Home تجزیہ شاہین باغ:نقلی قوم پرستی پر اصلی قوم پرستی غالب-شکیل رشید

شاہین باغ:نقلی قوم پرستی پر اصلی قوم پرستی غالب-شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
دہلی پولس نے وضاحت کردی ہے
’’ہمارے پاس ردّ عمل کا وقت نہیں تھا‘‘!
اگر اس کے پاس ردّ عمل کا وقت ہوتا تو سنیچر کے روز شاہین باغ میں گولی نہ چلتی ۔ پر رکئے شاہین باغ میں گولی چلنے کی بات سے پہلے دہلی پولیس کی ’وضاحت ‘ کی بات کرلیں ۔
بات ۳۰؍ جنوری کی ہورہی ہے جب رام بھکت گوپال نے پستول لہراتے اور نفرت انگیز نعرے لگاتے ہوئے جامعہ مِلّیہ اسلامیہ کے طلباءپر گولی چلائی تھی اور شاداب فاروق نامی ایک طالب علم کو اس کی گولی زخمی کرگئی تھی۔ زخم ہاتھ پر آیا تھا۔ دہلی پولیس کی وضاحت دلچسپ بھی ہے اور شرمناک بھی ۔ دلچسپ اس لئے کہ یہ ’وضاحت‘ جو سُنتا ہے وہ ہنس پڑتا ہے اور شرمناک اس لئے کہ وہ اپنی بے حسی ،لاپروائی یا کھلی ہوئی جانبداری کی پردہ پوشی کیلئے ایسی ’وضاحت‘ کررہی ہے جسے قبول کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے بلکہ سن کر لوگ پہلے تو حیرت میں پڑجاتے ہیں پھر ’وضاحت ‘ کی مضحکہ خیزی پر ہنستے ہیں اور آخر میں دہلی پولیس کی بے حسی اور جانبداری کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ہندوستان کے حالات پر ایک ’آہ‘ بھر کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔
پولیس کی ’وضاحت‘ کتنی لچر ہے اس کا اندازہ انگریزی کے ایک کالم نگار دشینت کے ایک مضمون So who is traitor?’تو کون غدّار ہے ؟‘ کی ابتدائی سطروں سے خوب لگایا جاسکتا ہے ۔ وہ تحریر کرتے ہیں ’’کوئی درجن بھر پویس والوں کی نظروں کے سامنے 50 میٹر کی دوری پر پستول لہراتے ہوئے شخص پر نہ ہی تو اس وقت جب اس نے مجمع پر فائر کیا لاٹھی چارج کیا گیا ، نہ ہی اس کے پیروں پر گولی ماری گئی اور نہ ہی پولیس والے اس پر قابو پانے کیلئے دوڑے آئے ۔انھوں نے اسے کالر سے پکڑا، اس کی پستول اس کے ہاتھ سے لی اور اسے ایک کار میں بِٹھا کر چلے گئے ۔اس کے گولی چلانے اور ایک طالب علم ( گولی اس کے ہاتھ پر لگی تھی) کو زخمی کرنے سے کوئی 20 سیکنڈ قبل وہ پیدل چلتے ہوئے پستول کو اپنے سر سے اوپر ہوا میں لہرا رہا تھا اور سی اے اے کی حمایت میں نعرہ بازی کے ساتھ وہ ’’دہلی پولیس زندہ باد ‘‘ ’’ہندوستان زندہ باد‘‘’ اور ’’لے لو آزادی ‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ پولیس نے نہ ہی تو آنسو گیس کا استعمال کیا ، نہ لاٹھی چارج کیا اور نہ ہی فائرنگ کی !‘‘
مذکورہ سطر یں پڑھ کر یہ بات بالکل عیاں ہوکر آجاتی ہے کہ دہلی پولیس کے پاس پورا موقع تھا کہ پستول لہراتے ہوئے نوجوان پر بغیر آنسو گیس چھوڑے ، لاٹھی چارج کے اور گولی چلائے ،قابو پالے ۔ مگر رام بھکت گوپال نعرے لگاتا رہا، پستول ہوا میں لہراتا رہا اور دہلی پولیس اسے خاموشی کے ساتھ ’ہاتھ باندھے‘ دیکھتی رہی ، اس پر قابو پانے کی اس نے کوئی کوشش نہیں کی۔ لہٰذا دہلی پولیس کی یہ ’وضاحت‘ کہ ’’ہمارے پاس ردّ عمل کا وقت نہیں تھا‘‘ بودی اور پھسپھسی کہلائے گی ، ایک بے جان بے دم ’وضاحت‘ ۔ پر دہلی پولیس کی ’وضاحت‘ پر کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے جامعہ مِلّیہ اسلامیہ کے اندر گھس کر نہتے طلباءپر ڈنڈے برسائے اور کیمپس کے اندر دہشت پھیلائی تھی ، یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے جامعہ کی لائبریری کو تہس نہس کردیا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے منگولوں نے غرناطہ کی لائبریری تہس نہس کردی تھی ۔ یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے جامعہ کی طالبات کو نشانہ بناتے ہوئے بھی کسی طرح کی شرم نہیں محسوس کی تھی اور یہ وہی دہلی پولیس ہے جس نے بالکل اسی طرح جیسےجامعہ میں فائرنگ کرنے والے نوجوان کو چند قدموں کے فاصلے سے دیکھ رہی تھی ، جے این یو میں اے بی وی پی کے شرپسندوں کو طلباءکو نشانہ بناتے ہوئے دیکھتی رہی تھی ،جوپیٹے جارہے تھے اور پٹائی بھی لوہے کی چھڑوں ، ہتھوڑیوں، اور بڑے بڑے پتھروں سے ! مگر پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ اس وقت بھی اس نے انتہائی مضحکہ خیز وضاحت کی تھی کہ چونکہ اسے کیمپس کے اندر وائس چانسلر نے بلایا نہیں تھا اس لئے وہ کیمپس میں داخل نہیں ہوسکتی تھی ۔ کہاں تو جامعہ میں یہ بغیربلائے داخل ہوئی تھی اور کہاں جے این یو میں یہ طلباءکی پٹائی کو دیکھ کر بھی اندر داخل نہیں ہوئی ۔ تو یہ ہے دہلی کی وہ پولیس جس نے جامعہ میں طلبا پر رام بھکت گوپال کو گولی چلاتے ہوئے دیکھا اور خاموش کھڑی رہی ۔ شاید اسے اس ’خاموشی‘ کی تنخواہ ملتی ہے یا باالفاظ دیگر دہلی پولیس مجبور ہے کہ خاموشی سے ’ہاتھ باندھ‘ کر یرقانیوں کی شرپسندی کو دیکھتی رہے ۔ اس نے جے این یو معاملے میں اے بی وی پی کے شرپسندوں کو بچانے کی کوشش کی ہے ، شر پسندی کا الزام ان طلباءپر ہی لگایا ہے جنہوں نے مار کھائی ہے لہٰذا اگر کل کو جامعہ کی یہ فائرنگ جامعہ والوں کے سر ہی مڑھنے کی کوشش کی گئی تو حیرت نہیں ہوگی ۔
جامعہ میں ۳۰؍ جنوری کو جو فائرنگ ہوئی اس کی کڑی ۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ءسے جاکر مِل جاتی ہے ۔ اُس روز بابائے قوم مہاتما گاندھی پر ناتھو رام گوڈسے نے گولی چلائی تھی اور حال کی فائرنگ گاندھی واد ی طلباءپر گوڈسے وادی نے کی۔ یہ واقعہ ملک میں ان دنوں ان دو نظریات کے ٹکرائو کا ہے جن میں سے ایک کو گوڈسےنظریہ یا وسیع پیمانے پر سنگھی نظریہ کہا جاتا ہے ۔ اور دوسرا گاندھی جی کا نظریہ ہے جو ہندوستان کو ایک ایسے پُر امن ملک کے طور پر دیکھتا ہے جس میں ہر مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رواداری اور بھائی چارہ کے ساتھ زندگی گذاریں ۔ یہ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر اس بھائی چارے پر ضرب ہے لہٰذا یہ شہریت ترمیمی قانون ، یہ این آر سی اور این پی آر گوڈسےنظریہ یا سنگھ نظریہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔ ۳۰؍ جنوری کے روز جامعہ کے طلباءدہلی کی دیگر یونیورسٹیوں کےطلباءاور شاہین باغ کے مظاہرین کے ساتھ مل کر مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ تک جلوس لے جارہے تھے ۔ اس جلوس کا مقصد جہاں بابائے قوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا وہیں گوڈسے اور سنگھ کے نظریئے اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت بھی کرنا تھا۔ لہٰذا اس کی مخالفت میں جو بھی آواز اُٹھی وہ مہاتما گاندھی کی مخالفت میں آواز تھی ۔ اور جو فائرنگ ہوئی وہ بابائے قوم کے نظریات پر کی گئی تھی لیکن اس کا ایک بڑا مقصد شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی خواتین کو ڈرانا تھا۔دو تین دن پہلے ایک شخص جس کا نام لقمان چودھری تھا وہاں پستول لے کر پہنچا تھا اور شاہین باغ کا مظاہرہ ختم کرنے کیلئے لوگوں کو دھمکا رہا تھا۔ لقمان ان لوگوں سے ایک ہے جو شاہین باغ کا مظاہرہ چاہتے تو نہیں ہیں لیکن اس کیلئے وہ طاقت کا استعمال کرنا نہیں چاہتے یہ عام سے لوگ ہیں۔ لیکن سنیچر یکم فروری کے روز جس شخص نے شاہین باغ پہنچ کر گولی چلائی تھی وہ گوڈسے اور سنگھ کے نظریات سے متاثر تھا۔ گولی چلاتے ہوئے اس نے ’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ گولی چلاتے اور ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ دہلی پولیس کے ذریعے لگائی گئی روک کے قریب با الفاظ دیگر پولیس کی حفاظت کی چھائوں میں کھڑا ہوا تھا وہ چیخ رہا تھا ’’ہمارے دیش میں صرف ہندوئوں کی چلے گی اور کسی کی نہیں‘‘ ۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس نے پولیس کے قریب کھڑے ہوکر نعرہ لگاتے ہوئے دو بار گولیاں داغیں، اس کے ہاتھ میں سیمی آٹو میٹک پستول تھی جو تیسری فائرنگ کے وقت جام ہوگئی لہٰذا اس نے اسے قریب کی جھاڑیوں میں پھینک دیا اور فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور پولیس اسے لوگوں کے درمیان سے گھسیٹ کر لے گئی ،ا س کا نام کپل گُجّر ہے ۔ اور پولیس اسے بھی رام بھکت گوپال کی طرح نابالغ ثابت کررہی ہے ۔ گویا یہ کہ نابالغوں کو گولی باری کی مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ جامعہ کی گولی باری بھی شاہین باغ کے خلاف تھی اوریہ گولی باری تو شاہین باغ پر ہی ہوئی ۔ یہ بھی اللہ کا ایک احسان ہے کہ کوئی زخمی نہیں ہوا جبکہ شاہین باغ میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے موجود تھے ۔
یقیناً نشانے پر شاہین باغ ہے ۔ اور ممکن ہے کہ جس طرح دہلی کے شاہین باغ میں گولی چلا کر لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کی گئی ہے اسی طرح سے ملک کے دوسرے شاہین باغوں میں بھی گولیاں چلا کر احتجاجی مظاہرین کوڈرانے کی کوشش کی جائے ۔ یہ ڈر اور خوف اس لئے پھیلایا جارہا ہے کہ شاہین باغ کی تحریک ختم کی جاسکے ۔ یہ وہ تحریک ہے جس نے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیندیں اُڑا دی ہیں ۔ اور ان کی اقلیت دشمن پالیسیوں کو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے پس پشت مذموم عزائم کو اُجاگر کردیا ہے ۔ ایک مہم شاہین باغ کے خلاف شروع ہے ۔ امیت شاہ شاہین باغ ہٹانے کے نام پر دہلی میں ووٹ مانگ رہے ہیں اور مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر’’دیش کے غداروں کو گولی ماروں سالوں کو ‘‘ کا نعرہ لگا کر لوگوں کو احتجاجی مظاہرین پر گولی باری کیلئے اکسا رہے ہیں ۔ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے جلسوں میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ’’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘‘ کے نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں ۔ گویا یہ کہ شاہین باغ اب بی جے پی اور بھاجپائی وزراء کے حواس پر طاری ہوچکا ہے ۔ اور اسی سے اس تحریک کی ، جو ہندوستان کے بے بسوں اور مجبوروں کی جدوجہد کی علامت بن گئی ہے ،اہمیت کا بھی اور طاقت کا بھی خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ سنگھی ، یرقانی اور بھاجپائی احتجاجیوں کو ’’دیش کا غدار‘‘ بتاتےرہیں گے ۔ انہیں بکنے دیں کہ دنیا جانتی ہے کون اس ملک کا حقیقی غدار ہے ۔ بھلے ہی یہ گوڈسے کو دیش کا غدار نہ مانیں پر گوڈسے تو دیش کا غدار ہی ہے۔ اس لحاظ سے گوڈسے بھکت بھی دیش کے غدار ہی ٹھہرے۔ دو گولی باریوں ، امیت شاہ کے شاہین باغ ہٹانے کے نام پر ووٹ کی اپیلوں اور دیش کے غداروں کو گولی مارنے کے نعرے سے ایک بہت بڑاسچ ابھر کر سامنے آیا ہے،یقین کریں کہ شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین اور سی اے اے کے مخالفین کی قوم پرستی ،نفرت اور عصبیت پرمبنی نقلی قوم پرستی پر بھاری پڑ گئی ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment