Home سفرنامہ حاضر ہوا میں شاہ بشارت کی لحد پر! ـ مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

حاضر ہوا میں شاہ بشارت کی لحد پر! ـ مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

by قندیل

(عارف باللہ حضرت شاہ بشارت کریم گڑھولوی، حضرت شاہ نوراللہ، قطب ہند حضرت منوروی کے نقوش پا کی جستجو )

امام ربانی شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے مرقد مبارک پر جب شاعر مشرق علامہ اقبال کی حاضری ہوئی تو واپسی پر بے ساختہ ان کے لسان حق ترجمان پر ایک شاندار نظم رواں ہوگئی ، جس کے ابتدائی بند ہیں :
حاضر ہوا میں شیخِ مجدّدؒ کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
ایسا ہی کچھ احساس اس وقت ہوا جب یہ عاجز علما وفضلا کے قافلہ کے ساتھ قطب ہند حضرت مولانا شاہ بشارت کریم گڑھولوی کے آستانہ پر حاضر ہوا۔
یہ عاجز اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی دعوت پہ سیتامڑھی ضلع میں واقع مشہور ادارہ مدرسہ دعوۃالحق مادھوپور میں، فقہ مقارن پر منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تھاـ
مورخہ 26 نومبر کو بعد مغرب ایک تعارفی وافتتاحی نشست اور ایک محاضرات کی نشست ہوئی، پہلی نششت کی صدارت فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی، جب کہ دوسری نششت کی صدارت دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ حدیث حضرت مولانا عتیق احمد بستوی نے کی.دوسرے دن کی نششتوں کی صدارت بالترتیب حضرت مولانا مفتی عبیداللہ اسعدی اور حضرت مولانا اظہار صاحب نے کی ـ اس عاجز کے دو مقالے تھےـ ایک علامہ جزیری کی شہرہ آفاق کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ کے تعارف ودراسۃ پر مشتمل تھاـ دوسرا مقالہ فقہ اسلامی کی جامعیت، اختلافات فقہا کی معنویت اور جدید مسائل کے حل کے لیے فقہ مقارن کی ضرورت کے عنوان پر تھا، اس عاجز نے ان دونوں مقالات کا خلاصہ دوسری نشست میں پیش کر دیاـ اسی کے ساتھ مشہور ومعروف عالم دین حضرت مولانا مفتی اختر امام عادل قاسمی کا مقالہ فقہ مذہبی اور فقہ مقارن کے تجزیہ کے عنوان سے تھاـ انہوں نے بھی اس عاجز کے بعد اپنے مقالہ کا خلاصہ پیش فرمایاـ دوسری نشست کے اختتام پر مفتی اختر امام عادل قاسمی نے فرمایا کہ اسی علاقے میں یہاں سے کچھ فاصلے پر بازید پور گڑھول ہے اسی سے ایک عالی مرتبت روحانی شخصیت حضرت مولانا شاہ بشارت کریم رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق تھا، یہی بستی ان کا مولد ومدفن ہےـ اگر گڑھول شریف کے علاقے کی زیارت نہ کی جائے، تو یہ سفر ناقص رہ جائے گا،چنانچہ حضرت مفتی صاحب کی ترغیب پر فرحت وانبساط کے ساتھ یہ عاجز اس پر آمادہ ہوا کہ اس علاقے کے بڑے بزرگ حضرت شاہ بشارت کریم گڑھولوی اور دیگر بزرگوں،مثلاً حضرت الحاج منظور علی کی خانقاہ اور ان کے مرقد پر حاضری دی جائے،چنانچہ علی الصباح آثارِ اکابر کی زیارت کے لیے ہم پا برکاب ہوئے، دیگر رفقا میں حضرت مفتی ابو بکر قاسمی استاذ مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھر وارہ، ومولانا عبد الرشید استاذ مدرسہ اشرفیہ راجو پٹی سیتا مڑھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ـ
حضرت شاہ بشارت کریم گڑھولوی رحمۃاللہ علیہ بڑے اللہ والے، سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ مظہریہ کے بلند پایہ پیر طریقت اور خدا رسیدہ بزرگ تھےـ آپ کی بزرگی اور عظمت کی گواہی بڑے بڑے مشائخ اور اکابر نے دی ہےـ علامہ مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ایک عظیم بشارت تھی جو اکرم الاکرمین کی جانب سے عارف ربانی امام حضرت مولانا حافظ و قاری محمد بشارت کریم نوراللہ مرقدہٗ کی شکل میں بہار کو عطا کی گئی ـ لوگوں نے سمجھا کہ صرف ایمان کی بشارت تھی دین کا مزدہ تھا؛ لیکن خواص جانتے ہیں کہ ایمان و عرفان کے ساتھ اس ذات میں علم و حکمت کا کیسا سر چشمہ چھپا ہوا تھا تھاـ
مایہ ناز محقق ومورخ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ رسالہ(احسن المبادی) ایسے بزرگ کے فیض قلم کا نتیجہ ہے جن کے انفاس قدسیہ کی نسبت سے ہر چیز بجائے خود متبرک معلوم ہوتی ہےـ
حضرت مولانا فخر الدین گیاوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ :اعلی حضرت فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک بنایا مگر اپنے سے بہتر بنایا،ان کی صلاحیت ان کی استعداد اور کمالات ظاہری و باطنی پر ان کے شیخ کامل کو مکمل اعتماد ہی نہیں بلکہ انتہائی فخر و ناز تھاـ حضرت بشارت کریم گڑھولوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ غلام حسین رحمۃ اللہ علیہ(1341 /1922)کے خلیفہ تھےـ آپ کے شیخ آپ کو” کبریت احمر” کہا کرتے تھےـ
آپ کے بارے میں حضرت مولانا قاسم صاحب مظفر پوری قاضی شریعت امارت شرعیہ نے لکھا ہے کہ حضرت قطب الاقطاب الحاج مولانا بشارت کریم علیہ الرحمہ کے روحانی وعلمی فیوض وبرکات سے مردہ دلوں کو ایمانی حیات ملی اور اتباع سنت و شریعت کا لوگوں کے دلوں میں اہتمام و التزام آیاـ
آپ کے فیض صحبت سے ہزاروں علما وصلحا ودیگر انسانوں نے فائدہ اٹھایاـ
آپ کی ولادت بارہ سو چورانوے ہجری میں ہوئی ـ گڑھول بازید پور میں ہوئی ـ چھ سال کی عمر میں ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور دس سال کی عمر میں باپ کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے؛ لیکن تعلیم کا سلسلہ جاری رہا. حکیم مولانا علی حسن صاحب چھپروی سےدربھنگہ میں فارسی وعربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔پھروہاں سےمدرسہ جامع العلوم مظفرپورپہنچےاس وقت جامع العلوم کی نئی بنیاد پڑی تھی۔جناب حافظ رحمت اللہ صاحب مرحوم مدرسہ کے مہتم تھےاور مولانا عبدالواسع صاحب سعدپوریؒ آپ کے استاذ تھے۔۔مظفر پور میں حفظ کی تکمیل اور شرح جامی پڑھنے کے بعد کے بعد کانپور میں استادزمن مولانا احمد حسین صاحب کانپوری رحمۃاللہ علیہ کی درسگاہ میں فن معقول ومنقول سے فراغت حاصل کی۔اس دوران آپ نے قرأت سبعہ، منطق وفلسفہ اور اخیر میں بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث کی باضابطہ تعلیم حاصل کی اور علم میں مہارت تامہ حاصل کیا.
چھبیس سال کی عمر میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے، اس سفر میں آپ کو حضرت مونگیری و حضرت غلام حسین جو بعد میں آپ کے شیخ بنے ان کی معیت بھی حاصل تھی ـ

جنت الابرار(جو حضرت بشارت کریم اور آپ کے مرشد حضرت شاہ غلام حسین کے خطوط کا مجموعہ ہے اس) میں ایک جگہ تحریر ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ حضرت مولانا شاہ ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ، خانقاہ مظہریہ دہلی کی خدمت میں حاضر ہوا تو شاہ صاحب نے فرمایا آپ کسی بزرگ سے متوسل ہیں میں نے عرض کیا نہیں تو انہوں نے کسی عزیز کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا میاں فضل رب بہت سے لوگ آتے ہیں تو کہتے ہیں فلاں کا خلیفہ فلاں کا مجاز ہوں لیکن ان کی صحبت سے سانپ بچھو کی طرح نفرت معلوم ہوتی ہے اور یہ لڑکا کہتا ہے میں کسی سے متوسل نہیں ہوں مگر دل چاہتا ہے اسے سینے سے لگا لوں؛ یہ اولیاء اللہ کی نشانی ہے آپ کے ذریعے بہار خاص طور پر بہار کے مغربی اتری حصے میں جو نیپال کی سرحد سے متصل ہے اس پورے علاقے میں سلسلہ مجددیہ مظہریہ پہنچاـ اس لیے کہ آپ کے پیر و مرشد حضرت شاہ غلام علی دہلوی حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے سلسلے بزرگ تھے. حضرت گڑھولوی کا سلسلہ بیعت سات واسطوں سے حضرت مرزا مظہر جان جانا سے اور گیارہ واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی تک پہنچتا ہےـ
آپ کا سلسلہ آپ کے جانشیں اور خلیفہ حضرت شاہ نور اللہ عرف پنڈت جی کے ذریعے عام ہوا. شاہ نور اللہ قبل میں غیر مسلم پنڈت تھے. بڑے مراحل طے کر نے کے بعد صراط مستقیم سے بہرہ ور ہوئے. اسلام لانے کے بعدنوراللہ نام رکھا گیا. لیکن پھر بھی سابق کا لقب” پنڈت جی” آپ کے نام کا جز بن گیا.. اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بڑی مقبولیت عطا فرمائی..حضرت شاہ بشارت کریم کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے انہی کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچایا حضرت شاہ نور اللہ پنڈت جی اپنا مذہب بدل کر حضرت مولانا بشارت کریم کے دست حق پرست پر ہی مسلمان ہوئے تھے اور حضرت اقدس نے ہی آپ کا نام نوراللہ رکھا تھا.. پنڈت جی کے تعلق سے سے عوام میں بہت سی باتیں مشہور ہیں؛ لیکن کچھ حقائق کو واضح طور پر حضرت مولانا شمس الحق راجوی صاحب نے اپنی کتاب الاکلیل یعنی تذکرہ مشائخ میں تحریر فرمایا ہےـ
حضرت شاہ نور اللہ عرف پنڈت جی کے بارے میں حضرت شاہ بشارت کریم گڑھولوی نے ایک مرتبہ فرمایا کہ نوراللہ جب شروع شروع میں آیا تو اس کی مثال ایسی تھی جیسے ایک شیشہ کا نیا اور سافلین کو جس میں سفید اور صاف دل بھرا ہوا ہوں اور بالکل نہیں اور صاحب صرف بتی لگی ہوئی ہو بس میں نے اتنا کیا کہ اس میں دیا سلائی لگا دی ـ
حضرت امیر شریعت خامس مولانا عبدالرحمن صاحب آپ سے کسب فیض کرنے والوں میں شامل ہیں، حضرت قاری فخر الدین صاحب گیاوی کا رجحان عہد طالب علمی میں آپ سے بیعت کرنے کی طرف تھا لیکن حضرت گڑھولوی کا وصال ہوگیا تو حضرت شیخ الاسلام مدنی سے بیعت ہوئےـ
حضرت شاہ نور اللہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تھے. اللہ نے اس خطے کی سعادت آپ کے ذریعے مقدر کر رکھی تھی چنانچہ آزادی کے چند ماہ بعد آپ کچھ آدمیوں کے ساتھ کراچی تشریف لے گئے وہاں بھی آپ بہت مقبول ہوئے عوام کے علاوہ خواص بھی آپ سے متاثر ہوئے اور آپ کے حلقے میں شامل ہو ئے. آپ کی زندگی مکمل طور پر سنت کے مطابق تھی. نہایت سادہ زندگی تھی، قناعت کو پسند فرماتے تھے. آپ کی وفات وہیں ہوئی اور علاقہ شرف آباد میں مدفون ہوئےـ
حضرت پنڈت جیؒ کی ہجرت پاکستان کے بعد یہ روحانی سلسلہ آپ
کے خلفاء ومجازین میں سب سے زیادہ قطب الہندحضرت مولانا حکیم سید احمد حسن منورویؒ ( ولادت 1901 ء م – وفات ۲/نومبر 1967ء بروز جمعرات ) کے نفوس قدسیہ سے فروغ پایا ، آج حضرت گڑھولویؒ کا سلسلۂ زریں بہار سے بیرون بہارتک بالواسطہ یا بلا واسطہ حضرت منوروی ؒکے ہی چشمۂ روحانی سے جاری وساری ہے ، فرحمہ اللہ
حضرت شاہ بشارت کریم گڑھولوی کو اللہ تعالیٰ نے متعدد اولاد نرینہ عطا فرمایا تھا.. ان سے کئی پوتے بھی ہیں جن میں سے حضرت مولانا باقی باللہ قاسمی صاحب زید مجدہم سے شرف لقاء حاصل ہوا. انھوں نے اپنے خاندانی روایات کے مطابق زبردست اکرام کا معاملہ فرمایا… کافی دیر تک صحبت رہی شاعرانہ ذوق اور ظریفانہ مزاج کے حامل ہیں. موصوف نے اپنی کئی نعتیں بھی سنائیں. جو عشق رسول کے جذبے سے بھر پور تھیں. اسی طرح حضرت کی نسبت سے قائم مدرسہ اور مرکزالمعارف کی بھی زیارت کروائی. یہاں جناب مولانا صفوان کریمی صاحب سے ملاقات ہوئی انھوں نے بھی ضیافت کا اہتمام فرمایا. محسوس ہوا کہ یہ حضرات شاہ بشارت کریم کی علمی و روحانی میراث کو ان اداروں کے ذریعے فروغ دینا چاہتے ہیں.. اللھم زد فزد.
اس عاجز کو اس روحانی وعلمی سفر میں دوسری شخصیت جن کی خانقاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا وہ حضرت حاجی منظور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں. (سفر کی ترتیب میں پہلے وہیں حاضری ہوئی)
ان کے ذریعے ہزاروں بندگان خدا کے مردہ دلوں میں دین کی روشنی اور سنت پر چلنے کا ذوق پیدا ہوا. آپ سیتا مڑھی ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں مصر اولیاء (جو اورائی بلاک میں واقع ہے) پیدا ہوئے. آپ کے والد بزرگوار محترم جناب شیخ لطائف حسین صاحب مرحوم صاحب ثروت ووجاہت اور با کردار لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے اور اپنی فطری حلم وبردباری کی وجہ سے لوگوں میں پیر میاں کے نام سے مشہور تھے. آپ کی آمدورفت حضرت مولانا بشارت کریم کے پاس ہوا کرتی تھی اور فیض صحبت اٹھایا کرتے تھے.
یہاں مولانا مظفر عالم اشاعتی سے ملاقات ہوئی. انہوں نے پرتپاک خیرمقدم کیا اور پرتکلف ضیافت کا اہتمام فرمایا. مولانا اشاعتی ایک پابند شرح حق گو حق پرست، چست اور اہل دل کی صحبت اور ان کے اعمال و اشغال سے گہرا تعلق رکھتے ہیں. وہ قطب ھند حضرت مولانا احمد حسن منوروی کے مریدین و منسلکین میں سے ہیں(حضرت منوروی ہمارے میر قافلہ مفتی اختر امام مدظلہ کے دادا بزرگ ہیں)
حضرت حاجی منظور علی علیہ الرحمہ نے اصلاح خلق اور قرآن وسنت کے علوم کے نشر واشاعت کے لیے ،نور نبوت کے چراغ سے لوگوں کے دلوں کو روشن کرنے کے لیے اس علاقے میں متعدد ادارے قائم کیے، ان میں سے ایک ادارہ اسی بستی میں قائم ہے جو مدرسہ احمدیہ کریمیہ کے جاری و ساری ہے، اس مدرسہ میں حاضر ہوکر طلبہ و اساتذۂ کرام سے روبرو ہونے کا موقع ملا. حضرت حاجی محمد منظور صاحب شہر مظفر پور اور اس کے قرب و جوار کے تھانے میں ایک عرصے تک رہے درمیان میں متعدد اہل اللہ کی تربیت وان کے فیض صحبت سے مستفید ہوئے. پھر ذکر وفکرمیں اتنا انہماک ہوا کہ دنیا سے دل اچاٹ ہوگیا اور ملازمت سے اختیاری سبکدوشی حاصل کرکے یکسوئی کے ساتھ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزید مستعدی کے ساتھ اصلاح خلق کی خدمت انجام دینے لگے. خاص طور پر تعلیمی زبوں حالی کو دور کرنے کے لیے فکر مند رہنے لگے.. آپ کی تحریک اور مشورے وخواہش کے نتیجے میں جو ادارے قائم ہوئے ان میں مدرسہ احمدیہ کریمیہ کے علاوہ، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ، مدرسہ نورالسلام سنگا چوری، مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھر وارہ وغیرہ شامل ہے . آپ کی وفات 18 مارچ 1986 ء میں ہوئی.
اسی طرح حضرت مولانا احمد حسن منوروی کی تشریف آوری اس سرزمین پر بھی ہوئی جس میں سیمینار کا انعقاد ہوا تھا؛ یعنی مادھو پور میں ، مفتی ثمین اشرف صاحب مدظلہ کے والد گرامی حضرت حاجی ابراہیم علیہ الرحمہ اصلا نسبت تھانوی کے حامل تھے، حضرت منوروی سے بھی عقیدت تھی یہاں حضرت کی تشریف آوری بھی ہوئی ہے، ان بزرگوں کے نقوش پا کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو بھی بقعہ نور بنا دیا اور ادارہ دعوۃ الحق مادھو پور کے نام سے ایک بافیض ادارہ پورے علاقے کے لیے منبع نور بناہوا… اللہ اس چمن کو شاداب وآباد رکھے..اس کے باغبانوں کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین.
اس روحانی وعلمی سفر کی یادیں دل ودماغ میں موجزن ہیں اور زبان سے بے ساختہ یہ اشعار نکل رہے ہیں..
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں.
اللہ سے ملوا جاتی ہے صحبت اللہ والوں کی
اپنا رنگ دکھا جاتی ہے صحبت اللہ والوں کی
زندگی کیا ہے زندگی کا مطلب سچ سچ سمجھ آجاتا ہے
جب کوئی زانوئے تلمذ ارشد آن دکھاتاہے
زندگی بندگی بنا جاتی ہے صحبت اللہ والوں کی
حق تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اہل اﷲ کی محبت اور صحبت سے بڑھ کر کوئی تدبیر مؤثر نہیں ؎
ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ
ملنے والوں سے راہ پیدا کر
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ.

You may also like

Leave a Comment