پیڑ درویش ہوا کرتے ہیں
سبز رکھو تو دعا دیتے ہیں
(فرحت عباس شاہ)
ایک روایت میں شجرکاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا: جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے اور اس میں پرندے، انسان اور جانور کھا لیں تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)،صدقہ کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ درخت ایسا لگایا جائے تو واقعی پھل دار ہو بلکہ ایسا درخت جس کا سایہ ہوتا ہو،یا درخت سے آکسیجن کا خروج ہوتا ہے تو ایسا درخت لگانے پر بھی ان شاء اللہ صدقہ کا ثواب ملےگا۔
آج کے اس آلودگی سے پر ماحول میں ایسے درخت اور شجرلگانے کی ضرورت شدت کی حد تک جا پہونچتی ہے کیوں کہ روز بروز مٹی کی زمین کو کم کیا جا رہا ہے اور پتھر والی زمینوں کو فروغ دیا جا رہاہے جس کے نتیجے میں ہریالی اور سبزہ زار میں واضح اور نمایا کمی واقع ہوئی ہے جس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ آکسیجن کی قلت پیدا ہورہی ہے،ایک عام آدمی تو حبس بھرے ماحول میں آکسیجن کی کمی کا ادراک نہیں کر پاتا تاہم جس کو ہلکی سی بھی سانس یا پھیپڑوں کی تکلیف ہے وہ کھلے اور ہرے بھرے ماحول اور حبس زدہ بھیڑ بھاڑ اور پیڑوں پودوں کی کمی والے ماحول میں جو فرق ہے اس کا بخوبی اندازہ اور مشاہدہ کر سکتا ہے۔لہذا یوں بھی نسل انسانی کے تحفظ اور اس کی بقا کی خاطر یہ امر ضروری ہو گیا ہےکہ ہر شخص اپنی ذمےداری سمجھتے ہوئے شجرکاری کو یقینی بنائے۔
لیکن المیہ یہ بھی ہےکہ بڑے بڑے حضرات کیمرے کی کوریج میں محض ایک دن کے طور پر “شجرکاری مہم” کو مناتے اور سیلیبریٹ کرتے ہیں اور پھر سال بھر یہ مہم سردخانے میں پڑی رہتی ہے،لاکھوں کے صرفے سے بےشمار درخت اور پودے لگائے تو ضرور جاتے ہیں لیکن بعد میں دکھائی نہیں دیتے؛کیوں کہ لگانے کے بعد ان کی دیکھ بھال اور ان کے تحفظ کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا بلکہ حقیقت تو یہ ہےکہ حفاظت کو ضروری سمجھا ہی نہیں جاتا البتہ خبروں کی کوریج ان کے لئے کافی ہوجاتی ہےکہ “فلاں فلاں صاحب نے بھی شجرکاری مہم میں حصہ لیا اور اتنے اتنے درخت ان کے ہاتھ سے لگائے گئے” وغیرہ۔
جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ ۱۰۰ کی بجائے محض ۱۰ پیڑ پودے ہی اگرچہ لگائے لیکن ان کی دیکھ بھال کا معقول اور مستقل انتظام کیا جائے تاکہ یہ مہم صرف ایک یومیہ مہم بن کر نہ رہے بلکہ یہ تو سال بھر جاری رہنے والی ایک کوشش ہے جو جاری رہنی ہی چاہئے تاکہ نسل نو کے لئے ایک صاف ستھرے ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔