Home ستاروں کےدرمیاں شموئل احمد،شوکت حیات اور میں – اقبال حسن آزاد

شموئل احمد،شوکت حیات اور میں – اقبال حسن آزاد

by قندیل

شاہ کالونی،شاہ زبیر روڈ۔مونگیر

بات بہت پرانی ہے، بس یوں سمجھ لیجیے کہ اس وقت تک موبائل عام نہیں ہوا تھا اورلینڈ لائن بھی کسی کسی کے یہاں تھا۔خاص طور پر مونگیر میں تو بہت کم لوگوں کے پاس تھا۔ایک دن ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔چونگا اٹھا کر ’ہیلو‘کہا تو دوسری جانب ایک نا مانوس آواز سنائی دی۔

’’اقبال حسن آزاد صاحب سے بات ہو سکتی ہے۔‘‘

’’بول رہا ہوں… آپ کون؟‘‘

’’پہچانیے …‘‘ آواز نامانوس ہی نہیں،منفرد بھی تھی،جیسے کہیں گھنٹیاں بجی ہوں،یا کہیں پازیب چھنکی ہو، نہیں نہیں۔آپ مجھے غلط مت سمجھئے۔وہ کوئی نسوانی آواز نہیں تھی مگر بڑی کشش تھی اس آواز میں۔میں نے معذوری ظاہر کی تو ایک ہلکی سی ہنسی کی آواز سنائی دی،بڑی سرور انگیز… شاید وہ اس وقت ’’سرور‘‘ میں تھے۔ پھر ہنستی ہوئی آواز آئی۔

میں شموئل احمد بول رہا ہوں۔‘‘ بخدا مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔کہاں شموئل احمد اور کہاں یہ بندہ ٔناچیز… کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔میں ابھی حیرت کے سمندر میں غوطے لگا ہی رہا تھا کہ ادھر سے پھر آواز آئی۔

’’آپ کا افسانہ’’پورٹریٹ‘‘ پڑھا…’’ذہن جدید ‘‘میں۔خوب لکھا ہے آپ نے۔مبارکباد قبول فرمائیں۔‘‘ ہو سکتا ہے ان کے الفاظ کچھ اور رہے ہوں مگر مفہوم یہی تھا۔پھر وہ اور بھی بہت کچھ کہتے رہے مگر مجھ پر تو نشہ چھا رہا تھا۔کون کہتا ہے کہ نشہ صرف شراب میں ہوتا ہے۔تعریف کا نشہ تو شراب سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔اس دن کے بعدسے میں کئی دنوں تک اس نشے میں ڈوبا رہا تھا۔ اسی کے دوسرے دن عبدالصمد صاحب کا فون آیا۔وہ میرے رشتے کے بھائی ہیں اور مجھے بچپن سے ہی جانتے ہیں۔انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا تھا۔

’’یہ افسانہ…’’ پورٹریٹ‘‘ تم نے لکھا ہے؟یہ تو ’’بڑے ‘‘افسانہ نگاروں کا موضوع ہے۔‘‘ ان کے لہجے سے بے اعتباری صاف جھلک رہی تھی۔سچ کہا ہے کسی نے گھر کی مرغی دال برابر۔بہر کیف! تو بات شموئل احمد کی ہو رہی تھی جن کے مشہور زمانہ افسانے’’سنگھار دان ‘‘ نے ادبی حلقوں میں طوفان مچا رکھا تھا۔اس افسانے کا پہلا جملہ ہی بڑا تہلکہ خیز تھا:

’’فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں۔‘‘شموئل احمد یوں تو بہت قبل سے لکھ رہے تھے لیکن اس افسانے نے گویا ان کی شناخت قائم کر دی۔ اکثر ان کے افسانے’’شاعر‘‘ میں بھی شایع ہوا کرتے تھے جس میں ان کی لمبی زلفوں والی ایک تصویر بھی ہوا کرتی تھی۔دبلا پتلا سخت چہرہ جیسے ابن صفی کا سنگ ہی مجسم سامنے آ گیا ہو۔پھر ایک بار ذہن جدید میں ان کا کوئی افسانہ آیا جس میں رسالے کے مدیر زبیر رضوی نے ان کا تعارف لکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ ہمیں پٹنہ کی ادبی سرگرمیوں کی خبر دیتے رہتے ہیں۔کافی عرصہ بعد ایک دفعہ میں شوکت حیات سے ملنے ان کے گھرگیا۔غالباً اپنا افسانوی مجموعہ’’مردم گزیدہ ‘‘ ان کی نذر کرنے۔ باتوں باتوں میں جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کے کون کون سے افسانے شایع ہونے جا رہے ہیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

’’یہ تو میں نہیں بتاؤں گا۔آپ اسے نکلوا دیں گے۔‘‘

’’میں بھلا کیوں اور کیسے نکلواؤں گا۔‘‘

’’لوگ ایسا کرتے ہیں۔‘‘ شوکت حیات نے جواب دیا اور میں نے ان کی بات پر فوراً یقین بھی کر لیا تھا کیونکہ خود میرے ساتھ ایسا ہو چکا تھا۔ایک زمانے میں صلاح الدین پرویز مرحوم ’’استعارہ‘‘ نکالا کرتے تھے۔حقانی القاسمی ان کے نائب ہوا کرتے تھے۔’’استعارہ‘‘ کا افسانہ نمبر نکلنے والا تھا تو مجھ سے افسانے کی فرمائش کی گئی۔میں نے ایک افسانہ’’خدا سے مکالمہ‘‘ انہیں روانہ کردیا۔ انہوں نے اس کی رسید بھی دی اور یہ بھی لکھا کہ افسانے کا تجزیہ بھی لکھوا لیا گیا ہے اور افسانے کے ساتھ تجزیہ بھی شایع کیا جائے گا۔ لیکن جب وہ شمارہ آیا تو اس میں میرا افسانہ شامل نہیں تھا۔میں نے انہیں خط لکھ کر وجہ پوچھی تو ان کا جواب آیا کہ افسانہ تو شامل ہونے والا تھا لیکن پتہ نہیں کیسے فائل سے گم ہو گیا۔گم کیا ہوا ہوگا کسی نے نکلوا دیا ہوگا۔میں بڑا دل برداشتہ ہوا اور اب ایسے مدیروں اور اس قسم کی گھٹیا حرکت کرنے والے ادیبوں سے میں ہمیشہ دوری بنا کر رکھتا ہوں۔بعد میں میں نے اپنا وہ افسانہ اپنے افسانوی مجموعے’’مردم گزیدہ‘‘ میں پہلے نمبر پر لگا دیا۔ خیر تو بات شموئل احمد کی ہو رہی تھی۔اب گاہے گاہے ان کے فون آجایا کرتے تھے اور پتہ نہیں کیسے انہیں یہ خوش فہمی ہو گئی کہ میں افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ تنقید نگار بھی ہوں۔ اس وقت تک میں ان سے نہیں ملا تھا۔ایک دفعہ ان کا فون آیا۔کہنے لگے کہ ’’نیا ورق‘‘ میں ان پر ایک گوشہ آ رہا ہے۔ میں اس کے لئے ایک مضمون لکھ دوں۔شموئل احمد کے افسانے تو میں نے خوب پڑھ رکھے تھے بلکہ بعض افسانے تو بار بار پڑھے تھے۔سو میں نے الٹے سیدھے دو چار جملے لکھ کر بھیج دیئے۔وہ مضمون چھپ گیا۔اس کے بعد اکثر ان سے فون پر باتیں ہوتیں۔وہ شکایت کرتے کہ آپ پٹنہ آتے ہیں مگر ملتے نہیں۔میں ذرا کم آمیز ہوں۔لوگوں سے کم کم ہی ملتا ہوں بقول شاعر:

فرشتوں کو گلہ ہے کہ کم آمیز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے بہت تیز ہے مومن

میں جہاں کہیں بھی جاتا ہوں دلی،کلکتہ،بمبئی ،علی گڈھ یا پٹنہ یا کہیں اور… بس اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔ کسی شاعر اور ادیب سے ملنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔اگر اتفاقیہ ملاقات ہو گئی تو اور بات ہے۔ایک دفعہ پٹنہ جانا ہوا تو میرے بہنوئی ڈاکٹر منظر اعجاز مجھے شموئل احمد سے ملانے لے گئے۔وہ نیو پاٹلی پترا کالونی کے301 گرینڈ اپارٹمنٹ میں مقیم تھے۔اب وہ کبھی حیدرآباد ،کبھی پونے اور کبھی پٹنہ میں ہوتے ہیں۔ہم لوگ لفٹ سے تیسری منزل پر پہنچے۔دروازے پر شموئل احمد کے نام کی تختی آویزاں تھی۔گھنٹی بجانے پر دروازہ کھلا اور سامنے ایک کشیدہ قامت فربہی مائل سنجیدہ اور برد بار شخص کو کھڑا پایا۔یہی شموئل احمد تھے۔’’ شاعر‘‘ میں چھپی تصویر سے بالکل مختلف۔میرے تصور میں ان کی جو شبیہ تھی وہ آن واحد میں حقیقت کے سخت فرش پر گر کر چکنا چور ہو گئی۔منظر اعجاز نے میرا تعارف کروایا تو بے ساختہ لپٹ گئے۔وہ ذرا لنگڑا کر چل رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ان کی کار کا گاندھی سیتو پر زبردست ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ایک ٹرک نے سیدھی ٹکر مار دی تھی۔حادثے کا اثر صرف ان کے جسم پر ہی نہیں بلکہ ان کی روح پر بھی صاف دکھائی دے رہا تھا۔ان کا ڈرائنگ روم چھوٹا تھا مگر نفاست کے ساتھ سجا ہوا تھا۔داہنی طرف ایک راہداری تھی جس میں کتابوں بھری الماریاں ایک قطار سے لگی کھڑی تھیں۔سامنے ایک اونچی میز پر کمپیوٹر تھا جو اس وقت آن تھا۔ وہ اس پر کوئی افسانہ ٹائپ کر رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ایک افسانہ جلد ہی’’مباحثہ‘‘ میں آنے والا ہے۔اور اس وقت وہ جو افسانہ ٹائپ کر رہے ہیں اسے وہ زبیر رضوی کو بھیجیں گے۔پھر انہوں نے بتایا کہ اسی پر ٹائپ کرونگا اور میل سے بھیج دونگا۔ بہت سارے اردو والے ابھی بھی کافی قدامت پرست ہیں۔کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے نام ہی سے بدکتے ہیں۔اس وقت تو بہتوں نے شاید کمپیوٹر کی شکل بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ مجھے شموئل احمد کی یہ ادا بہت پسند آئی اور میں نے اسی وقت یہ تہیہ کر لیا کہ آئندہ سے میں بھی ایسا ہی کیا کرونگا۔واقعی ہر بڑا ادیب اپنے وقت سے آگے چلتا ہے۔پھر انہوں نے بتایا کہ وہ نہ صرف نجومی ہیں بلکہ قیافہ شناس بھی ہیں اور کسی بھی انسان سے صرف ایک بار مل کر اس کی شخصیت کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔میں نے ان کی اس بات پر یقین کر لیا کیونکہ ان کے افسانے ان کی ستارہ شناسی اور قافیہ شناسی کی جیتی جاگتی مثال ہیں لیکن جب سے انہوں نے مجھے”شریف آدمی” کہنا شروع کیا ہے مجھے ان کی قیافہ شناسی پر شک سا ہونے لگا ہے۔

پھر فیس بک آ گیا اور کبھی کبھار ان سے چیٹنگ ہو جایا کرتی ہے۔ انہیں جب عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا تو انہوں نے اس کی تصویریں فیس بک پر ڈالیں۔ بہت ساری مبارکبادیوں میں میں میری مبارکباد بھی شامل تھی۔اسی دن ایک گمنام شخص(فیک آئی ڈی) کا میسیج میرے نام آیا جس میں میرے لئے یہ پیغام تھا کہ یہ ایوارڈ دراصل اقبال حسن آزاد کو دیا جانا تھا مگر شموئل احمد نے لنگڑی مار دی اور بھاری رشوت دے کر یہ ایوارڈ خود حاصل کر لیا۔میں اس میسیج کو پڑھ کر خوب ہنسا۔ پھر میں نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا آپ نے میرے افسانے پڑھے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ ’’ہاں!‘‘ تب میں نے اس سے کہا کہ اچھا میرے کسی ایک افسانے کا نام بتائیں۔اس پر وہ شخص خاموش ہو گیا اور پھر آف لائن ہو گیا۔میں نے اس نام کی آئی ڈی سرچ کی تو کوئی نہیں ملا۔ پھر شموئل احمد کے خلاف کچھ پوسٹ اور کمنٹس آنے لگے۔میں نے ان سے میسیج کر کے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے تو کہنے لگے کہ اس میں سبزی باغ کے کسی گروپ کا ہاتھ ہے۔ میں نے انہیں زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموشی اختیار کر لی۔

ایک دفعہ میں پٹنہ گیا تو فیس بک پر ان کا میسیج آیا۔ انہوں نے بتایا کہ کسی پاکستانی رسالے میں ان پر گوشہ آیا ہے جس میں ناچیز کے مضمون کا ایک اقتباس بھی شامل ہے۔ میری کاپی ان کے پاس محفوظ ہے۔ میں آکر لے جاؤں۔اب میں تھا کنکڑ باغ میں اور وہ پاٹلی پترا میں۔ میں اپنی کار بھی لے کر نہیں گیا تھا۔میں نے کہا’’گھر سے مسجد ہے بہت دور۔‘‘اس طرح بات آئی گئی ہو گئی۔اس کے بعد ایک دفعہ بک امپوریئم پر ان سے ملاقات ہو گئی۔تپاک سے ملے اور دکاندار سے اپنی نئی کتاب کا ایک نسخہ لے کر مجھے عنایت کیا۔

شوکت حیات عہد حاضر کے دوسرے اہم افسانہ نگار ہیں/تھے۔میں نے شموئل احمد کا لکھا ایک خاکہ دیکھا جس میں انہوں نے شوکت حیات کا خاکہ اڑایا تھا اور خوب خوب اڑایا تھا۔ میں یہ سمجھا کہ شاید دونوں میں بنتی نہیں ہے۔شوکت حیات سے بھی جب ملاقات ہوئی تو انہیں بھی شموئل احمد سے نالاں پایا۔ لیکن جب میں ایک سیمینار میں شرکت کرنے کے لئے پٹنہ گیا تو دونوں کا اغل بغل بیٹھے خوش گپیاں کرتے ہوئے پایا۔واقعی بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔

You may also like

Leave a Comment