گزشتہ دنوں ہر سال کی طرح "عالمی یوم مزدور” منایا گیا۔ جن مزدوروں کے نام پر یہ ڈھونگ رچا گیا ان مزدوروں میں لاکھوں ایسے بد نصیب ہوں گے جنہیں اس دن یا تو کام ہی نہیں ملا ہوگا یا پھر مزدوری نہیں ملی ہوگی۔ کتنے دہقانوں کے چہرے اس دن بھی سوکھے اور اداس رہے ہوں گے اور نہ جانے کتنے مزدوروں کی پیٹھوں پر اس دن بھی تازہ زخم لگے ہوں گے۔ سونے اور چاندی کی کانوں میں، لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور کھلیانوں میں اور کسی اناج منڈی میں، کسی ہوٹل اور کسی سوپر مارکیٹ میں ریلوے اسٹیشنز اور بس اسٹینڈز پر دن بھر مزدوری کرنے کے بعد بھی چند ٹکے کی دہاڑی کے علاوہ ان کے حصے میں ایک مسکان بھی نہیں آئ ہوگی۔ وہ کروڑہا مزدور جنکی کوئی یونین نہیں ہوتی، اور جو ہر روز کواں کھود کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں، انہیں "ہیپی لیبر ڈے” کا بینر جلی حروف میں لکھی ہوئی کسی گالی سے کم نہیں لگا ہوگا۔
بیچارہ مزدور کیا جانے کہ اپنے آپ کو مزدوروں کی ‘سطح’ سے اوپر سمجھنے والے ‘غیر مزدور مالکوں’ نے یہ دن منا کر ان کے اوپر احسان کا اک ٹوکرا لاد دیا ہے۔ ایسا ہر سال ہوتا ہے مگر اس سے نہ مزدور کی قسمت بدلتی ہے اور نہ مساوات و عدل کی کوئی سنجیدہ لہر چلتی ہے بلکہ ہوتا یہی ہے کہ ہر سال یکم مئی کو سر شام سورج کے قتل کے ساتھ ہی اس آرٹیفیشیل جذبے کی بھی موت ہو جاتی ہے۔
مزدور کون ہے؟ میری نگاہ میں وہ کسی ٹکےدار مالک کا زرخرید غلام نہیں ہے بلکہ تمدن کے ظواہر کا اولین معمار ہے۔ اسی مزدور کی وجہ سے ہمارے اطراف میں دیواریں ہماری محافظ بن کر کھڑی ہیں اور ہمارے سروں پہ موجود چھت نے دھوپ کو ہمارا رنگ سیاہ کر دینے اور بارش کو ہمارا وجود گیلا کر دینے سے روکا ہوا ہے۔ ان ہی مزدوروں نے ہمیں گھر دیئے، دفتر دیئے ، کارخانے دیئے، مشینیں دیں، فلک بوس عمارتیں دیں، محلات دیئے، معدنیات کے ذخائر دیئے، پل اور فلائی اوورس دیئے، پہاڑ کاٹ کاٹ کر راستے دیئے، انجنوں کو کوئلہ دیا اور کوئلوں کو انجن دیئے، تجارت و صنعت کو اپنے کندھوں پہ ڈھویا، کھیتوں اور کھلیانوں کو زرخیزی دی، الغرض زندگی کی نقل و حرکت کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر دیا جن کے بغیر معدنیات کے ذخائر زمین کی گہرائیوں میں ہی دفن رہ جاتے، نہ سمندروں میں جنگی بیڑے اور تجارتی کشتیاں تیرتیں، نہ فضاؤں میں ہوائی جہاز محو پرواز ہوتے، الغرض اگر یہ محنت کش مزدور نہ ہوتے تو حیات انسانی ایک اپاہج کی طرح زمین پر بیٹھی بس سائنس، طب اور فلسفے کے علوم کا چورن بیچتی رہ جاتی۔
لیکن افسوس کہ مزدوروں کی ان تمام نوازشات کے صلے میں دنیا کے بیشتر حصے میں موجود ان غریب محنت کشوں کو اک دہاڑی تک ایمانداری کے ساتھ نہیں ملتی۔ انہوں نے شہر کے شہر بسا دیئے مگر خود انکو ایک گھر نہیں ملا۔ عالیشان بنگلوں اور رہائشی عمارتوں کے ان محنت کش معماروں کو کبھی قاعدے کا ایک بستر نہیں ملا۔ بلکہ انسانی بستیوں کے ان جفا کش خانہ گروں کی خانہ بدوشی اور ان کا بنجارہ پن غربت اور بے زمینی کا استعارہ بن گئی۔ بزبان شاعر،
شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
مزدور وہ بھی ہے جو ہمارے آپ کے گھروں اور محلوں میں زندگی کی بساط بن کر بچھا ہوا ہے۔ جسکے بغیر ہمارے گھروں میں پانی کا آنا، اناج اور اشیاۓ خوردنی کی فراہمی، گیس کے سلنڈروں کا پہنچنا، بدبودار اور تعفن زدہ کوڑوں کا گھر سے اخراج، اور گھر و محلے کی صفائی ناممکن ہے۔ ان میں گھروں میں کام کرنے والے وہ ملازم اور ملازمائیں بھی شامل ہیں جنکے بغیر ہمارے کتنے ضروری کام بگڑ جاتے ہیں۔
مزدور وہ بچہ یا بچی بھی ہے جسے ہم اکثر اپنے گاؤں سے شہروں میں لے آتے ہیں۔ انکے ماں باپ، بہن بھائیوں اور انکے اپنوں سے بہت دور۔ جن کا ہمارے بچوں کے ناز اٹھانے اور ہماری خدمات میں بچھے رہنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ جن کا کھانا ننانوے فیصد گھروں میں، ہمارے دسترخوان اور ڈائننگ ٹیبل سے بچ جانے کے بعد طے ہوتا ہے، جنکے کپڑے ہم اور ہمارے بچوں کے اترن ہوتے ہیں اور جن کی چپلیں ہمارے پیروں سے ‘رٹائرڈ ‘ چپلیں ہوتی ہیں۔ ہمارے بچے چاکلیٹس اور آئس کریم مزے لے لے کر کھا رہے ہوتے ہیں تو ان مزدور بچیوں کا کام انھیں چیختی ہوئی پامال حسرتوں کے ساتھ بس دیکھتے رہنا ہوتا ہے۔ ہم انہیں چاکلیٹس اور آئس کریم یا کوئی کھلونا یہ سوچ کر نہیں دیتے کہ اس سے حسب مراتب کا فرق آئے گا اور یہ ابھاگن ‘سر چڑھ کر برابری’ کرنے لگے گی۔
کم عمر سی یہ بد نصیب ‘مزدورنیں’ جو صبح و شام ہمارے بستر اور صوفے صاف کرتی ہیں، انھیں بستروں اور صوفوں پر بیٹھ جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سونے کے لئے اکثر گھروں میں انہیں پلنگ نہیں دی جاتی بلکہ دیر تلک صاحب،صاحبہ اور بچوں کی جسمانی خدمتوں کے بعد سب سے اخیر میں انکی تھکی ہوئی، بیمار، بوسیدہ، گونگی اور محروم آنکھوں کو گھر کے ایک کونے میں ‘زمیں بوس’ کر دیا جاتا ہے۔ سال میں دو بار کپڑے دیئے جاتے ہیں تو سختی سے خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کے جوڑے کی قیمت اپنی ‘ننھی پری’ کے کھلونوں سے بھی کمتر ہونی چاہئے۔
ان تمام قسم کے مزدوروں سے ہم اکثر سخت لہجوں میں بات کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سب ‘غیر مزدور مالکوں’ کو یہ احساس ہے کہ اگر ان سے نرم لہجوں میں بات کی گئی تو یہ برابری پر اتر آئیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ سارے مزدور مفلس و بد ذات ہیں اسلئے انکی زبانیں ہم ‘غیر مزدور امیروں’ کی حس لطافت کا بار نہیں اٹھا پائیں گی۔ یہ بد تمیز ہوکر امیر و غریب کی تمیز بھول جائیں گے۔ اسی لئے ان مزدوروں سے ہمیشہ سخت اور رعب دار لہجے میں بات کرنا ہم ‘غیر مزدور مالکوں’ کی متفقہ پالیسی ہے۔
لیکن یہ ایک کڑوا سچ ہم بھول جاتے ہیں کہ مزدور تو ہم بھی ہیں۔ اور مزدور بھی اتنے مجبور کہ اپنے آقا کو ان آزاد مزدوروں کی طرح ‘نا’ نہیں کہ سکتے۔ ٹیکسی والے، رکشے والے، آٹو والے، سبزی والے، کوڑے والے، پانی والے، نالی والے، نل والے، بجلی والے، ٹھیلے والے، کنسٹرکشن والے، غرض یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والے سب مزدور تو آرام سے کہ سکتے ہیں کہ صاحب آج نہیں، مگر سفید کالروں پر کلف مار کر ماہانہ تنخواہوں پر اپنی عمر کھپا دینے والے ‘غیر مزدور ایمپلائز’ اپنے باس کو ‘نا’ نہیں کہ سکتے۔ اسی لئے ان وائٹ کالر مزدوروں کی زندگی ہر روز نہا کر اجلی تو ہو جاتی ہے مگر مقدر کی کائی کبھی صاف نہیں ہو پاتی۔ بس لباس کی سفیدی نے میلے کچیلے مزدوروں کے درمیان گردن کو ذرا اونچا کر رکھا ہے تو مزدوری کر کے بھی ‘غیر مزدور’ بنے بیٹھے ہیں۔
سرمایہ دار بھی خود ایک مزدور ہے جسکی مالکن وہ ہوسِ زر ہے جسکی پرورش میں وہ غریب مزدوروں کا ‘پروردگار’ بنا ہوا ہے۔ اور اپنے سرمائے کی بھٹی گرم رکھنے کے لئے مزدور کے تھکے اور جلے ہوئے تن من سے اپنی ہوس کا کوئلہ سلگاتا رہتا ہے۔ مزدور اگر پیٹ کی بے لگام بھوک مٹانے کے لئے مزدوری کرتا ہے تو یہ سرمایہ دار اپنی خواہش نفس کی مزدوری میں پاگل بنا ہوا ہے۔
کاش یہ بات ذہن نشین ہوتی کہ ان سب قسم کے مزدوروں نے اپنے اس مالک حقیقی کی مزدوری پوری ایمانداری سے کرنی تھی جس نے انہیں وجود بخشا ہے۔ جو ایک دن سب سے حساب لینے والا ہے۔ محسن انسانیت محمد عربی صل اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے ماتحتوں، مزدوروں اور خادموں کے حقوق کے بارے میں سخت تاکید فرمائی ہے۔ دنیا کی زندگی میں کسی کمزور کا آقا اور مالک بن کر جی لینا جتنا پرلطف، شاہانہ اور شاندار تجربہ ہے، آخرت میں اسکے حساب و کتاب کا سامنا کر لینا اس کے برعکس سخت ترین اور خطرناک ترین مرحلہ ہوگا۔ لہذا اگر ایک بھی شخص ہماری مزدوری اور ماتحتی میں ہے تو اگلے برس "عالمی یوم مزدور” کا جشن منانے سے پہلے، بہت پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر یہ دیکھ لینا بہت ضروری ہے کہ آیا ہم ان مزدوروں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں یا نہیں؟؟؟