نثری اور شعری دونوں اصناف کی تحقیق و تنقید سے شہاب ظفر اعظمی کا گہرا رشتہ ہے مگر ان کا اصل میدان فکشن تنقید ہے جہان فکشن؟ مطالعات فکشن؟ اردو ناول کے اسالیب؟ متن و معنی اور فرات مطالعہ و محاسبہ فکشن تنقید کے عمدہ نمونے ہیں۔ وہ فکشن کی مبادیات شعریات اور متعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ جہان فکشن سے سرسری نہیں گزرتے بلکہ اس جہان کے جملہ جہات زاویے اور امکانات کی جستجو میں اپنی پوری تنقیدی و تحقیقی توانائی صرف کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی فکشن تنقید میں تحرک اور توانائی کی کیفیت ہوتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کا تنقیدی ذہن تعصبات اور تحفظات سے پاک ہے۔ ناقدین کے اس زمرے سے ان کا قطعی کوئی تعلق نہیں ہے، جن کی نگاہ چند مخصوص ناموں سے آگے بڑھتی ہی نہیں اور ان ناموں کا تعین بھی مراتب و مناصب اور مفادات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
شہاب ظفر نہ کسی ازم کے اسیر ہیں اور نہ ہی ان کا ذہن کسی نظریاتی منشور میں محصور ہے۔ ان کا براہ راست رشتہ تخلیقی متون سے رہتا ہے۔ اس کی تہ میں اتر کر نتائج کا استنباط و استخراج کرتے ہیں۔ متن کی اساس پر ہی خوب و زشت کا تعین کرتے ہیں اور متن کے محاسن و اوصاف کو نشان زد کرتے ہیں ۔
وہ اول دوم سوم، جدید وقدیم جیسی طبقاتی درجہ بندی کے بھی قائل نہیں ہیں اس لیے جہاں انیس رفیع جیسے سینئر افسانہ نگار پر لکھتے ہیں وہیں نئی نسل کے تخلیق کار اویناش امن کو بھی مطالعہ کا حصہ بناتے ہیں جبکہ آج کے عہد میں ’مطالعاتی تفریق‘ کی روش عام ہوتی جارہی ہے۔ تجاہل عارفانہ بھی عمومی شیوہ بنتا جا رہا ہے پتہ نہیں لکھنے کی ساعت میں بہت سے ناقدین پر مجہولیت کیوں طاری ہو جاتی ہے کہ بہت سے جینوئن نام بھی ذہن سے محو ہو جاتے ہیں اسی لئے اردو میں Dilberately ignored تخلیق کاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اسی کے ساتھ ان کے شکوے اور شکایتیں بھی شہاب ظفر نے اپنی فکشن تنقید میں ان شکایات کے ازالہ کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
’فسانہ ہمت اور دیگر مضامین‘ فکشن پر لکھے گئے ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ انہیں دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے موضوعاتی اور شخصیاتی –موضوعاتی مطالعات کے ذیل میں بہار میں اردو ناول، اکیسویں صدی میں اردو افسانہ، معاصر خواتین افسانہ نگاروں کے احتجاجی اور باغیانہ رویے اور اردو فکشن پہ بہار کے اثرات، جبکہ شخصیات کے زمرے میں امداد امام اثر کا ناول فسانہ ہمت، پریم چند کی ناول نگاری ، اماوس میں خواب، عبد الصمد کا کشکول ، غضنفر کی ناول نگاری، پریم چند کی افسانہ نگاری، شکیل الرحمن اور اردو فکشن ، بیگ احساس کے افسانے، انیس رفیع: اجتماعیت کا فن کار، پرویز شہر یار، مشتاق احمد وانی اور اویناش امن رکھے جا سکتے ہیں۔ ان دونوں زمروں کے تنقیدی مطالعات سے شہاب ظفر کے تنقیدی تفاعلات و تحرکات سے آگہی کے علاوہ یہ بھی پتہ چلتا ہے وہ ثقیل اور بوجھل تنقیدی لفظیات، اصطلاحات اور کلیشے زدہ فقروں سے اجتناب کرتے ہیں۔ تر سیلی زبان پر ان کا زیادہ زور ہوتا ہے۔ تخلیقی تناظرات کی تفہیم کے لیے جن تنقیدی لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے ان کے اندر موجود ہے۔ وہ ان علوم سے بھی آگاہ ہیں، جن سے بہت سے ناولوں کی تشکیل ہوئی ہے۔ تاریخ، فلسفہ، عمرانیات، اقتصادیات، نفسیات، سیاسیات، بشریات، مذہبیات سے بھی واقفیت ہے۔ اس طرح بین علومی آگہی سے ان کا ذہنی رشتہ ہے ۔ وہ تخلیق سے اس طرح تنقیدی معانقہ کرتے ہیں کہ تخلیق کا سارا رمز و نور ان کے سینے میں تحلیل ہو جاتا ہے کسی بھی تخلیق سے ان کا حریفانہ یا معاندانہ نہیں بلکہ ہمدردانہ اور کہیں کہیں تو عاشقانہ رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ اس تمکنت اور متانت کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں تنقید جس کا تقاضا کرتی ہے۔ ان کے یہاں افسانوں کی تفہیم و تعبیر کا منہج بھی الگ ہے۔ متن کو تقدم حاصل ہے۔ اس لیے ان کی تنقید تخلیقی متون سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ ان کا تنقیدی vision معتدل اور متوازن ہے۔ ان کا مطالعہ یک رخا نہیں ہوتا بلکہ ہمہ جہتی ہوتا ہے۔ ان کا تناظر وسیع ہے اور تلاش و جستجو کا دائرہ بھی محدود نہیں ہے ان کی تنقید مخصوص حلقہ جاتی محور پر گھومتی نظر نہیں آتی۔ وہ غیر معروضی مطالعاتی روش سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کے تفہیمی عمل کی بنیاد تخلیق سے مکمل معاملت اور مواصلت پر ہے اس لیے ان کی زیادہ تر تنقید تضادات اور تناقضات سے پاک صاف ہے۔
موضوعاتی مطالعات کے ذیل میں ان کا مضمون ’بہار میں اردو ناول‘ ایک اہم اور وقیع مضمون ہے جس سے بہار میں اردو ناول نگاری کی روایت، رویے اور رجحانات سے آگہی کی ایک صورت نکلتی ہے۔ انہوں نے موضوعات، رجحانات اور اسالیب کے اعتبار سے بہار میں آزادی سے ماقبل اور مابعد لکھے گئے ناولوں کا جائزہ لیا ہے اور وقت کے ساتھ بدلتی ترجیحات اور سماجی سیاسی اقتصادی اور تہذیبی تغیرات کو بھی مد نظر رکھا ہے۔ آزادی کے بعد ناولوں میں جو نئے موضوعات شامل ہوئے ان کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔ فرقہ واریت، اقلیت، تانیثیت اور دلت ڈسکورس پر مبنی ناولوں کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں ناموں اور ناولوں کی ایک لمبی فہرست ہے کس کا ذکر کیا جائے اور کسے چھوڑا جائے اس مضمون میں اہل بہار کے لیے یہ مژدہ جانفزا ہے کہ :
’’اردو ناول لکھنے والوں کی جو تعداد ہندوستان میں موجود ہے اس کا بڑا حصہ بہار سے تعلق رکھتا ہے اور بہار اسالیب موضوعات اور ہیئت کی سطح پر نئی تجربے کر رہا ہے
فکشن کے باب میں بہار کی جو حصولیابیاں ہیں، یقینا قابل رشک ہیں اور اس کا ثبوت بھی کہ برہم ودیا کا یہ گہوارہ تخلیقی اعتبار سے نہایت زرخیز ہے۔ معاشی اعتبار سے یہ علاقہ مفلس ہے مگر ذہنی اور فکری اعتبار سے مرفہ الحال اور متمول ہے۔
ہندوستان میں اردو افسانہ کے مجموعی تناظر کے حوالے سے ’اکیسویں صدی میں ہندوستان کا اردو افسانہ‘ ایک جامع مضمون ہے جس میں نئے عہد کے مسائل پر لکھے گئے افسانوں کے بارے میں قیمتی اطلاعات و اشارات ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ، پانی کی قلت مذہبی شدت پسندی ، دہشت گردی، فرقہ واریت، تانیثیت، جنسیت، مشترکہ تہذیب، حب الوطنی، دلت مسائل پر جو افسانے لکھے گئے ہیں ان کا موضوعاتی اور تکنیکی تجزیہ کیا ہے اور اظہار و اسلوب کے نئے تجربات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
شہاب ظفر اعظمی نے اکیسویں صدی کو اس دلیل کے ساتھ ’فکشن کی صدی‘ قرار دیا ہے کہ اس عرصہ میں کثرت سے افسانوی مجموعے کی اشاعت ہوئی۔ اگر کثرت اشاعت کو دلیل مان لیا جائے تو پھر ہر صدی شاعری کی صدی ہی کہلائے گی اور یوں بھی جتنے افسانوی مجموعے چھپتے ہوں گے، اس سے کئی گنا زیادہ تو شادی کے کارڈ چھپتے ہیں۔ سوال اشاعت کا نہیں قرات کا ہے۔ یہی طے کرے گی کہ صدی کس کی ہے۔ فکشن کی قرأت کا کلچر زوال پذیر ہے۔ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے اس کے بر عکس شاعری کو صرف پڑھنے کا نہیں سننے کا کلچرہنوز زندہ ہے
’معاصر خواتین افسانہ نگاروں کے احتجاجی اور باغیانہ رویے‘ میں شہاب ظفر اعظمی نے تانیثیت کی تفہیم و تشخص اور اس کے ابتدائی نقوش پر گفتگو کرتے ہوئے ’انگارے‘ کو نقطہ انقلاب قرار دیا ہے اور اردو میں رشید جہاں کو تانیثیت کا محرک اول کہاہے ’انگارے‘ کے بعد خواتین کی نفسی ذہنی اور جذباتی کیفیات میں جو تبدیلیاں آئیں، ان کا خواتین کی افسانوی تخلیقات کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔ تانیثی ایجنڈے اور منشور کے تحت لکھے گئے افسانوں میں عورتوں کے مزاحمتی رویے اور باغیانہ تیور پر بات کی ہے اور ذکر اساس معاشرہ کے خلاف خواتین کے ردعمل کو بیان کیا ہے۔ حقوق نسواں، آزادی نسواں، استحصال نسواں پر جو افسانے تحریر کئے گئے ہیں ان کا تنقیدی تجزیہ کیا ہے حتی کہ سیکس کے موضوع پر خواتین جو افسانے لکھ رہی ہیں ان کی طرف بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ آخر میں یہ ان کا سوال اور شکایت بھی ہے کہ ممتاز شیریں کے بعد خواتین میں کوئی نقاد کیوں نہیں۔ میرے خیال میں اب یہ شکایت بے جا ہے کیونکہ بر صغیر میں خواتین تنقید نگاروں کی خاصی تعداد ہے جنہوں نے فکشن تنقید کو اپنا محور و مرکز بنایا ہوا ہے یہ اور بات کہ ممتاز شیریں کے قد کاٹھ کی خاتون ناقد نہیں مگر اب تنقید کا بھی منظر نامہ بدل رہا ہے اور تنقید پر مردوں کی اجارہ داری ختم ہو تی جارہی ہے۔
’اردو فکشن پر بہار کے علاقائی اور تہذیبی اثرات ‘ بہار کی معاشرت ، ثقافت اور سیاست پر مرکوز ہے۔ اردو فکشن میں بہار کے موضوعات اور مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔ کچھ افسانوں اور ناولوں کا پس منظر اور پیش منظر سرزمین بہار ہے جن سے بہار کی سماجی سیاسی اور ثقافتی صورت حال پر روشنی پڑتی ہے ۔ بہت سے افسانوں میں بہار کے گاؤں، وہاں کی رسوم و روایات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جن افسانوں کا کینوس بہار ہے ان میں شکیلہ اختر، شین مظفر پوری کے افسانے بطور خاص قابل ذکر ہیں بہار کی بد عنوان سیاست پر عبد الصمد کے ناول مہا ماری اور دھمک ہیں تو وہاں کے دلت سماج پر صغیر رحمانی کا ناول تخم خون ہے فرقہ واریت پر بھی بہار کے تناظر میں فکشن لکھا گیا ہے مگر فرقہ واریت کسی خطہ یا علاقہ سے مشروط نہیں ہے۔ یہ عمومی نوعیت کا مسئلہ ہے اس لیے موضوعی اعتبار سے ایسے ناولوں کو بہار سے مختص کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ دیکھا جائے تو بہار کے پس منظر میں خاصا فکشن لکھا گیا ہے۔ شہاب ظفر نے ایسے ناولوں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ :
’’ہمارے اردو فکشن کا ایک بڑا حصہ فکری اور موضوعاتی سطح پر بہار کی زندگی اور معاشرے کے مختلف النوع گوشوں اور جہتوں کا بخوبی احاطہ کرتا ہے۔‘‘
انفرادی اور شخصی مطالعات کے ذیل میں امداد امام اثر، پریم چند، حسین الحق، عبدالصمد، غضنفر، اختر اورینوی، بیگ احساس، انیس رفیع، پرویز شہریار، مشتاق احمد وانی، اویناش امن کو رکھا جاسکتا ہے۔ ان مضامین میں شہاب ظفر نے ان فن کاروں کے فنی اور فکری خصائص و امتیازات کا سلیقہ سے احاطہ کیا ہے۔ یہاں بعض فکشن نگاروں کے تعلق سے ان کی رائے سے اختلاف کی گنجائشیں ہیں مگر مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو شہاب ظفر نے دیانت اور درایت سے کام لیا ہے اور سہل انگاری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ سطحی پوچ اور لچر گفتگو سے گریز کیا ہے۔ اس کا بھی خیال رکھا ہے کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو اور ممولے کو شہباز سے لڑانے کی کوشش نہیں کی ہے ۔
امداد امام اثر کے ناول فسانہ ہمت جیسی نایاب تصنیف کا عمدہ تعارف کراتے ہوئے اسے تاریخ، جغرافیہ اور معلومات عامہ کی کتاب قرار دیا ہے کیونکہ ناول کے فنی لوازمات پر یہ کتاب نہیں اترتی ۔ انہوں نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ :
’’ناول محض قصہ گوئی نہیں ہے اور نہ ہی علمی مضامین کی شمولیت ناول کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ ناول تجربات و مشاہدات اور حیات انسانی کے مسائل سے وجود میں آتا ہے۔ علوم و فنون اس کے لئے خام مواد کی صورت کام آسکتے ہیں۔ ناول نگاری کی بنیاد نہیں قرار دیے جا سکتے ۔‘‘
اور واقعی فسانہ ہمت میں افسانہ کم اور علوم جدیدہ زیادہ ہیں پھر بھی انہوں نے عمدہ منظر نگاری اور مکالمہ نگاری کی وجہ سے اسے فسانہ آزاد کی طرح بتایا ہے۔ اب قاری اور ناقد کو فیصلہ کرنا ہے کہ یہ داستان ہے یا ناول یا ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں۔
شہاب ظفر نے پریم چند کی ناول نگاری اور افسانہ نگاری پر الگ الگ عنوانات کے تحت لکھا ہے اور پریم چند کے آرٹ کا مبسوط تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے پریم چند کے فکشن میں مقصدیت، موضوعاتی تنوع، زبان و تکنیک پر گفتگو کی ہے اور یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ ان کے فکشن میں دیہی عوام کی زندگی اور ان کے سماجی و معاشی مسائل کو مرکزیت حاصل ہے اور ان کا اسلوب جمہوری اور عوامی ہے۔ پریم چند کا مقصد تفریح و تعیش نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پریم چند کے ابتدائی ناولوں میں وہ فنی پختگی نہیں ہے، جو ’میدان عمل‘ اور ’گئودان‘ میں ملتی ہے۔ افسانوں میں پریم چند نے سادہ بیانیہ تکنیک کے نئے تجربے کیے ہیں۔ اسلوبیاتی تناظر میں پریم چند کے افسانوں کا عمدہ تجزیہ ہے۔
اختر اورینوی کی شناخت ایک ناقد اور محقق کے طور پر ہے مگر انہوں نے نہ صرف ’حسرت تعمیر‘ جیسا منفرد ناول لکھا جو کہ ’’آدی باسیوں کی قبائلی تہذیب پر اپنی نوعیت کا منفرد ناول ہے بلکہ اردو دنیا کو کئی اہم افسانوی مجموعے بھی دیے۔ ان کے بیشتر افسانے بقول شہاب ظفر زندگی آمیز اور زندگی آموز ہیں۔‘‘ انہوں نے اختر کے افسانوں میں چار رنگ تلاش کیے ہیں رومانی، حقیقت پسندانہ، نفسیاتی اور رمزیاتی /علامتی اور ان چہار افسانوی رنگ پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ ان کے کچھ افسانوں میں دیہات کی عکاسی ملتی ہے جس کی بنیاد پر وقار عظیم جیسے ناقد نے انہیں دیہات کا افسانہ نگار کہا ہے مگر شہاب ظفر نے اس رائے سے تعرض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ان کے افسانوں میں دیہات کم اور شہر زیادہ نظر آتا ہے۔‘‘ اسلوب کے تعلق سے شہاب ظفر کا یہ خیال ہے کہ اختر اورینوی کا اسلوب خطیبانہ شاعرانہ، اور فلسفیانہ ہے ۔
حسین الحق کا شمار اردو کے ممتاز فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے ناول فرات پر شہاب ظفر نے پوری ایک کتاب مرتب کی ہے تو ان کے شاہکار اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ بڑے کینوس کے ناول ’اماوس میں خواب‘ کو کیسے فراموش کر جاتے سو انہوں نے اس ناول پر ایک بھر پور مضمون لکھ کر اس کے موضوعی اور اسلوبی امتیازات کو واضح کیا ہے۔ ہندوستان کی ہم عصر صورت حال پر خوبصورت بیانیہ میں لکھا گیا یہ ناول واقعی منفرد ہے۔ اس میں آشفتہ سری کی پوری داستان ہے، متحرک اور مظلوم کرداروں کے ساتھ مقامات آہ وفغاں بھی ہیں۔ یہ ناول صحیح معنوں میں معاصر ہندوستان کا استعارہ ہے۔
غضنفر اردو فکشن کا ایک تابندہ نام اور توانا آواز ہیں۔ ان کا انفراد و اختصاص یہ ہے کہ اردو کے عمومی مزاج سے الگ نوعیت کے موضوعات کا بھی انتخاب کیا ہے۔ بعض تو اَن چھوئے موضوعات بھی ہیں۔ اسالیب کے اعتبار سے نئے تجربے کیے ہیں۔ اردو ہندی کا اتنا خوبصورت امتزاج بہت کم فکشن نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔ شہاب ظفر نے ان کے ناولوں پانی، مم، کینچلی، وش منتھن، شوراب، دویہ بانی، مانجھی کی روشنی میں ان کے فکشن کا مبسوط جائزہ لیا ہے اور ان کے موضوعی اور اسلوبی تنوع کی بھر پور داد دی ہے
عبد الصمد ان فکشن نگاروں میں ہیں جو مسلسل نئے موضوعات کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور ان کی جستجو کو منزل بھی مل جاتی ہے۔ ’دوگز زمین‘ تقسیم ہند کے موضوع پر اہم ناول ہے جس پر انہیں ساہتیہ اکادمی کا موقر ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ دھمک کی گونج بھی دور دور تک سنائی دیتی رہی۔ ’کشکول‘ ان کا ایک نیا تجرباتی ناول ہے جس میں انہوں نے گداگروں کو موضوع بنایا ہے شہاب ظفر اعظمی نے اسی ناول کو بنیاد بناکر مضمون لکھا ہے اور اس ناول کی خوبیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ :
’’عبدالصمد کا یہ ناول کشکول ہنگامی دور کی روداد نہیں ہے بلکہ اس عہد کی زندگی، تہذیب، فکری انقلاب اور فلسفہ حیات سے مربوط ہوکر دائمی اقدار کا متحمل ہو گیا ہے لہذا یہ محض ایک ناول نہیں ہے، اپنے عہد کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ عبد الصمد نے اپنے عہد کی حقیقتوں کو ہی اپنے فکشن کا حصہ بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے ہر ناول میں کچھ سوالات پیش کیے ہیں جن کے جواب حال اور مستقبل دونوں کو تلاش کرنے ہیں۔ کشکول بھی سوالات کی ایک لڑی ہے جس کا جواب سسٹم اور سماج کو دینا ہے۔ ناول نگار کا کام صرف حقائق سے روبرو کرانا نہیں ہوتا بلکہ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال بھی پوچھنا اس کا بنیادی فریضہ ہے اور یہ فریضہ عبدالصمد نے اپنے دوسرے ناولوں میں بھی بخوبی انجام دیا ہے۔
بیگ احساس اور انیس رفیع دونوں اردو کے اہم افسانہ نگار ہیں مگر دونوں کے موضوعات اور تجربات کی دنیا الگ ہے۔ بیگ احساس سیدھی سمت میں سفر کرتے ہیں اور انیس رفیع مخالف سمتوں کے مسافر ہیں۔ بیگ احساس کے افسانوں میں حیدر آبادی تہذیب اور طرز معاشرت کی جھلکیاں ملتی ہیں تو انیس رفیع کے یہاں اجنبی اور نامانوس ثقافتی مظاہر و مناظر کی عکاسی ملتی ہے ۔ شہاب ظفر نے بیگ احساس کے مقبول افسانہ ’دخمہ‘ کو موضوعی اور تکنیکی اعتبار سے خوبصورت قرار دیا ہے مگر انہیں ’کھائی‘ زیادہ پسند ہے کہ یہ تین جنریشن اور ایک پورے عہد کا المیہ ہے۔ بیگ احساس کے بیانیہ کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ استعاراتی اور علامتی کے ساتھ کہیں کہیں واضح بیانیہ بھی ہے۔ انیس رفیع کو انہوں نے اجتماعیت کا فنکار کہا ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ انہوں نے فرد سے زیادہ اجتماعیت پر زور دیا ہے۔ وہ فردیت نہیں کلیت کے قائل ہیں۔ ان کے افسانوں کے عنوانات بہت پر کشش ہوتے ہیں، لکڑی کے پاؤں والا آدمی، سات گھڑے پانیوں والی عورت — یہ عنوانات بہت کچھ کہہ جاتے ہیں شہاب ظفر نے ان کے تشبیہی اور استعاراتی بیانیہ پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان کی اسلوبی انفرادیت کی داد دی ہے۔ ان کے افسانوں میں علاقائی انسلاکات کو بھی در یافت کیا ہے، یہی انسلاکات ان کا نقطہ امتیاز ہیں، ان کے قاری کو ایک نئے جہان کی سیاحت کا لطف ملتا ہے۔
شہاب ظفر اعظمی نے ستر اور اسی کی دہائی کے معروف اور معتبر فکشن نگاروں کو جہاں اپنی فکشن تنقید کا حصہ بنایا ہے وہیں مابعد نسل کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ پرویز شہر یار، مشتاق احمد وانی اور اویناش امن نسبتا نئے نام ہیں مگر ادبی حلقہ میں ان ناموں کو بھی اعتبار حاصل ہے ۔ پرویز شہر یار اردو افسانہ کا ایک اہم نام ہے ۔ وہ بھی افسانہ تنقید کے حوالوں میں شامل رہتے ہیں۔ ’شجر ممنوعہ کی چاہ میں‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے جسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ جنس نگار ہیں مگر شہاب ظفر اس تاثر کی تائید نہیں کرتے ۔ وہ ان کے افسانوں میں جنس سے ماورا موضوعات کی تلاش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کا زور جنسیت سے کہیں زیادہ قدروں کے تحفظ پر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جنس ان کا حاوی بیانیہ ہے مگر جنس میں ہی محصور نہیں ہیں۔ ان کا موضوعی دائرہ وسیع ہے جس میں بہت سے عصری سماجی اور سیاسی مسائل بھی شامل ہیں ۔ مشتاق احمد وانی بھی افسانے کے عصری منظر نامہ پر اپنا نام ثبت کرا چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کو بھی ناقدین نے سند ستائش عطا کی ہے۔ ان کے یہاں بھی موضوعات کی سطح پر رنگا رنگی ہے۔ آج کے موضوعات اور مسائل پر ان کے کئی عمدہ افسانے ہیں۔ شہاب ظفر نے ان کے افسانوی متون کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے کہ :
’’وہ قصہ کوئی کے فن سے واقف ہیں ۔ اویناش امن نے عصری موضوعات پر کئی اہم افسانے لکھے ہیں۔ شیر کا احساس اور عقرب کی گونج ادبی حلقوں میں سنائی دیتی رہی ہے۔ شہاب ظفر نے ان کے موضوعات اور بیانیہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی تخلیقی ہنر مندی کی داد دی ہے اور واضح لفظوں میں یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ موضوع کو برتنے کے ہنر سے واقف ہیں۔‘‘
شہاب ظفر فکشن تنقید سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے فکشن ناقدین بھی ان کے مطالعاتی دائرے میں شامل رہے ہیں۔ شکیل الرحمن بھی فکشن کے ایک بڑے ناقد ہیں۔ پریم چند اور منٹو پر ان کی تنقید اوروں سے بالکل الگ ہے۔ انہوں نے جمالیاتی زاویہ سے ان دونوں کے فن کو پرکھا ہے اور معاصرین سے الگ ایک انداز نظر اختیار کیا ہے۔ شہاب ظفر نے فکشن تنقید میں ان کے امتیازات پر روشنی ڈالی ہے اور ان کی تنقید کو سب سے منفرد قرار دیا ہے۔ ان کی جمالیاتی تنقید کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ :
’’شکیل الرحمن نہ صرف افسانے کی جمالیات سے آگاہ ہیں بلکہ افسانے کے تجزیے کے دوران تخلیقیت کا استعمال فنکارانہ مہارت سے کرتے ہیں۔‘‘اور حقیقت یہی ہے کہ شکیل الرحمن کا تنقیدی طور و طرز سب سے جداگانہ ہے۔ پریم چند کے باب میں بھی ان کا بالکل الگ موقف ہے۔ وہ ان کو بڑا ناول نگار نہیں بلکہ بڑا افسانہ نگار مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک پریم چند کے فکشن کا تیسرا آدمی اصل ہیرو ہے۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے نسوانی کرداروں کی تفہیم بھی بانداز دگر کی ہے اور ان کے فکشن میں بچوں کے کردار پر بھی خاص توجہ مرکوز کی ہے جبکہ اردو کے بیشتر ناقدین اس کردار کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ شکیل الرحمن نے منٹو کی تفہیم و تعبیر میں بھی منٹو ناقدین سے الگ طریق کار اختیار کیا ہے۔
فکشن مطالعات کے باب میں یہ تمام تحریریں شہاب ظفر اعظمی کی مطالعاتی وسعت اور گہری انتقادی بصیرت کی گواہی دے رہی ہیں ۔
پروفیسر شہاب ظفر اعظمی صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیوسٹی کے شاگرد ڈاکٹر محمد عارف حسین قابل تبریک و تحسین ہیں کہ نہایت سلیقہ سے نہ صرف ان کے مضامین کو جمع و ترتیب کے مرحلے سے گزارا ملکہ مرتب کی حیثیت سے اپنے قیمتی تاثرات بھی لکھے ۔ یہ محض تاثرات نہیں، تنقید کے ابتدائی نقش ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہر استاد کو ڈاکٹر محمد عارف حسین جیسے شاگرد رشید ملیں جو اپنے اساتذہ کی ادبی وراثت کا تحفظ اور ان کے ادبی افکار و اقدار کے تسلسل کو قائم رکھ سکیں۔