ڈاکٹرخالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 110025
یہ وہ صنفِ نازک ہے، جس کے بہت ناز و نخرے اٹھائے گئے ہیں
زمانے سے اس کی نزاکت، لطافت کی کتنی عجب داستانیں کہی جارہی ہیں
بھلا کوئی دیوان ایسا کہاں ہے کہ اس کے سراپا کی تمثیل و تشبیہ جس میں نہیں ہو
یہ سب نقش و تصویر، سب رقص و آواز اسی پیکرِ نازک اندام کے ترجماں ہیں
مگر اب وہ لیلیٰ ، وہ شیریں، وہ سلمیٰ، وہ عذریٰ نہیں ہے
وہ شاہین باغی ہے، شاہین باغی
کہ جس کی صدائے بغاوت نے ایوانِ فسطائیت میں قیامت کا لرزہ بپا کردیا ہے
وہ رضیہ ہے، جھانسی کی رانی ہے، شمشیر و خنجر ہی زیور ہے جس کا
وہ درگا کی اوتار ہے، سر کچلتی ہے جو تانا شاہی کے اس راکچھس کا
یہ وہ شیرنی ہے کہ جس کی دہاڑوں سے فسطائیوں کا کلیجہ دہلنے لگا ہے
سنو ہٹلرو، تانا شاہو!
کہ نرگس بھی آئینہ خانے سبھی توڑ کر، حُرّیت کا علم تھامے میدان میں آچکی ہے
کہ اب اس نے طے کرلیا ہے
جنازہ نکالے گی وہ آمریت کا اک دن
منوواد کودفن کرکے ہی دم لے گی اب وہ
سو اے ماہرینِ لغت! آپ سے معذرت، میں اسے آج سے صنفِ نازک نہیں، صنفِ آہن کہوں گا.