ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
شہریت ترمیمی بل (CAB ) کے پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا میں پاس ہونے اور اس پر صدر جمہوریہ کے دستخط ہونے کے بعد اب بھارت میں اس نئے قانون کے تحت ۳۱ دسمبر ۲۰۱۴ء تک غیر قانونی طور پر پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان سے آنے والے اسلام مذہب ماننے والوں کے علاوہ ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی مذہب کو ماننے والے بھارت کے باشندے بن سکتے ہیں خواہ اُن کی تعداد کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو، یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے تمام پڑوسی ممالک کے باشندوں کو یہ سہولت نہیں دی گئی ہے بلکہ صرف تین مسلم ممالک (پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان) سے ہی غیر قانونی طور پر آنے والے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی، نیز اِن تینوں ممالک سے آنے والے ہر شخص کو شہریت دی جاسکتی ہے مگر مسلمان کو نہیں یعنی اب ہندوستان میں نئی شہریت لوگوں کی صلاحیت اور ٹیلنٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد پر دی جائے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی وغیرہ جیسے متعدد فیصلوں کی وجہ سے ملک کی موجودہ گرتی معیشت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان سے غیرقانونی طور پر ہندوستان آئے لوگوں کی فکر نہ کرکے ہندوستانی لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے، بیٹیوں کی حفاظت کرنے، ان کو بہترین تعلیم دینے اور اُن کی صحت کے لئے بڑے بڑے پروجیکٹ پر کام کیا جائے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی ملک میں نفرت وعداوت پھیلانے کی غرض سے اس قانون کو نافذ کرنا چاہتی ہے، جس سے عام لوگ ناراض ہیں کیونکہ یہ نیا قانون (CAB) ڈاکٹر امبیڈکر کی سرپرستی میں تیار کردہ ہندوستانی دستور کی روح ہی کے سراسر خلاف ہے۔ حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف پورے ہندوستان میں مظاہرے ہورہے ہیں اور سب سے زیادہ شمالی مشرقی ہندوستان متاثر ہوا ہے، جس میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزروم، ناگالینڈ، تریپورہ اور سکم کی ریاستیں ہیں جن میں تقریباً پانچ کروڑ بھارت واسی رہتے ہیں جو پورے ہندوستان کی آبادی کا چار فیصد سے کچھ کم ہے۔ گوہاٹی جو نہ صرف آسام بلکہ شمالی مشرقی ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہے، میں عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ کلکتہ میں بھی بڑے پیمانہ پر مظاہرے ہورہے ہیں کیونکہ ہندوستان کے لوگ خاص کر ان ریاستوں کے باشندے اس نئے قانون کو اپنے اور ملک کے خلاف سمجھ رہے ہیں اور عام لوگوں میں اس قانون کی وجہ سے خوف وہراس بھی پیدا ہورہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اپنی پالیسی کے تحت ساڑھے تین کروڑ آبادی والے صوبہ آسام میں NRC کرانے پر ملک کی معیشت کا بہت بڑا حصہ خرچ کیا۔ جب رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ جن ۱۹ لاکھ لوگوں کے نام دستاویز مکمل نہ ہونے کی وجہ سے NRC سے خارج کردئے گئے ہیں اُن میں سے تقریباً ۱۵ لاکھ ہندو ہیں۔ جس NRC پر ملک کی بے تحاشا رقم خرچ کی گئی جب وہ خود اُن کے اپنے ایجنڈے کے خلاف ثابت ہوئی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیتاؤں کی نیند حرام ہوگئی۔ اب بظاہر ان کے پاس اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لئے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ شہریت ترمیمی بل (CAB ) پاس کراکر سب سے پہلے آسام کے ۱۵ لاکھ ہندؤوں کو دستاویز مکمل نہ ہونے کے باوجود نئے قانون (CAB) کے تحت شہریت دے کر انہیں ہندوستانی بنادیا جائے اور پھر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو دستاویز فراہم نہ ہونے پر انہیںحراستی مراکز (Detention Centers) میں بند کرکے اُن کی زندگیوں کو دوبھر کردیا جائے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آسام کے طرز پر پورے ملک میں بھی NRC نافذ کرنا چاہتی ہے جیسا کہ وزیر داخلہ امت شاہ متعدد مرتبہ اعلان بھی کرچکے ہیں۔ موجودہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ NRC کے لئے مطلوبہ دستاویز جمع کرنا ہر شخص کے لئے آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے وہ دوسری طرف CAB نافذ کرکے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے علاوہ دیگر لوگوں کو دستاویز مکمل نہ ہونے کے باوجود انہیں ہندوستانی شہریت دے کر بھارت واسی بنانا چاہتی ہے اور مسلمانوں کو محروم کرکے (Detention Centers) میں بند کرنا چاہتی ہے، اسی ایجنڈے کے تحت حراستی مراکز کے قیام کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔
یہ نیا قانون ہندوستانی دستور اور دنیا میں مشہور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ہے اور اس کے بعد مستقبل میں پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوگا، اس لئے اس نئے قانون کی مخالفت کرنا اشد ضروری ہے۔ اس نوعیت کے فیصلوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے مظاہرے یا جلسے یا جلوس کرنا یا انتظامیہ کو میمورنڈم پیش کرنا ہندوستانی قوانین کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستانی آئین کے مطابق ہمیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ ۱۳ دسمبر بروز جمعہ کو پورے ہندوستان میں جگہ جگہ اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پرامن طریقہ پر یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں اور ملی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں جیسا کہ چند پٹیشن دائر بھی ہوچکی ہیں اور ہندوستان کے تجربار وکلاء کی نگرانی میں مکمل تیاری کے ساتھ کیس کو لڑا جائے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ ہندو مسلم کو بانٹے کی سیاست کرتی ہے اور وہ اسی میں اپنی کرسی کی حفاظت سمجھتی ہے کیونکہ ۲۰۱۴ء سے ملک اور قوم کے لئے کوئی بڑا تعمیری کام نہیں ہوسکا ہے اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو مسلم کے درمیان نفرت پھیلانے والے مسائل میں ملک کے باشندوں کو الجھاکر ہندؤوں کا ووٹ حاصل کرکے اپنا اقتدار بچانا چاہتی ہے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ وہ پورے ملک کے لئے بھی جلدی ہی NRC پر قانون بنائے، حالانکہ اس کا نفاذ آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے جو بڑی رقم درکار ہے وہ اس وقت سرکاری خرانے میں موجود نہیں ہے، لیکن دوراندیشی کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے دستاویز مکمل کرنے کی اپنے طور پر ضرور کوشش کرتے رہیں خاص کر تمام دستاویز میں نام کی اسپیلنگ ایک ہونی چاہئے۔
ہندوستان میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے بعض حضرات وہ صرف اور صرف امت کے قائدین کے خلاف لکھنا شروع کردیتے ہیں اور غالباً اسی کو دین اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں حالانکہ اُن کی عملی زندگی کو سامنے رکھ ایسا لگتا ہے کہ وہ حضرات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کے بجائے دیگر دنیا دار حضرات کے طریقہ میں بظاہر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اِن حضرات نے مذکورہ قانون کی ذمہ داری بھی قائدین امت پر تھوپ کر کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کردی ہے، حالانکہ یہ قانون قائدین امت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا ہے بلکہ دہلی مرکز میں مکمل اکثریت حاصل کرنے والی اور ہندوستان کے متعدد صوبوں میں حکومت کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اپنے سیاسی مفادات، بعض سیاسی پارٹیوں کی دوغلی پالیسی، اپوزیشن پارٹیوں کی کمزوری اور RSS کے منظم ایجنڈے کی وجہ سے یہ بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پاس ہوا ہے۔ صرف یہی ایک بل پاس نہیں ہوا ہے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس سال بیسیوں بل پاس کراچکی ہے۔ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے وہ کام کئے ہیں جو سالوں سے RSS کے ایجنڈے میں تھے اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی بلکہ بہت ممکن ہے کہ یکساں سول کوڈ پر بھی قانون لایا جائے۔
آخر میں تمام حضرات سے درخواست ہے کہ بی جے پی دوسری بار پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں ہے۔ صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ اور صوبوں کے گورنر جیسے اہم عہدوں پر انہی کے پسندیدہ امیدوار فائض ہیں۔ لوک سبھا میں مکمل اکثریت حاصل ہے۔ لہٰذا جذبات کو بالائے طاق رکھ کر صبر وتحمل اور دور اندیشی سے کام لیں۔ باہمی مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مل جل کر آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا جو موقف ہے اُس پر عمل کریں، علماء دین کا احترام کریں اور اُن کے کسی موقف سے اگر کوئی اختلاف بھی ہے تو اُس کے اظہار میں شائستگی اور احترام کا دامن نہ چھوڑیں۔ یہ ملک کسی مخصوص مذہب کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی سب کا ہے، اور اس پر سب کا یکساں حق ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ہے، اور آج بھی اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی سمت میں ہمیں سوچ سمجھ کر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو سماجی بھائی چارہ کو مضبوط کریں اور دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ ہماری روز مرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں معاون ہوں۔ نیز ہم اپنی تاریخ کو نہ بھولیں، اس سے زیادہ خراب حالات میں بھی اللہ تعالیٰ اچھے حالات پیدا کرتا ہے، اس لئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط کریں، فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق مکمل طور پر ادا کریں۔ آپس میں اتحاد واتفاق کو قائم رکھیں۔ غیر مسلم حضرات کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں تاکہ نفرت کے بادلوں کو پیار ومحبت سے چھانٹا جاسکے۔