الحاج ڈاکٹر عبدالرؤف
ڈائرکٹر دانشگاہ اسلامیہ ہائی اسکول
ہاٹن روڈ، آسنسول
ہندوستان کے مایہ ناز سپوت مجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیرتعلیم حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ نے فرمایا تھا کہ
”عورت اگر کسی بات کا عزم کرلے تو اس کے عزائم کو ہمالیہ جیسی چٹان، اٹھتا ہوا طوفان اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی پامال نہیں کر سکتا۔“
دنیا ئے انسانیت کی تاریخ میں ایسی متعدد خواتین ہستیاں گذر چکی ہیں۔ جو اپنے عزائم کی تکمیل میں تاریخ ساز کا ر نامہ انجام دیا ہے۔ ہمارے ملک میں مہارانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، بی اماں، بیگم رقیہ وغیر ہم جیسی خواتین نے قومی عزائم لئے انگریزوں سے معر کہ لیا، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اب ایسا ہی منظر شاہین باغ دہلی میں درپیش ہے۔
گذشتہ 16 / دسمبر 2019 ء سے شاہین باغ کی خواتین این آر سی (NRC) سی، اے، اے (CAA) اور این پی آر (NPR) کے خلاف اس کپکپاتی سردی کے زمانے میں دھرنے پر بیٹھی ہیں اور اس تحریر کے قلمبند ہونے تک تقریباً ایک ماہ سے زائدکا عرصہ گذرگیا لیکن ان خواتین کے عزائم میں کسی طرح کی کمی نہیں ٗ حوصلے بلندہیں اور اس ملک کے دستور اساس کو بچانے کیلئے وہ پرامن احتجاج کر رہی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف دن کے ایام میں یہ خواتین دھرنے پر ہیں بلکہ دہلی کی سرد راتوں میں بھی وہ اپنی زندگی کو ہتھیلی پر لے کر تکلیف اُٹھارہی ہیں اس میں پندرہ دن سے لے کر چھ ماہ کی شیر خوار بچوں کے ساتھ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی موجود ہیں۔ گھریلو خواتین، دفتروں میں سروس ٗ اعلیٰ عہدیداران ٗ کالج ویونیورسیٹیوں کی طالبہ بھی شامل ہیں۔ یہ دھرنامحض ضمیر کی آواز نے انہیں مجبور کیا ہے۔ ان کا کوئی قائد نہیں کوئی لیڈرشپ نہیں۔
مزید برآں اس دھرنے میں قومی یکجہتی کا یہ زبر دست نظارہ بھی چشم فلک نے دیکھا ہے۔ جسے شوشل میڈیا نے وائرل کیاہے۔ 12 / جنوری 2020 ء شاہین باغ اسکوائر کے خواتین کی اس دھرنے میں صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کی خواتین بھی شریک ہیں۔ جس میں عبادات و ریاضت کا عجیب منظر دکھا یا گیا ہے۔ اس کھلے میدان میں لاکھوں مرد و خواتین موجود ہیں اللہ کے دربار میں سر بہ سجود ہیں جبکہ ہندوہون کر رہے ہیں۔ سکھ گرنتھ صاحب کے پاٹھ پڑھ رہے ہیں اور کرسچن اپنی عبادات میں مصروف ہیں۔یہ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی پہچان یکجا ہیں۔ ملک کے جس دستور نے پوری قوم کو ایک ہی لڑی میں پر ودیا تھا۔ آج اس کا سماں ہے۔
ذرا تاریخ کے صفحے کو پلٹ کر دیکھیں اس کی پہچان یہاں موجود ہیں۔ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک کچھ سے لے کر کامروپ تک پھیلاہوا ہمارا ملک ایک ارب پچیس کروڑ انسانی آبادی پرمشتمل ہے جس میں سینکڑوں ہزاروں نظریات رہن سہن کے ہزاروں طریقے زندگی گذارنے کے ہزاروں فلسفے، عبادات و ریاضات کے مختلف طریقے کوئی مندر ٗ مسجد ٗ گرودوارہ ٗ چرچ جاتا ہے کوئی پانچ گز کی دھوتی تو کوئی پانچ گز کی پگڑی باندھتا ہے۔ کسی کو خشکی پسند تو کسی کو تری پسند ہے کوئی چاول کا رسیاکوئی روٹی کا دلدادہ غرضیکہ مختلف رنگارنگ تہذیب وتمدن کے اس گہوارہ کو دستور کی ایک ہی لڑی میں پرودیا گیا تھا۔
آج اسی دستور کی حفاظت کے لئے ہماری مائیں ٗ بہنیں بیٹیاں میدان میں ہیں حیرت ہے جب ساری دنیا یکم جنوری 2020 ء کی رات 12 بجے نئے سال آنے کا جشن منارہی تھی۔ قوم کی بیٹیاں اپنے معبود حقیقی کے سامنے ملک کی سلامتی ٗ آئین کی حفاظت کی پراتھنا ئیں کر رہی تھیں۔ دعائیں مانگ رہی تھیں۔
اس کالے قانون کے خلاف خواتین کی اس جراتمندانہ اقدام پورے جنوبی ہندو شمالی ہند میں پھیل گئے ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لیکر کولکاتا تک پوری ریاستوں میں بلا تفریق مذہب وملت خواتین سڑکوں پر آگئی ہیں۔
جنوبی ہند میں تامل ناڈو، مہاراسٹر ٗ کرنا ٹک ٗ آندھراپردیش ٗ تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بلا تفریق مذہب وملت خواتین صدائے احتجاج بلند کررہی ہیں دھرنے دے رہی ہیں۔
آج پورے ملک میں اس کالے قانون کے خلاف خواتین اُٹھ کھڑی ہیں جو ملک کی نصف آبادی کہلاتی ہیں۔ انہوں نے کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لیا ہے خواتین قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے۔ انہیں کی آغوش میں نسلیں بنتی ہیں بڑھتی ہیں۔ اسے صنف نازک بھی کہا جاتا ہے دنیا کا کوئی بھی دھرم اس صنف پر ظلم وبربریت روا نہیں رکھتا۔ غور و فکر کی بات اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی کی راتوں میں ان صنف نازک کو کس نے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ ملک سے محبت ٗاس کے
دستور سے محبت اس ملک کی مٹی سے محبت جہاں صدیوں صدیوں سے انسان امن وبھائی چارگی سے رہتے آئے ہیں۔ ان کے دلوں نے اسی بات پر مجبور کیا کہ اس کا لے قانون نے ہمارے دلوں کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذانفرت کی اس دیوار کو ڈھانے کے لئے وہ سب کچھ قربان کرکے دھرنے پر بیٹھی ہیں …………!پوری قوم خواتین کے عزائم کو سلام پیش کرتی ہے۔
اس کالے قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ کے طلباء و طالبات نے پر امن احتجاج کیا تھالیکن حکومت کی مشنری نے اسے پرتشدد بنادیا جس کی آواز پورے ملک میں سنی گئی اور ملک کی سبھی یونیورسیٹیوں کے طلبہ جامعہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
اس احتجاج میں کتنی ہی زندگیاں قربان ہوگئیں کتنی ہی خواتین کا سہاگ اُجڑ گیا۔ کتنی ہی ماؤں کا سہارا اولاد چھین لیا جو اس حکومت کی تاریخ کا سیاہ باب کہلائے گا پہلے حکومت کا جواز تھا کہ پر تشدر احتجاج کے جواب میں حکومت کو تشدد اختیار کرنا پڑا۔
لیکن ہماری معصوم خواتین تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ سے عدم تشددکی راہ اپنا کر پر امن احتجاج کر رہی ہیں لیکن وائے افسوس کہ اب تک وزیر داخلہ کے بیان میں نرمی نہیں آئی وہ اب بھی اعلان کر رہے ہیں کہ ہم اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
کسی بھی جمہوری ملک کے لئے یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ 33 فیصد ووٹوں سے جولوگ اقتدار پر آئے ہیں انہیں 67 فیصد آبادی کی آواز کو دبا یا نہیں جاسکتا ہے۔ کم سے کم انسانیت کے ناطے …………! ماناکہ آپ ایک آئیڈیولوجی کے تحت حکومت کے تخت وایوان پر براجمان ہیں لیکن انسانی ہمدردی ٗ خواتین ٗ شیر خوار بچے یہ سبھی تو ہمارے ہی ملک کی دھرتی میں جنم لئے ہوئے ہیں۔
اگر اللہ نے آپ کو چھ انچ کے گوشت پوست کا ٹکڑا دل دیا ہے۔ اس میں سوز و گداز، نر میت، رحمدلی کا جذبہ بھی پیدا کیجئے صرف آئیڈیولوجی سے حکومتیں نہیں چلتی ہیں تاریخ شاہد ہے۔
انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ ایک الگ شئے ہے اگر شاہین باغ کی خواتین سے وزیر اعظم خود جاکر انہیں چند کلمات سے نوازدیں کہ حکومت ان کی باتوں پر بالضرورغور کرے گی تو عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی دور ہوگی ملک میں امن وسکون قائم ہوگااور زندگی اپنی سابقہ ڈگرپر رواں دواں ہوجائے گی۔