مسعود جاوید
حکومت، حکومت نواز اشخاص، متعصب غیر مسلم اور برادران وطن کا ایک غیر جانبدار طبقہ شہریت ترمیمی ایکٹ این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کو اپنے اپنے اعتبار سے ‘غلط ‘، ‘بی جے پی مخالف’، ‘ہندو مخالف’ اور ‘غیر ضروری’ بتا رہے ہیں۔ یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ مظاہرے سیاسی مفاد کی برآری کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کے اشارے پر منظم کیے گئے ہیں، ان احتجاجات کو لیفٹ کی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ کہ اس میں شریک مسلمانوں کا کم پڑھا لکھا طبقہ ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ وہ مظاہرے کس بات کے خلاف کر رہے ہیں۔
١ – کسی بھی احتجاج میں شریک ہونے والوں کے ہر فرد کو احتجاج کی تفصیل اور باریکیوں کا پتہ نہیں ہوتا، یہ صرف اس احتجاج یا صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
٢- حکومت اپنی بنائی ہوئی پالیسی کو ہی حق سمجھتی ہے اسے بآسانی قائل نہیں کیا جاسکتا۔
٣- بھکت پالیسی بنانے والوں سے زیادہ کٹر ہوتے ہیں اس لئے دلائل سے بحث کے مقابل وہ تھیتھرولوجی پیش کرتے ہیں۔
٤- فرقہ پرست لوگوں کے ذہن میں یہ راسخ کیا گیا ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کو شہریت دینے کے خلاف ہیں۔
٥- غیر مسلموں کی طرح مسلمان بھی کسی ایک پارٹی کے اندھے مقلد یا زر خرید غلام نہیں ہیں کہ اس کے اشارے پر ناچیں۔ ان کے بھی الگ الگ سیاسی نظریات ہیں اور یہ بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔
٦- اس میں کسی حد تک سچائی ہے کہ مظاہرین میں ایلیٹ کلاس، شرفا اور دانشوروں کی شراکت بہت کم ہے۔
٧- اب رہی بات غیر جانبدار برادران وطن کی جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مظاہرے غیر ضروری ہیں اس لئے کہ ان کی سمجھ کے مطابق اس ایکٹ سے کسی بھی ہندوستانی، مسلم ہو یا غیر مسلم، کی شہریت پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ ان کی اس بات سے اتفاق نہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے سوائے اس کے کہ ایکٹ کی زبان مذہب کی بنیاد پر تفریق بھید بھاؤ کرنے والی ہے۔ اگر مسلمانوں کو مستثنیٰ کرنے کی بجائے اس ایکٹ میں یہ لکھا جاتا کہ پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتوں کو جو ٣١ دسمبر ٢٠١٤ سے قبل ہندوستان آچکے ہیں ان کو شہریت دی جائے گی تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ ویسے بھی شہریت دینے سے متعلق ایکٹ پہلے سے نافذ تھا حکومت کس ملک کے کس باشندے کو شہریت دیتی ہے یہ ایک حساس قانونی مسئلہ ملک کی سالمیت سے وابستہ ہے اس لیے عام لوگوں کے لئے کبھی بحث کا موضوع نہیں بنا۔ یہ پہلی بار ہوا کہ خود حکومت نے اس پر بحث کا دروازہ کھولا۔
جہاں تک این آر سی کا تعلق ہے تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اسے شہریت ترمیمی ایکٹ سے نہ جوڑا جائے۔ اور یہ کہ این آر سی کے لیے اصول و ضوابط ابھی تک مقرر نہیں ہوئے۔ لیکن سی اے اے سے این آر سی کا ربط ہو یا نہ ہو خود حکومت اور پارٹی کے نمائندوں نے اسے عوامی بحث کا موضوع بنایا ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کے ذہنوں میں ایک موہوم یا حقیقی خوف ہے کہ کیسے ثابت ہو کہ وہ ہندوستان کا شہری ہے۔ شہریت کارڈ کی عدم موجودگی میں کون سا دستاویز قابل قبول ہے مسلمان اسی میں الجھا ہوا ہے۔
بات میں وزن اسی وقت ہوتی ہے جب قانونی لڑائی لڑنے والے ہم پلہ ہوں ۔ کیا وجہ ہے کہ شہرت یافتہ مسلم قانون دان، ماہرین سیاسی امور ، پروفیسرز اور انگریزی و ہندی میں لکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار اس سنگین نوعیت کے موضوع پر کچھ بولنے لکھنے اور راے عامہ بنانے کے لئے سامنے نہیں آ رہے ہیں۔ اگر یہ مظاہرے فقط واہمہ پر مبنی ہیں اور ان کی نظر میں بھی احتجاج غیر ضروری اور بلا کسی حقیقی وجہ کے ہے تو وہ مسلمانوں کو سمجھائیں اور اگر واقعی شہریت سے متعلق ترمیم اور این آر سی سے مسلمان متاثر ہو سکتے ہیں تو حکومت اور عوام کو دلیلوں سے قائل کریں۔ وزیر داخلہ نے چیلنج کیا ہے وہ چیلنج قبول کریں ۔ کچھ تو کریں۔ اگر مظاہرے غلط اور بلا وجہ ہیں تو اسے بند کرائیں اگر حکومت کی پالیسی اور یہ ایکٹ متاثر کرنے والا ہے تو حکومت کو قائل کریں۔