(تیسری قسط)
(سفر حج کی روداد)
ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
اگلا دن جمعہ تھا ، دن گزار کر رات بعد نماز عشا گیا کے لیے روانگی تھی اور صبح گیا ائیرپورٹ سے فلائٹ تھی ۔ ہر روز ایک الوداعی تقریب بھی منعقد ہوتی تھی ۔ آج کا یہ پروگرام مغرب کے بعد ہوا جس میں چند معروف ہستیوں نے حصہ لیا ، ان میں حج کمیٹی کے چئیر مین الیاس حسین عرف سونو بابو بھی موجود تھے ۔ دیکھنے میں آیا کہ ماشاء اللہ ایک ہی اسٹیج پر ہر مکتبہ فکر کے رہنما موجود تھے ، ہر ایک کی یہی کوشش ہو رہی تھی کہ اس مقدس سفر کے سلسلے میں کچھ باتیں کی جائیں کہ سب کے مقدر سنور جائیں ،انتہائی مثبت اور تعمیری باتیں ہوئیں ۔
گیا جانے کے لیے عمدہ اے سی بس کا انتظام تھا ، گیا تک جانے کے لیے اب میرے ہم سفر عزیزم عبد الرافع تھے ، بس کا کرایہ فی کس دو سو پچھتر روپے تھا ، عشا کے فوراً بعد روانگی تھی اور پیک کھانے کا نظم بس ہی میں تھا ۔حسب ِ ہدایت نماز پڑھ کر لوگ بس میں سوار ہونے لگے ، سیٹوں پہ بیٹھتے ہی کھانا تقسیم کیا گیا ، بہت سے مسافرین اسی وقت فارغ ہو گئے ، ہم بھی تھوڑی دیرمیں کھانے سے فارغ ہو گئے ، تقریبا ً رات کے دس بجے بس پٹنہ سے روانہ ہوئی ، بس کے آگے پیچھے سیکیورٹی لگی ہوئی تھی ، ڈیڑھ بجے کے قریب بس گیا ایرپورٹ پہنچی ، ہم لوگوں پہ غنودگی چھائی ہوئی تھی ۔ وہاں حاجیوں کے قیام کے لیے ایک بڑا سا پنڈال لگا ہوا تھا ، عورتوں کا الگ اور مردوں کا علیحدہ انتظام تھا اور نماز کے لیے بھی ایک کشادہ جگہ مختص تھی ۔ وضو اور بیت الخلا کا بھی معقول نظم تھا ۔ پنڈال میں سونے کے لیے چارپائی پر سفیدبستر لگا ہوا تھا ، چھت پنکھااور جگہ جگہ موبائل چارج کا انتظام بھی تھا ۔ چند گھنٹے آرام کے بعد علی الصباح بیدار ہو کر فریش ہوئےاور آگے کے سفر کی تیاری میں مصروف ہوگئے اس لیے کہ آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کی فلائٹ تھی جو ذرا تاخیر سے روانہ ہوئی ۔ اسی پنڈال میں ہمیں دونوں طرف کا جہاز ٹکٹ دے دیا گیا اور امیگریشن فارم بھی یہیں بھروا دیا گیاتھا جس سے مدینہ ایر پورٹ پر بڑی آسانی ہوئی ۔
ائیرپورٹ میں داخل ہوتے ہی سارے ہمراہی باہر رہ گئے ۔ یہاں پر پاسپورٹ وغیرہ کی تفتیش ہوئی اور ساتھ کرینسی کے تبادلے کی سہولت بھی تھی ، فائدہ اٹھایا گیا ، ائیر پورٹ پہ ہمیں ناشتے سے بھی نوازا گیا جس کا حق ہم نے زمین و آسمان کے بیچ جہاز پر ادا کیا ۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے طرح طرح کے وسوسوں سے دل گھرا ہوا تھا لیکن اللہ کا نام لے کر اور لیتے ہوئے اپنی نشست پہ جاکر بیٹھ گیا ۔ صبح تقریباً نو بجے جہاز نے پر لگائے اور پرواز کی ۔ چار ساڑھے چار کی یہ پرواز تھی اور اگلا پڑاؤ شارجہ تھا ۔ راقم کا یہ پہلا ہوائی سفر تھا ، جہاز کارندوں کے ذریعے سفر کی تفصیلات اور ہدایات جاری کی گئیں بطور خاص اس بات پر زور دیا گیا کہ ہنگامی صورت حال میں سواروں کو کیا کرنا چاہیے ؟ میرےسہ فردی گروپ کو ایک ہی جگہ پہ سیٹ مل گئی ۔ یہاں نام بنام نشستوں پہ لوگوں کو نہیں بٹھایا جا رہا تھا بلکہ جو پہلے آرہا تھا جہاز کا عملہ اسی ترتیب سے ہر ایک کو بٹھاتا چلا جارہا تھا ۔ حاجیوں میں بیشتر عمر دراز اور بزرگ تھے ، کچھ خواتین بھی تھیں ، چند جوان اور جوان جوڑے بھی تھے ۔
یہ میری خامی ہے کہ کسی اجنبی مقام پر استنجا وغیرہ میں مجھے بہت تکلف محسوس ہوتا ہے ، اس لیے شعوری طور پر میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ سفر میں کھانے پینے کا سلسلہ برائے نام رہے ۔ یہاں بھی کوشش کی گئی ، ولایتی ناشتہ آیا جو ہم ہندوستانیوں کے لیے اجنبی بطور خاص بہاری کلچر سے ہم آہنگ نہیں تھا تاہم گزشتہ کئی برسوں سے شہری ماحول میں رہنے کی وجہ سے ناچیز کے لیے اجنبیت بھی نہیں رہ گئی تھی ۔ خیر حسب ِ ضرورت نوش کیا گیا ۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہندوستان اور دیگر خلیجی ممالک کے اوقات میں بڑا فرق ہے اس لیے پہلے پہل حاجی حضرات کو صحیح اندازہ نہیں ہو پاتا اور بسا اوقات نماز خطرے میں پڑ جاتی ہے اس لیے حج کے مقدس سفر سے پہلے ان چیزوں کی جانکاری بھی ضروری ہے ۔
جہاز کے اندر بھی کئی ایسی چیزیں پیش آئیں جو دل چسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی ۔ جہاز چوں کہ ایک انتہائی حساس سواری کا نام ہے اس لیے اس میں کئی ایسے اصول کی پابندی لازمی ہوتی ہے جن کی رعایت زمینی سوریوں میں نہیں کرنی پڑتی ۔ بار بار ہوائی کارندے بیت الخلا کے استعمال سے منع کرتے ہیں اس لیے کہ یہاں پانی کی بھی قلت ہوتی ہے اور دیگر نزاکتیں بھی ۔ بار بار کے انتباہ کے باوجود رفع حاجت کے لیے اول سے آخر تک تانتا بندھا رہا ۔ کچھ چچا حضرات تو فشار ِ خون کی شدت بھی اپنے ساتھ لے کر چل رہے تھے اور گاہے بگاہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر برس برس پڑتے اور بے چارے جوان اپنی جوانی بھول جاتے ۔ جہاز اب شارجہ ائیر پورٹ پر لینڈ ہونے کے لیے پر تول رہا تھا ، اب لینڈ ہو گیا ، جہاز کے پُر سکون ہوتے ہی لوگ کلبلانے لگے لیکن سختی سے لوگوں کو جہاز سے باہرجانے سے منع کردیا گیا ۔ یہاں جہاز کی ٹیم کا تبادلہ ہوا ، صاف صفائی ہوئی ، ایندھن بھرا گیا اور اشیائے خورد و نوش لادی گئیں ۔ میری قوت ِ برداشت اب جواب دے رہی تھی اس لیے کہ بہت صبح ہی گیا ائیر پورٹ پر میں واش روم (بیت الخلا ) گیا تھا ۔
جہاز نے شارجہ سے اب مدینہ منورہ کے لیے اڑان بھرا ، یہ سفر تقریباً ڈھائی گھنٹے کا تھا ، پرواز کے تھوڑی دیر بعد ہی کھانا پروسا گیا ، کھانا مشرقی مزاج سے قدرے ہم آہنگ تھا لیکن میرا سر اس قدر چکرا رہا تھا کہ نہ میں نماز پڑھنے کے قابل تھا اور نہ کھانا دیکھنے تک کو دل کر رہا تھا ، بول و براز کی شدت جو تھی وہ الگ تھی ۔ ڈیڑھ سو حاجیوں کا یہ قافلہ تھا ، بیت الخلا میں یہ لمبا ہجوم کہ اللہ پناہ ! اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ لوگ جوں ہی خورد و نوش میں مشغول ہوئے میں بیت الخلا کی طرف بڑھا اور بہت زیادہ تگ و دو کیے بغیر مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا لیکن کچھ ہی دیر بعد باہر سے دروازہ پر پٹاپٹ شروع ہوگئی ۔ خیر کسی طرح فارغ ہو کر اپنی نشست پر واپس آگیا ۔ ایک طرف سے طبیعت ذرا ہلکی تو ہوئی لیکن دماغ مزید بوجھل ہو رہا تھا اور متلی بھی آرہی تھی ۔ برداشت کرتا رہا ، جہاز آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور منزل قریب سے قریب تر ہو رہی تھی ، لو اب شہر رسول مدینہ منورہ کا ائیر پورٹ بھی آگیا ، طبیعت اب بھی نڈھال تھی ، ایسا لگ رہا تھا کہ اب قئی ہوئی تب قئی ہوئی ۔ برداشت کئے ہوئے آگے بڑھ رہاتھا اور مجرموں کی طرح لرزیدہ قدموں کے ساتھ چل رہا تھا ، جوں ہی ائیر پورٹ بلڈنگ میں قدم رکھا کہ وہیں الٹی شروع ہو گئی اور چار پانچ دفعہ ہوئی اور ایسی ہوئی کہ طبیعت ذرا ہلکی تو ہوئی لیکن مجھ پر نیم بے ہوشی طاری تھی ۔ سکیوریٹی والے نے مجھے سنبھالا، آناً فاناً ائیر پورٹ کی ساری کاروائی مکمل کرائی اور جلدی سے مجھے ائیر پورٹ ہوسپٹل لے گئے ۔ ڈاکٹروں نے دیکھا ، کچھ عربی اور کچھ انگلش میں ان سے باتیں ہوئیں ، انھیں ڈائریا کا شبہ ہوا لیکن مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ایک انجکشن مجھے دی گئی اور چند گولیاں لیکن ٹیبلیٹ لینے کی نوبت نہیں آئی ۔