آل انڈیا ملی کونسل پھلواری شریف پٹنہ
یہ کون نہیں جانتا کہ مذہب اسلام اعلیٰ واشرف ہے اور اسی مذہب کے اندر کمی زیادتی بد کی ترین چیز سمجھی جاتی ہے اور اسی پر عمل کرنے والے شریعت کے تقدس کو پامال کررہے ہیں۔حالاں کہ اسلام ایک برستاہوا بادل ہے،جس نے دنیا کے ذرہ ذرہ کو سر سبز وشاداب کیا،امن و آشتی کا پیغام دیا اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کی ہر ہر مر حلہ میں رہنمائی کی،چنانچہ اسلام نے رشتہئ منا کحت کا حکم دیا؟پھر اس کی پختگی کے لئے ہر ایک کے الگ الگ حقوق متعین کر دئیے،کیوں کہ نکاح معاشرے کی بنیاد اور تعمیر تمدن کی پہلی اینٹ ہے،جب تک یہ صحیح اور مضبوط نہ ہو گی اس وقت تک معاشرے کی عمارت نہ تعمیر ہوسکتی ہے،اور نہ ہی مضبوط ومستحکم ہو سکتی ہے۔
ذرا غور کریں گے تو معلوم ہو جائے کہ بانیئ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام باتوں کو عملی طور پرکرکے دکھلایا اور بتلادیا ہے اور کبھی بھی کوئی ایسے کام کو نہ کیا ہے،جس میں امت کے لئے پریشانی اور دشوار ی ہو،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی،نہایت سادگی کے ساتھ،صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم اجمعین جمع ہوئے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح پڑھا یا،اور سامانِ جہیز میں ایک مشکیزہ،اور ایک چکی،اور ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھا لیں بھری تھیں اور ایک چادر جن کے اوپر سولہ پیوند لگے ہوئے ہیں،انہیں چادر کو دے کر بیٹی کو رخصت کردیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو مال کا ایک بڑا ذخیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دے روانہ فرماتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کمی کس چیز کی تھی!ایک اعلان پر سارا شہر مال کا ایک ڈھیر لگا دیتا،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ہماری امت کو سہولت اور آسانی ہو،تنگی اور پر یشانی جھیلنا نہ پڑے،
اس لیے ہو نا تو یہ چاہیے کہ نکاح کی تقریبات میں شرعی حدود کا مکمل خیال رکھا جائے،اور کوئی ایسا عمل اس میں شامل نہ کیاجائے جو شرعاً ممنوع ہو،لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج کل نکا ح کی تقریبات میں کھل کر شرعی احکام کی پامالی کی جاتی ہے،اور خوشی کی مد ہوشی میں ہم اپنے خالق و مالک اللہ رب العزت اور اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو قطعاً نظر انداز کر جاتے ہیں۔
خصوصاً جس شخص کے پاس ذرا مالی وسعت ہوتی ہے تو وہ اپنے یہاں شادی کی تقریب اس انداز میں منانے کی کوشش کرتا ہے جو پورے علاقہ کے لئے بے مثال اور بے نظیر بن جائے،لاکھوں لاکھ روپے شادی ہال کے کرایوں،لائٹنگ اور ڈیکوریشن پر خرچ کردیے جاتے ہیں،کھانے پینے کی اشیاء کے تنوع میں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر کرتا ہے،پھر ایک ایک مرد وعورت مہمان کی,,مووی اور ویڈیو،،بناء جاتی ہے۔مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے،اور کہیں کہیں اسکرین لگا کر مردوں کا مجمع عورتوں میں اور عورتوں کا مجمع مردوں میں دکھایا جاتا ہے،اورحیا باختہ نو جوان ان باتوں سے لذت اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں،ان باتوں کی وجہ سے شادی کی تقریب منکرات و فواحش کی آماج گاہ بن کر رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ جہیز کا دکھاوا،ٹونے ٹوٹکے والی رسومات کی پا بندیاں اور برادری اور معاشرے کے دباؤ میں جاہلانہ اور فرسودہ باتوں پر اعتماد یہ ایسی دلخراش چیزیں ہیں،جن کی بنا پر ہمارے معاشرے میں ’شادی‘اب (شادی کے بجائے)بر بادی بنتی جارہی ہے،اور ان خود ساختہ پابندیوں کی بنا پر خصوصاً متوسط اور غریب طبقہ کے لیے شادی کرنا ایک بڑا بوجھ بنتا جارہاہے،جس کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں شادیوں سے محروم بیٹھی ہیں،اور ماں باپ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین ختم کرنے کا سبب بن چکی ہیں۔
آج شادی کے موقع پر ہماری خواہش ہوتی ہے کہ خاندان،پا س پڑوس،دوست واحباب حتیٰ کہ گھر کے نوکر چاکر سب کے سب خوش ہوجائیں کوئی ناراض نہ رہے،اسی لیے اگر کسی رشتہ دار سے ناچاقی ہوتی ہے،تو تقریب سے پہلے اس کی خوشامد کرکے اسے تقریب میں شرکت پر آمادہ کیا جاتا ہے،ملازموں کی منہ مانگی مرادیں پوری کی جاتی ہیں،کیوں،،شادی،،کی خوشی میں سب کو شامل کر نا مقصود ہو تاہے،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی تقریبات میں جس طرح رشتہ داروں اور دوستوں کی خوشنودی کا خیال رکھتے ہیں،کیااسی طرح اللہ اور اس کے مقدس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کا جذبہ بھی ہمارے اندر پایا جاتا ہے؟کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری منکر ات بھری تقریبات دیکھ لیں توآپ کو خوشی ہوگی یا ناگوار ی؟ظاہر ہے کہ اسراف اور فضول خرچی اور منکرات دیکھ کر ہمارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو ہر گز خوشی نہیں ہوسکتی،بلکہ یقیناً ناگوار ی ہوگی،اس لیے کہ قرآن کریم میں اسراف و تبذیر کی صراحتاً ممانعت وارد ہے۔ارشادخداوندی ہے:
’اور اپنے مال کو فضول اور بے موقع مت اڑاؤ،یقینا بے جا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں،اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘
اسی بناء پر پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو خرچ کے اعتبار سے آسان ہو اورہلکا پھلکا ہو۔‘(مشکوۃ شریف)
تو جب شریعت کا حکم اسراف و تبذیر سے بچنے کا اور نکاح کو آسان بنانے کا ہے تو ہماری نکاح کی تقریبات جن میں کھل کر فضول خرچیاں ہوتی ہیں اور احکام شریعت کی دھجیاں اڑائی جا تی ہیں،ان سے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خوشی کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟
اور جس تقریب سے اللہ اور اس کے رسول راضی نہ ہوں،تو اگر اس سے پوری دنیا بھی خوش ہوجائے،مگر اس تقریب میں برکت نہیں آسکتی،اس کے بر خلاف جس تقریب سے اللہ اور اس کے پیغمبر خوش ہوں تو وہی بابرکت ہوگی اگر چہ پوری دنیا ناراض ہو جائے،ہر صاحب ایمان کو یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے اور اپنی سبھی تقریبات کو شریعت کے دائر ہ میں رہ کر انجام دینے کا عزم کرنا چاہیے۔خاص طور پر اگر برادری کے با اثر حضرات اور علماء کرام اس بارے میں مسلسل سنجیدہ کوشش کریں،تو انشاء اللہ معاشرے اور سوسائٹی سے یہ قبیح رسم و رواج خو د بخود ختم ہو جائے گا۔
لہذا تقریب نکاح کی مسنون صورت یہی ہوگی کہ اس میں تمام رسوم ورواج تکلفات اور معاصی سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے اور ہر اعتبار سے سادگی کا مظاہرہ کیا جائے،نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد کرنا افضل ہے،تاہم نکاح کے دوران مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے، مثلاً وہاں شور وشغب نہ مچایا جائے اور مسجد کے فرش وغیرہ کو خراب نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ پورے امت مسلمہ کو سنت کے مطابق زندگی اور شادی کو سادی بنانے کی تو فیق عنایت فرمائیں۔آمین۔