Home تجزیہ شہری ترمیم بل کے بعد کا منظر نامہ

شہری ترمیم بل کے بعد کا منظر نامہ

by قندیل

مشرّف عالم ذوقی
2002 میں گجرات حادثہ ہوا،ایک بڑی پلاننگ پر کام شروع ہوا ، تب کے ایک وزیر اعلی اوراب کے وزیر اعظم نے مسلمانوں کو کتے کا پلا کہا ، ہم اس وقت بھی نہیں سمجھے کہ حکومت نے مسلمانوں کو ان کی اوقات سمجھانے کے لئے مہرے چلنے شروع کر دیے ہیں، تین طلاق ، ہجومی تشدد ، اشتعال انگیز بیانات ، میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنا، ہم یہ سب دیکھ رہے تھے اور بابری مسجد میں الجھے ہوئے تھے ، کرایہ داروں کی نہ زمین ہوتی ہے نہ مسجد ۔ اس طاقت کا اندازہ لگائیے کہ کسی مذہب کے خلاف کھل کر بولنا کیسا ہوتا ہے ؟ اس میں ہمت تھی ،پارلیمنٹ میں سب کے سامنے جھوٹ بولنے کی، جبکہ ابھی کوئی وقت نہیں تھا اس بل کو لانے کا۔ جب معیشت دم توڑ رہی ہو ، بھوک ہر دروازے پر دستک دے رہی ہو ، نوجوان روزگار کو لے کر بے حال ہوں ، کسان خود کشی کر رہے ہوں ، ایسے ماحول میں ملک کے معیار کو بلند کرنے کی جگہ نفرت کے ایسے بل کو سامنے لایا گیا ، جس نے ساری حدیں توڑ دیں ، یہ ہونا تھا یہ ہو گیا ، یہ پہلے بھی ہو رہا تھا،چھ برسوں سے وہ شخص ہر جگہ ، ہر اجلاس میں بھگوڑوں کو نکال باہر کرنے کی باتیں کرتا تھا اور ہماری ملی تنظیمیں ایسے اشتعال انگیز بیانات کے خلاف متحد نہیں ہو سکیں، جناح جیتے ، ہٹلر جیتا ، یا بی جے پی جیتی سوال اس کا نہیں ، اب ماضی اور تاریخ کے حوالے بدل جائیں گے،سوچئے آگے کیا ہوگا ؟ مستقبل کا کیا ہوگا ؟ اگر اب بھی نہیں سوچ رہے ،تو وہ گیس چیمبر زیادہ دور نہیں ،جس کی پیشین گوئی میں نے مرگ انبوہ میں کی ہے، انکے لئے یہ سوال ہے ہی نہیں کہ تیس کروڑ مسلمان کہاں جائیں گے ؟ وہ جہنم میں جائیں ، اس بات سے انھیں کویئی سروکار نہیں ؛ لیکن اس بات سے سروکار اب ضرور ہے کہ فلم ، میڈیا ، سپورٹس ، سرکاری نوکری ، ملک کے اہم منصب اور عہدوں پر مسلمان نہ ہوں ، مسلمانوں کی سماجی ، سیاسی حیثیت کو زیرو بنا دیا جائے ، ابھی وقت تاریخ کے مجرے دیکھنے کا نہیں ہے ،ابھی وقت مولانا ابو الکلام آزاد جیسوں کو یاد کرنے کا نہیں ہے، یہ حالات مختلف ہیں ، ہندوستان کو میانمار یا روہنگیا میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ،آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے ؛ اس لئے کہ لوک سبھا سے راجیہ سبھا تک انھیں روکنے والا کوئی نہیں ،چار دسمبر کو کچھ ہندی اخباروں کی سرخی تھی ’’مسلماں نا منظور‘‘ دینک بھاسکر نے سرخی لگائی کتے کا پلا – غیر مسلم منظور‘‘ ۔ آزاد ہندوستان میں ایساپہلی بار ہواکہ مسلمان نا منظور کی سرخیاں اخباروں کی زینت بنیں ، ہم ابھی بھی اس وہم میں مبتلا ہیں کہ این آر سی اور شہری ترمیم بل دو علیحدہ بل ہیں ، جبکہ اس ملک کی حقیقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی شروعات بھی مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ، آپ مغالطے میں ہیں اگر اب بھی آپ کو احساس ہے کہ دوسرے درجے کے شہری ہو کر آپ کامیابی کی سیڑھیاں طے کر سکتے ہیں ، کوئی انقلاب لا سکتے ہیں، کویئی کرشمہ دکھا سکتے ہیں، شہریت ترمیم بل کو کسی راجیہ سبھا میں بھیجے جانے کی ضرورت نہیں، وہ اپنی طاقت ، اپنے منصوبوں ، اپنے ارادوں سے واقف ہیں اور اب کھلے طور پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہندو راشٹر میں مسلمان دوئم درجے کے شہری ہیں ۔ اس کا احساس 2014 میں ہو چکا تھا؛لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ کویئی بھی حکومت اس طرح کھلے عام مسلمانوں کو ملک سے باہر کا راستہ دکھا سکتی ہے، کیا غیر مسلم جنہیں تلاش کر کر کے اس ملک میں جگہ دی جائے گی ، وہ صرف ہندو ہوں گے ؟ کیا سکھ طبقہ اپنے مذہب کو قربان کر دیگا ؟ کیا بودھ اپنا مذھب بھول جائیں گے ؟ کیا جین مذھب کے پیروکار اپنے مذہب کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ؟ بھاجپائی ایکٹر اور لیڈر روی کشن نے بیان دیا کہ100 کروڑ ہندو آبادی والے ملک کو ہندو راشٹر ہی کہا جائے گا، میڈیا تو پہلے دن سے مسلمانوں کے خلاف ہے ، مودی خاموش ہیں، وزیر داخلہ نے اب شطرنج کی نئی بساط پر وزیر کو اتار دیا ہے ،مہرے پٹ رہے ہیں اور مسلمان سیاسی تماشا دیکھنے پر مجبور — امبیڈکر کے آئین سے آہستہ آہستہ مساوات ، ملت ، برابری کے حقوق کا صفحہ غائب ہو جائے گا ، پھر ہماری مسجدیں ، ہمارے مدرسے سب ان کی تحویل میں ہوں گے، فرض کیجئے ہم سڑکوں پر اترتے ہیں ، سو کروڑ آبادی کے سامنے ہماری کوئی بساط نہیں ،وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سڑکوں پر آئیں اور اکثریت کو اپنی مضبوطی کا شدید احساس ہو ، اس وقت معاشی اعتبار سے ملک کی موت ہو چکی ہے؛ لیکن اکثریت میں جشن کا ماحول ہوگا کہ آخر مسلمانوں کو حقیر درجے تک پہنچا دیا گیا ، پھر عدالتیں رہ جاتی ہیں ۔ اب ملی تنظیموں کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاہئے کہ عدالت کا رخ کریں ، ہماری طاقت بچے گی ،تو ہماری شناخت بھی محفوظ ہوگی ، ہماری مسجدیں بھی ۔میں نے مرگ انبوہ میں لکھا کہ مسلمان گھر اور بیشمار مسلمان اچانک راتوں رات غائب ہو جاتے ہیں ، میرے ایک قاری نے سوال کیا ، ایسا کیسے ممکن ہے ؟ میرا جواب تھا ، شہریت ترمیم بل اور این آر سی پر عمل ہونے دیجئے ،جرمن آج بھی مرگ انبوہ کو فراموش نہیں کر سکے،لاکھوں کی تعداد میں سیاحتاریخ کے المناک مناظر کی یاد تازہ کرنے آتے ہیں ،جبکہ جرمنوں کو مرگ انبوہ کا لفظ سننا بھی گوارا نہیں ، کل یہی ہوگا ، تاریخ یاد رکھے گی کہ پچیس کروڑ آبادی والی اقلیت کے ساتھ مرگ انبوہ کی ریہرسل کی گئی، میں نے ناول مرگ انبوہ لکھتے ہوئے ان تمام حقیقتوں کو سامنے رکھا تھا،مجھے یقین تھا کہ اس کے بعد ہندو راشٹر اور این آر سی کا ہر سفر آسان ہو جائے گا، ابھی صرف ریہرسل ہے ،ملک کا نوے فیصد میڈیا ہندو راشٹر کی بحالی کے لئے مسلمانوںکے خلاف ہے،اس وقت ملک کے صفحہ پر مسلمانوں کے خون سے جو کہانی لکھی جا رہی ہے،اسے روکنا ہوگا۔اشتعال انگیز بیانات اور روز روز ہونے والی ہلاکت کے قصّوں کو ختم کرنا ہوگا؛لیکن کیا یہ آسان ہے ؟آپ ڈرینگے تو حکومت ڈرائیگی،آپ جس دن ڈرنا چھوڑ دیں گے ،اس دن سے حکومت ڈرنے لگے گی، —نفسیات کا یہ معمولی نکتہ ہے کہ ہر ہٹلر اندر سے کمزور ہوتا ہے،وہ مجمع میں دہاڑتا ہے ۔سچ بولنے والے ایک معمولی سے آدمی سے بھی وہ ڈر جاتا ہے۔میڈیا ،ٹی وی چینلس اور حکومت نے مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی مخلوق گرداننا شروع کر دیا ہے،ایک ایسی مخلوق جسے بس اس سر زمین سے باہر نکالنا باقی رہ گیا ہے ،آنکھیں بدل گئی ہیں ،کچھ دن اسی طرح گزرے، تو مسلمان اس ملک میں نمائش کی چیز بن کر رہ جائیں گے،دیکھو وہ جا رہا ہے مسلمان ،یہ ہونے جا رہا ہے،سوالات کے رخ خطرناک طور پر مسلمانوں کے لئے مایوسی کی فضا تیار کر رہے ہیں ،ہندوستان کی مقدّس سر زمین نفرت کی متحمل نہیں ہو سکتی اور مشن اپنے نظریہ میں تبدیلی لاے ،یہ ممکن نہیں،سوال بہت سے ہیں ،ہندوستان کے چوراہوں اوردیواروں پر صرف یہ عبارت لکھی جانی باقی ہے کہ ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے۔مسلمانوں اور دلتوں کا قتل ، ہر روز نئے مظالم ، صرف میڈیا کی آنکھ بند ہے ،اسلئے کہ مکمل میڈیا خریدا جا چکا ہے،حکومت ہر شعبہ کو خرید چکی ہے ،انصاف کی عمارت پر بھی زعفرانی پرچم چند دہشت گرد لہرا چکے ہیں،2002 تک ہندستانی سماج اس مقام تک نہیں پہنچا تھا، جہاں وہ اب پہنچتا نظر آرہا ہے اور اب شہریت ترمیم بل نے ہندو راشٹر کے سفر کو آسان بنا دیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے امبیڈکر کا آئین غائب ہو جائے گا ، یہی تو مرگِ انبوہ ہے،میں نے مرگِ انبوہ میں ہندوستان کے مستقبل کو دیکھا ہے ۔

You may also like

Leave a Comment