Home مقبول ترین شمیم طارق : جیسا دیکھا ، سُنا اور پایا -شکیل رشید

شمیم طارق : جیسا دیکھا ، سُنا اور پایا -شکیل رشید

by قندیل

ڈاکٹر عظمیٰ تسنیم کی کتاب ’ شمیم طارق : جیسا دیکھا ، سُنا اور پایا ‘ ایک مونوگراف ہے ، لیکن الگ طرح کا مونوگراف ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس کتاب کی بنیاد ، شمیم طارق کی شخصیت پر لکھی دوسروں کی تحریروں پر نہیں رکھی ہے ، بلکہ اپنے مشاہدات پر رکھی ہے ، یعنی شمیم طارق کو دیکھنے اور سُننے پر ، انہیں جیسا پایا ، اِس کتاب میں اُنہیں اُسی طرح پیش کیا ہے ۔ اپنا مشاہدہ دوسروں کے کہے کے مقابلے مستند ہوتا ہے ، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ، یہ کتاب شمیم طارق کی حیات و خدمات پر بہتر روشنی ڈالتی ہے ۔ ڈاکٹر عظمیٰ تسنیم سبحانی کا تعلق پونے سے ہے ، میرا جب بھی وہاں کے اعظم کیمپس جانا ہوا ، اُن سے ملاقات ہوئی ۔ عابدہ انعامدار سینئر کالج میں بحیثیت ایک استاد اور صدر شعبۂ اردو انہوں نے ایک طویل اور کامیاب سفر طے کیا ہے ، اِن دنوں دکن ریسرچ سینٹر ، پونے کی ڈائریکٹر ہیں ، وہاں ان کی نگرانی میں کئی ادبی پروجیکٹوں پر کام ہو رہا ہے ۔ عظمیٰ تسنیم نے ، اِس نئے انداز کے مونولاگ کے لیے ، شمیم طارق کی شخصیت کا انتخاب کیوں کیا ؟ کتاب کے دیباچہ میں اس سوال کا جواب مِل جاتا ہے ، وہ لکھتی ہیں ، ’’ کم ہی لوگ اردو بولتے ہیں تو سُننے کو جی چاہتا ہے ، شمیم طارق صاحب چند ایسے لوگوں میں بھی منفرد ہیں ۔ شمیم طارق ممبئی میں رہتے ہیں ۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ یہیں گزرا ہے ۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ وہ کہاں سے ، کیسے اور کب ممبئی آئے ؟‘‘ یہ جاننے کی طلب انہیں شمیم طارق پر لکھی ہوئی کئی تحریروں تک لے گئی ، یو ٹیوب پر ان کے کئی انٹرویو دیکھے اور سُنے ، لیکن جو انٹرویو دیکھے اور سُنے ’’ اُن میں کئی مسائل پر گفتگو ہوئی مگر اُن سے شمیم طارق صاحب کا خاندانی پس منظر پوری طرح واضح نہیں ہوتا ۔ یہ معلوم کرنے میں ’ کاروانِ ادب ‘ بھوپال میں شائع ہوئی ان کی ’ آپ بیتی ‘ معاون ثابت ہوئی حالانکہ یہ بھی مکمل نہیں ہے ۔ چناچہ میں نے اُن پر ایک مختصر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا ۔‘‘ وہ ایک الگ طرح کی کتاب لکھنا چاہتی تھیں ، وہ لکھتی ہیں ، ’’ آج کل شخص اور شاعر یا فن اور شخضیت پر مضامین جمع کرکے کتابی صورت میں شائع کرنے کا عام رواج ہے ۔ مختلف حوالوں سے لوگوں پر مضامین لکھوائے جا رہے ہیں مگر میں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا اور کوشش یہ کی کہ ان کو میں نے جیسا دیکھا سُنا اور پایا ہے یا اُن کے بارے میں دوسروں نے جو لکھا ہے اُس کی روشنی میں اپنی رائے اور تاثر قلم بند کروں ۔‘‘ اور یہ کام عظمیٰ تسنیم نے چھ ابواب میں پورا کیا ہے ۔ پہلا باب ’ ایک شخص ایک قلندر ‘ کے عنون سے ہے ‘ ، اس باب میں شمیم طارق کے طرزِ خطابت و گفتگو ، مطالعہ کی وسعت ، طرزِ تحریر ، حافظہ اور دیگر صفات کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے ’ روحانی معمولات ‘ کا ذکر کیا گیا ہے ، جس سے انہیں جاننے والے زیادہ تر لوگ لاعلم ہیں ۔ مصنفہ لکھتی ہیں ، ’’ شمیم طارق صاحب نسبی ، علمی اور روحانی ہر لحاظ سے بڑی مستحکم روایت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان میں کئی روحانی نسبتیں جمع ہیں ۔ قادریہ ، چشتیہ ، نقشبندیہ سلسلوں سے بھی نسبت ہے مگر غلبہ قلندریہ سلسلے کا ہے ۔ اور جن حالات میں جرات مندانہ زندگی گزاری ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ صاحبِ نسبت ہیں مگر نسبت کو ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔‘‘ عظمیٰ تسنیم نے اپنی بات کے ثبوت میں ، شمیم طارق کے تعلق سے چند بڑے ادیبوں کی تحریروں کے حوالے دیے ہیں ، جیسے پروفیسر مسعود انور علوی ، پروفیسر شریف حسین قاسمی ، پروفیسر خالدمحمود ، پروفیسر گوپی چند نارنگ ، پروفیسر نثار احمد فاروقی ، ڈاکٹر خلیق انجم ، مختار شمیم اور کالی داس گپتا رضا ۔

کتاب کا دوسرا باب خاندان ، تعلیم اور ادبی ماحول ‘ کے عنوان سے ہے ، اس باب میں شمیم طارق کے حالاتِ زندگی کو کوزے میں سمندر کی طرح سمیٹ لیا گیا ہے ۔ شمیم طارق کا خاندان ، تعلیم اور ادبی ماحول تو سامنے آتا ہی ہے ، اس مضمون سے ان کی جدوجہد اور حلال کمائی کے لیے ان کی محنت بھی سامنے آجاتی ہے ۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں ، جو شمیم طارق کی زبان سے ہیں ، ’’ واقعہ یہ ہے کہ استحصال میرا مقدر بنا رہا ۔ وجہ والدین کی خوشنودی ، ان کی خواہش کا احترام اور میری طبعی شرافت تھی ۔ ایک دن پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تو تن کے کپڑے کے ساتھ اپنی دنیا آپ آباد کرنے پر آمادہ ہوا ۔ اللہ نے خوب نوازا ۔ جن لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اجازت یا منشاء کے بغیر کسی کو عزت نہ ملے وہ خوب تلملائے ۔ اپنے بزرگوں کا نام اس لیے نہیں لیتا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں ان کا نام بھنانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔‘‘ اس باب میں اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ شمیم طارق صحافت کی دنیا میں کیوں اور کیسے آئے ؟ اس باب میں ان کی کتابوں کی فہرست بھی شامل ہے ، کُل ۲۱ کتابیں ہیں ، کئی کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ۔ اعزازات و انعامات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ انہیں ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ بھی ملا ہے ۔ تیسرے اور چوتھے ابواب کے عنوانات بالترتیب ’ شعری مزاج اور شاعرانہ دسترس ‘ اور ’ تقاریر اور توسیعی خطبات ‘ ہیں ۔ اِن میں سے پہلے میں شمیم طارق کی شاعری پر بات کی گئی ہے ، اور ان کے منتخب اشعار دیے گئے ہیں ۔ دوسرے میں اُن کے توسیعی خطبات پر بات کرتے ہوئے ممبئی یونیورسٹی میں کی گئی ان کی ایک تقریر ’ ہندو مذہب کی کتابوں کے تراجم ‘ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے ۔ پانچواں باب ’ بات چیت ‘ کے عنوان سے ہے ، یہ شمیم طارق سے عظمیٰ تسنیم کی بات چیت پر مشتمل ہے ۔ آخری باب ’ تحقیق و تنقید میں تخلیق کی شان ‘ میں شمیم طارق کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا عظمیٰ تسنیم نے عرق ریزی سے تجزیہ کیا ہے اور ان مضامین کی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے ۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے ، اس کے مطالعے سے ، شمیم طارق کی شخصیت اور ان کے فن کی باریکیاں سامنے آجاتی ہیں ۔ عظمیٰ تسنیم اس کتاب کے لیے مبارک باد کی مستحق ہیں ۔

کتاب ’ اپلائڈ بکس ، نئی دہلی ‘( موبائل نمبر: 9953630788 ) سے شائع ہوئی ہے ۔ کتاب کا انتساب مصنفہ نے ’ والدین ، اساتذہ اور طلبا کے نام ‘ کیا ہے ۔ صفحات اسّی ہیں اور قیمت سو روپے ہے ۔

You may also like