متحدہ میں دینا تھا۔ لیکن نیویارک ہوئی اڈہ پر نتن یاہو نے اس کے برعکس بیان دیا اور جنرل اسمبلی میں بھی انتہائی دھمکی آمیز اور خوفناک خطاب کیا۔ بائیڈن اور میکرون کا خیال تھا کہ مذاکرات اور جنگ بندی کے اس انتظام سے اسرائیل اور حزب اللہ دونوں کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنے کا منصوبہ روبہ عمل آسکتا تھا۔
اقوام متحدہ میں نتن یاہو کی متکبرانہ تقریر کا بین السطور بہت خوفناک ہے۔ حسن نصراللہ کا خاتمہ اس کا پہلا ثبوت ہے۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم روئے زمین پر موجود اسرائیل کے ہر مخالف پر حملہ کریں گے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ہمارے تازہ ایکشن کی باز گشت پورے مشرقی وسطیٰ میں گونج رہی ہے اور یہ ان کے لیے واضح پیغام ہے جو ہمارے خلاف کام کرتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نتن یاہو نے کہہ دیا ہے کہ لبنان اور حزب اللہ کے خلاف اس وقت تک حملے جاری رہیں گے جب تک شمالی اسرائیل کے 60 ہزار شہری اپنے گھروں کو پر امن طور پر واپس نہیں لوٹ جاتے۔ حسن نصراللہ نے کہا تھا کہ وہ بھی اسرائیل کے خلاف اس وقت تک اپنی کارروائی نہیں روکیں گے جب تک غزہ میں مکمل جنگ بندی نہیں ہوجاتی۔
27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پوڈیم پر جیسے ہی نتن یاہو نے قدم رکھا بیشتر مسلم ممالک سمیت دوسرے کئی ملکوں نے واک آؤٹ کردیا۔ نتن یاہو نے خود کو مظلوم قرار دیتے ہوئے اپنی تمام ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھنے کا جواز پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران بدی کا محور ہے جبکہ اسرائیل امن پسند ہے۔ نتن یاہو کے اس جملہ کی شدت اور سنگینی کو محسوس کرکے دیکھیے کہ ’ایران کا کوئی علاقہ ایسا نہیں کہ جہاں ہمارے لمبے ہاتھ نہ پہنچ سکیں اور یہی بات پورے خطہ خلیج کے لیے بھی اتنی ہی درست ہے‘۔ نتن یاہو نے ایران کے ساتھ ساتھ تمام عرب ملکوں کو بھی دھمکی دیدی ہے۔
24 ستمبر تک اسرائیل ‘لبنان کے 600 شہریوں کو شہید کرچکا تھا۔ اسی روز نتن یاہو کی ایک ویڈیو اپیل نشر کی گئی۔ اس میں لبنان کے عوام سےکہا گیا کہ ’ہماری جنگ آپ کے خلاف نہیں ہے بلکہ حزب اللہ کے خلاف ہے جو ہماری شہری آبادیوں پر مسلسل حملے کر رہی ہے‘۔ اقوام متحدہ میں نتن یاہو نے دو نقشے بھی دکھائے۔ ایک نقشہ کو ’نعمت‘ سے تعبیر کیا اور دوسرے نقشہ کو’لعنت‘ قرار دیا۔ نتن یاہو نے بتایا کہ پہلے نقشہ میں عرب شراکت داروں کے ساتھ مل کر اسرائیل پوری دنیا کو اس کے ثمرات سے مستفید کرسکتا ہے۔ جبکہ دوسرے نقشہ میں اگر رنگ بھر نے دیا گیا تو ایران پوری دنیا کو تباہ کردے گا۔
عالمی مبصر ’مروان بشارہ‘ نے ایک تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1984 سے اب تک نتن یاہو نےاقوام متحدہ میں جتنے بھی خطابات کیے ہیں ان سب کا ایک ہی خلاصہ ہے: (۱) اسرائیل کے چاروں طرف دہشت گرد جماعتیں رہتی ہیں۔(۲) ایران ایک شیطان ملک ہے‘ وہ نیوکلیر طاقت حاصل کررہا ہے جو ہمیں برباد کرسکتا ہے۔ (۳) اسرائیل امن پسند ہے اور نہ صرف عربوں کےلیے بلکہ پوری دنیا کےلیے فائدہ بخش ہے لیکن دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنا نہیں بلکہ اپنےناجائز قبضہ کا دفاع کر رہا ہے جبکہ دفاع کا بنیادی حق فلسطینیوں کا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ لبنان کے ساتھ جنگ کے منصوبہ کی اسرائیلی کابینہ اور سینئر حکام نے مخالفت بھی کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ لبنان پر حملوں کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور شمالی اسرائیل میں مزید نوآباد کار یہودیوں کے اجڑنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ اس کے باوجود نتن یاہو اگر کسی کی نہیں سن رہے ہیں تو اس کا سبب صرف امریکہ ہے جو مسلسل مدد کرکے اسرائیل کو مزید وحشی بنا رہا ہے۔ جس روز نتن یاہو نے اقوام متحدہ میں تقریر کی اسی روز امریکہ نے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی امداد جاری کردی۔
اقوام متحدہ میں نتن یاہو نے کہا کہ حزب اللہ نے امریکیوں اور فرانسیسیوں کو ہی زیادہ مارا ہے۔ یہ دراصل ان دونوں ملکوں کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز کا جواب تھا۔ نتن یاہو نے مزید کہا کہ ’حزب اللہ نے اسرائیل کی شمالی بستیوں کو بھوت بستیوں میں تبدیل کردیا ہے‘۔ انہوں نے اس موقع پر سعودی عرب سے متوقع مراسم قائم ہونے کے فوائد بھی شمار کرائے‘ یہ بھی کہا کہ اس سےاسلام اور یہودیت اور مکہ اور یروشلم کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی پیدا ہوگی۔ انہوں نے ’معاہدہ ابراہیمی‘ کا بھی ذکر کیا۔
اسلام اور عربوں سے نتن یاہو یا اسرائیل کو کتنی ہمدردی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے اسرائیل میں تمام آبادیوں کےلیے ’شیلٹر بنکرس‘ بنائے گئے ہیں لیکن 17 لاکھ عرب اسرائیلیوں کے71 علاقوں میں سے صرف 11 کے پاس ’شیلٹرس‘ ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 68 فیصد زمین کو اس نے بمباری کرکے ناقابل کاشت بنادیا ہے۔ اب ایسا ہی کچھ لبنان کے جنوبی شہروں میں نظر آرہا ہے۔ نتن یاہو کے ہاتھ کوئی نہیں پکڑ سکتا لیکن اس تباہ کن جنگ کے خاتمہ کا دار و مدار حسن نصراللہ کے بعد والی حزب اللہ کے طرز عمل پر ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)