Home تجزیہ شاہین باغ نے حکومت کی نیند اڑادی

شاہین باغ نے حکومت کی نیند اڑادی

by قندیل

فداءالمصطفیٰ قادری مصباحی

شاہین باغ میں ایک مہینے سے چل رہا احتجاج آج کل میڈیا اور سوشل دونوں میں خوب سرخیاں بٹور رہاہے۔ اس کے سرخیوں میں آنے کی کئی وجہیں ہیں۔
(۱)سی اے بی اور این آر سی کے خلاف ہونے والے احتجاجوں میں یہ سب سے لمبا اور دیرپا احتجاج ثابت ہوا ہے۔
(۲)اس قدر دیر پا احتجاج ہونے کے باوجود ابھی تک وہاں کسی طرح کا غیر قانونی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ ساری خواتین پرامن انداز میں اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے سراپا احتجاج بنی بیٹھی ہیں۔
(۳)تیسری اور بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں احتجاج پر بیٹھنی والی %95 خواتین ہیں اس اعتبار سے یہ مسلمانوں کا سب سے پہلا احتجاج ہے جسے خواتین بغیر کسی قائد کے ایک لمبے وقت سے انجام دے رہی ہیں۔
اپنی ان خصوصیات کی وجہ سے یہ احتجاج نیشنل اور انٹر نیشنل دونوں چینلوں پر خوب چرچے میں ہے۔
شاہین باغ پر حکومت کی نظر
یہ احتجاج اپنے آپ میں انوکھا ہونے کی وجہ سے چرچے میں ہے اور اس کا چرچہ میں ہونے حکومت کی آنکھوں کا کانٹا بن گیاہے اور اس کانٹے کو نکالنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے، ہرچھوٹا بڑا اور اچھا برا راستہ اپنایا جارہاہے۔ چند روز قبل اس احتجاج کو ختم کروانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں پیٹیشن داخل کیاگیا تھا مگر کورٹ نے اسے خارج کردیا پھر اس کے خلاف ریلی نکالی گئی مگر وہ بھی ناکام رہی، پھر 12 جنوری کو ہائی کورٹ میں شاہین باغ میں ہورہے احتجاج کے خلاف ایک شکایت کی گئی جس میں کہاگیا تھا کہ یہ احتجاج دہلی نوائیڈا سڑک پر ہونے کی وجہ سے *لوگوں کو گھنٹوں جام میں پھنسنا پڑتاہے، لوگوں کے کام صحیح طور پر نہیں ہوپارہے ہیں،بچوں کا وقت پر اسکول جاپانا بھی مشکل ہوگیا ہے، امبولینس گھنٹوں مریضوں کو لےکر جام میں پھنسا رہتا ہے۔
کل اس معاملے پر دہلی ہائی کورٹ میں سنوائی ہوئی اور سنوائی کے بعد ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کو یہ حکم دیا کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر جام میں پھنسنے والوں کے لیے کوئی راہ نکالے۔ یادرہے کہ روڈ خالی کرنے یا کروانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیاہے بلکہ قانون کے دائرے میں رہ کر کوئی راہ نکالنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ لہذا تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مثلا دونوں سڑکوں میں سے کسی ایک کو خالی کرکے احتجاج جاری رکھا جاسکتا ہے اور اگر پولیس دونوں سڑکوں کو خالی کرنے کی ضد پر اڑی رہتی ہے تو ساری خواتیں یہ مانگ رکھیں کہ ہم اپنے جس مطالبے کو لےکر یہاں بیٹھے ہیں اسے پورا کیا جائے، ہم آج ہی خالی کردیں گے یا پھر وزیراعظم آکر ہماری بات سنیں اور ہمارے لیے کوئی راہ نکالیں پھر ہم خالی کرسکتے ہیں۔
بعض ذرائع سے یہ خبر مل رہی ہے کہ بی جے پی کی طرف سے اس احتجاج کو ختم کرنے کا ذمہ دہلی کی غنڈہ پولیس کو دیا گیاہے تاکہ وہ خواتین کو ڈرا دھمکا کر وہاں سے ہٹاسکے۔ لہذا ان حالات میں مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمہ وقت وہاں دیوار بن کر کھڑے رہیں، کسی پولیس والے کو کیمپ میں داخل نہ ہونے دیں۔ خواتین بھی وہاں پوری تیاری کے ساتھ رہیں، کچھ بعید نہیں کہ یہ سنگھی غنڈے جو پولیس کی وردی میں گھوم رہے ہیں کسی طرح بدتمیزی کربیٹھیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو پہلے ان کی بدتمیزی یا مارپیٹ کا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کریں تاکہ بوقت ضرورت اس کا سہارا لیا جاسکے۔
ہرشہر میں شاہین باغ
شاہین باغ کے احتجاج سے آپ سبھوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس طرح کے احتجاجات کتنے مؤثر ہوتے ہیں جو کام بڑی بڑی ریلیاں نہ کرپائیں وہ خواتین کی چھوٹی سی جماعت کررہی ہے یعنی ابھی تک کسی احتجاج کو روکنے کے لیے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل نہیں کیا گیا ،مگر خواتین کے اس پرامن احتجاج سے حکومت اتنی بوکھلائی ہوئی ہے کہ باربار کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹارہی ہے۔ ہم لوگوں کو اسی ماڈل کا احتجاج ہرشہر میں کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں ہرشہر میں شاہین باغ بنانا پڑےگا، ہرجگہ اسی طرح پرامن انداز میں لمبے وقت تک کے لیے بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔ میں نے چند روز قبل اپنی ایک تحریر میں اس جانب توجہ دلانے کی کوشش تھی اور اب پھر سے گزارش کررہاہوں کہ آپ لوگ اپنے اپنے شہروں کی مشہور جگہوں پر اپنا اپنا احتجاجی کیمپ لگائیں، جتنی زیادہ تعداد میں کیمپس لگیں گے ہمارا احتجاج اتنا زود اثر ثابت ہوگا۔
طریقۂ کار
مرد وخواتین دونوں کے کیمپس لگائے جائیں، زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو جمع کرنے کے لیے گھرگھر جاکر دعوت دینے کا اہتمام کیاجائے، مسجدوں سے اعلانات ہوں۔ اگر کسی وجہ سے مرد وخواتین کے لیے الگ الگ کیمپ لگ پانا مشکل ہو تو ایک ہی کیمپ میں دن میں خواتین اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد بیٹھ جائیں اور رات کو مرد حضرات فارغ ہوکر بیٹھاکریں۔ اس طرح ہردوفریق اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دےکر اطمینان قلبی کے ساتھ احتجاج میں بیٹھ سکتے ہیں اور ایسی صورت میں بآسانی لمبے وقت تک احتجاج چلایا جاسکتاہے۔
اتوار کا دن
آفس میں نوکری کرنے والے حضرات ہراتوار کو اپنے اپنے علاقے کے کیمپ میں جاکر زیادہ سے زیادہ وقت دیاکریں تاکہ مخالفین کو تعداد کی کمی کی وجہ سے کچھ غلط کرنے کی جرات نہ ہو۔ جب تک ہمارا مطالبہ پورا نہیں ہوجاتا تب تک کم از کم اپنی اتوار کی چھٹی ان کیمپوں میں جاکر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ضرور گزاریں۔

You may also like

Leave a Comment