Home ستاروں کےدرمیاں شفیع جاوید: ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا

شفیع جاوید: ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا

by قندیل

صفدر امام قادری
صدرشعبۂ اردو
کالج آف کامرس، آرٹس اینڈسائنس، پٹنہ

کل شام ہسپتال میں ہاتھوں میں ہاتھ لے کر دلاسہ دیتے رہے منحنی مگر صاف آواز میں اور اس سے بڑھ کر آنکھوں کے اشارے سے بھروسہ دیتے رہے اپنے کلیجے پر میرا ہاتھ رکھا اور پھر اپنے ہاتھوں کو میرے سرپہ رکھا مجھے کیا پتا تھا کہ دستِ شفقت کی یہ آخری چھاؤں بھی اس رات کے اندھیرے میں گم ہوجائے گی۔ ہسپتال کے کارندوں نے اطمنان دلایا کہ کہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے اُن کے ناتی کو گھر جانے کے لیے کہا اور بتایا کہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ ایک دن اور ہسپتال میں رہنے دیجیے پھر گھر لے جایئے مگر جیسے ہی ۲۱ دسمبر کی تاریخ نے اپنے قدم بڑھائے، وقت کی زنجیریں سمٹنے لگیں۔ ایک بجے رات میں ہسپتال سے فون گیا کہ حالات تشویش ناک ہے دیڑھ بجے رات میں وینٹلیٹر پر رکھا گیا اور پھر ڈھائی بجے رات کو وہ اگلے سفر کے لیے نکل پڑیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
شفیع جاوید کا تعلیمی ریکارڈ میں یومِ پیدائش ۴ جنوری ۵۳۹۱ ہے مگر حقیقی تاریخ ۱۲ ستمبر کی ہے اور اس سال اس یادگار دن کو انھوں نے ڈاکٹر سید فضلِ رب اور عزیزم آصف ابرار اور ہمارے ساتھ مل کر بہ طورِ جشن منایا تھا۔ وہ مظفر پور میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پولس سرویس میں شامل تھے۔ محکمہئ تعلقاتِ عامّہ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ۵۹۹۱ء میں وہ سبک دوش ہوئے ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”دائرے سے باہر“ ۹۷۹۱ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد ”کھلی جو آنکھ“ (۲۸۹۱ء) ”تعریف اس خدا کی“ (۴۸۹۱ء)، ”وقت کے اسیر“ (ہندی ۱۹۹۱ء)، ”رات شہر اور میں“ (۴۰۰۲ء) اور ”بادبان کے ٹکڑے“ (۳۱۰۲ء) اب تک شائع شدہ افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کے افسانوں کی کلیات ”حکایت ناتمام“ عنوان سے زیرِ طبع ہے۔۔ ان کے کالم اور مضامین کے مجموعے بھی طباعت کے مراحل میں ہیں۔ ان کے افسانوں کی کل تعداد تقریباً ۰۰۱ ہیں۔ ۳۵۹۱ء میں ان کا پہلا افسانہ دربھنگا سے شائع ہونے والے رسالے ماہ نامہ ”افق‘ میں ”آرٹ اور تمباکو“ عنوان سے شائع ہوا تھا۔ ان کی مختصر تحریریں، کتابوں پر تاثرات اور خود سوانحی نوشتہ جات اور ڈائریاں ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں۔ جنھیں اشاعت کا انتظار رہے گا۔۔
ترقی پسندی کے آخری دور اور جدید افسانہ نگاروں کے پہلے قبیلے کی جو مشترک نسل تھی، شفیع جاوید اسی سے تعلق رکھتے تھے۔ چھ دہائیوں سے زیادہ زمانے تک وہ لکھتے رہے مگر ضبط اور وہ پوشیدہ فن کے پرستار تھے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور لفظوں سے زیادہ سرگوشیوں میں اپنے معنی پیوست کر دینے کے مشاق تھے۔ زندگی بھر عشق و محبت کے افسانوی مجاذ پر کھڑے رہے، جانی انجانی کہانیاں بناتے رہے مگر زندگی کی ویرانیاں، خوابوں کے انجانے راستے اور دکھوں کے گہرے سمندر کے مسافربنیں رہے۔ لفظوں میں معنی سے زیادہ احساس اور احساس سے زیادہ حُزن ملال اور پھر سب کے اوپر پُراسرار کیف کی باریک روا ڈال دینا جس سے افسانے میں زندگی اور موت، خوشی اور غم، حقیقت اور گمان اور جانی یا انجانی دنیا ؤں کا اتصال پیدا ہوجائے۔۔ یہ عجیب و غریب فن تھا۔ ایسا لگتا ہے، یہ فن شفیع جاوید پر ہی اپنے خاتمے کو پہنچا۔
آج کے زمانے میں شفیع جاوید کوئی مقبول افسانہ نگار نہیں تھے۔ حالاں کہ ان کے کارناموں پر کلیم الدین احمد، قرۃالعین حیدر، شمس الرحمان فاروقی، وہاب اشرفی اور لطف الرحمان جیسے ممتاز اہل قلم نے لکھا ہے وہ محکمہئ تعلقات عامّہ کی ملازمت میں تھے اور اس کے سب سے بڑے عہدے دار تھے وزیرِ اعلا اور بہار کے گونر کے پریس سکریٹری بھی رہے مگر مزاج بالکل مختلف پایا تھا۔ شہرت، اس کی طرف بھاگنے پر توجہ، اپنی پذیرائی کے لیے تمنا کرنا اور محفلوں میں بہ خوشی رونق افروز ہونا ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا۔ بھیڑ میں رہتے ہوئے تنہا ہونا اور گوشہ نشیں رہ کر ایک بڑی مدت گزار دینا شفیع جاوید نے اپنے لیے مخصوص کرلیا تھا۔ دمِ آخر تک صرف اپنی پسند کے لوگوں سے ملنا جلنا اور ان کے بیچ وقت گزار لینا یا ان سے بات چیت کرلینا یہ ان کا خاص انداز تھا۔ ورنہ وہ اپنی گوشہ نشینی میں کسی کو دخیل نہیں ہونے دیتے تھے۔ اہلیہ کے انتقال کے بعد تو گویا وہ اور بھی اس انداز کے ایک ضدی کی طرح کاربند رہنے لگیں۔ اکلوتے صاحب زادے کبھی ضد کرکے انھیں الہٰ آاباد اور کلکتہ لے جاتے مگر وہ اپنے تنہا آشیانے میں واپس آجاتے۔ اب تو کئی برس سے وہ اس گھر کو چھوڑنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اور وہیں سے اسپتال آئے اور آخری سفر کے لیے چل پڑے۔
گذشتہ دو دہائی سے زیادہ ہوئے، جب پٹنہ کے ہارون نگر کالونی میں شفیع جاوید اور پھر بعد میں وہاب اشرفی بھی منتقل ہوئے۔ ۸۹۹۱ء میں میرے والد کے انتقال کے بعد عظیم آباد میں رہتے ہوئے انھی دونوں بزرگوں کو میں اپنا سرپرست سمجھتا تھا۔ میرے بال بچوں کے علاوہ میرے درجنوں ایسے شاگرد ہوں گے جو ان دونوں بزرگوں کے حلقہئ ارادت میں شامل ہوئے اور ان میں سے کئی نے مل کر گذشتہ برسوں میں شفیع جاوید کے بکھرے کاموں کو سمیٹ کر کتابی شکل دینے کا کام کیا۔ ان میں سے کئی شاگرد ایسے خوش نصیب بھی ثابت ہوئے جنھوں نے اسپتال میں انھیں اپنی سانسوں کی آخری ڈور سلجھاتے ہوئے دیکھا اور ان سے دعائیں لیں۔ ہماری زندگی اور ہمارے کام میں ان کی توجہ اس قدر بڑھی ہوئی تھی جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے کہیں سفر پہ جانا ہوتا، فون پر وہ حفاظت کی دعا پڑھ کر دم کرتے اور پھر تاکید کرتے کہ واپسی میں چلنے سے پہلے مجھے فون کرنا اور وہ مجھے دعا پڑھتے ہوئے خدا کی حفاظت میں پٹنہ تک بلا لیتے۔ ابھی ایک ہفتہ نہیں ہوا کہ انھوں نے فون کیا کہ میں آدھے راستے میں ہوں کالج پہنچ رہا ہوں۔ اس کے ٹھیک دو دن پہلے ہم انھیں ڈاکٹر کو دکھانے لے گئے تھے۔ ہم نے کہا کہ ہم خود آجاتے مگر انھوں نے کہا کہ تمہاری پسند کی بسکٹ آگئی تھی، اسے ہی پہنچانے آرہا ہوں۔ کالج کی سیڑھی پہ چڑھنے میں دشواری تھی ہم نے احاطے میں کرسی منگانی چاہی مگر وہ ایک بینچ پر ہی دھوپ میں بیٹھے اور مجھے ساتھ بٹھایا۔ میرے کچھ شاگرد آتے جاتے رہے اور ان سے دعا لیتے رہے۔۔ کالج کے کچھ ساتھی بھی آئے، ملے اور ان سے باتیں کرتے رہے۔۔ کسے اندازہ تھا کہ یہ شخص اب آخری سفر کی تیاری پر ہے۔
وہاب اشرفی اور سلطان اختر شفیع جاوید کے گہرے دوستوں میں رہے۔ وہاب اشرفی کہتے تھے کہ شفیع جاوید جملے اور پیراگراف لکھتے ہیں۔ ایک لفظ اور جملے میں ان کہے بول پیوست کرنے کا فن اب پتا نہیں کسی کو ملے گا یا نہیں۔ عظیم آباد سے باہر خورشید اکرم اور سرورالہدیٰ کا تذکرہ وہ کرتے رہتے تھے۔ پرانے دوستوں میں شمس الرحمان فاروقی کے بارے میں وہ روزانہ محو کلام ہوئے عظیم آباد سے ریحان غنی ان کے ایسے ملاقاتیوں میں تھے جن کا تواتر کے ساتھ ان کے یہاں آنا جانا رہا۔ ان کی گزارش پر وہ کچھ نہ کچھ اخبار کے لیے بھی لکھ دیتے تھے۔ جب سے فضلِ رب صاحب اس کالونی میں پہنچے، تب سے وہ بھی ان کی گوشہ نشینی کا سہارا بنے ہوئے تھے۔
بھیڑ سے الگ ہو کر وہ کتاب کا غذ اور یادوں میں بڑے سکون سے جی رہے تھے۔ جب جائیے، وہ کچھ پڑھتے ہوئے یا لکھ رہے ہوتے۔ ان کے مطالعے کا دائرہئ کار حیرت سے پرے ہے۔وہ تصوف سے لے کر سیاسیات تک اور مغربی علوم سے لے کر صحافت تک ہر میدان کی کتابیں پڑھتے تھے۔۔ ان کتابوں پر حواشی لکھنے اور پھر ان پر اپنے تاثرات ڈائری میں لکھتے۔ آدھے تاثرات تو وہ انگریزی میں لکھتے تھے۔ چہ جائے کہ وہ کتاب اردو کی ہی کیوں نہ ہو ان کی چھوٹی بڑی ڈائریوں کی تعداد سیکڑوں میں ہیں اور ان میں اپنے تاثرات لکھنے کا سلسلہ بھی پچاسوں برس پہلے سے ہے۔ کاش انھیں ترتیب دے کر عوام کے سامنے لے آتے۔ ان میں نامکمل افسانے اور ادھوری سیکڑوں چیزیں محفوظ ہیں۔
پچھلے کئی برس سے شفیع جاوید کے بکھرے کاموں کو جلد بند کرنے کی میری کوشش رہی ہمارے کئی شاگرد اس کام میں لگے رہے ہیں۔ رسائل کے دفینوں سے بہت ساری گم شدہ چیزیں حاصل ہوئیں۔ شفیع جاوید نے خود بھی اپنی بہت ساری بکھری چیزوں کو تلاش کرکے ہمیں دیا۔ ان کے نام آئے مشاہیر کے پچاسوں قیمتی خطوط بھی میرے سپرد کیا۔ ان سب کی ترتیب اور اشاعت کے سلسلے سے ہماری کوششیں جاری تھیں۔ ایک ہزار سے زیادہ صفحات کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ بزمِ صدف کے پچھلے ۵۱ اگست کے پروگرام میں ان کے سلسلے سے ایک جلسہ اور تین چار کتابوں کے اشاعت کا ان کی موجودگی میں اعلان بھی ہوا تھا انشا اللہ یہ سب کام تو انجام تک پہنچیں گے مگر اب شمع محفل نہ ہوں گے۔ روتی ہوئی آنکھیں ہی خراجِ تحسین پیش کرتی رہیں گی۔
عظیم آباد اور مجھ پر پتا نہیں کیوں قہرِ الہیٰ نازل ہے۔ نومبر دسمبر سے خوف آتا ہے۔ ۲۱ نومبر کی ہی تاریخ تھی جب میرے والد رخصت ہوئے تھے۔ گذشتہ مہینے ۳۱ نومبر کو میرے برادرِ نسبتی پروفیسر نازقادری اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ایک مہینہ بھی نہیں گزرا کہ ہمارے آخری سرپرست شفیع جاوید چل بسے۔ عظیم آباد کی محفلوں میں اب ایک چراغ سلطان اختر کا بچا ہے ورنہ وہاب اشرفی اور لطف الرحمان کے چلے جانے کے بعد اور شفیع جاوید کے گوشہ نشیں ہو جانے سے یوں ہی اندھیرا چھا گیا تھا۔ اب کون ہے جس کے لفظوں کو غور سے پڑھ کر اس معنی اور احساس کی گہرائیوں کی تلاش کی جائے گی۔ چلتے ہوئے سکّے زیادہ ہیں اور مشہور و معروف افراد کی ایک بھیڑ ہے مگر تحریر کی گہرائی اور نئے لکھنے والوں کو لکھنا سکھانے والا فن کار رخصت ہوگیا۔ وہ افسانہ نگاروں کے افسانہ نگار تھے۔ انشاپردازوں کے انشاپرداز تھے۔ ان کے مشہور افسانے ”بھولے بسرے گیت“ کا آخری جملہ یاد آرہا ہے:
”صبح کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور بھولے بسرے گیتوں کا پروگرام ختم ہوچکا تھا۔“

You may also like

Leave a Comment