ممبئی (مفتی صفوان احمد جونپوری): ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ عربی نے "ہندوستان میں عربی صحافت” کے عنوان سے 1 اور 2 مارچ کو دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا،جس میں ہندوستان بھر سے سے پروفیسرز اور ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔ مقالہ نگاروں نے کہا کہ ہندوستان میں عربی صحافت کا وجود کافی پہلے سے ملتا ہے، چنانچہ سب سے پہلا جریدہ ” النفع العظیم لاہل ہذا الاقلیم” 1871 میں شائع ہوا، شیخ شمس الدین نے اس جریدے کو شائع کیا تھا۔ دوسرا جریدہ "شفاء الصدور” 1875 میں شائع ہوا، اسے مشہور اہل قلم شیخ فیض الحسن سہارنپوری نے جاری کیا تھا۔ بیسویں صدی کی شروعات میں "البیان” "الجامعہ” وغیرہ مجلات جاری ہوئے اور ہندوستان کی آزادی کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء سے مجلہ "البعث الاسلامی” 1955 میں شائع ہوا، اس کے اولین مدیر مولانا محمد الحسنی تھے۔ اس رسالے نے نے عربی زبان و ادب کی بڑ ی خدمت انجام دی اور اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے ایک اور اور مجلہ "الرائد” 1959 میں جاری ہوا جو پندرہ روزہ ہے اور اب بھی جاری ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے 1965 میں مجلہ "دعوۃ الحق” جاری ہوا، جس کو شیخ وحید الزماں کیرانوی نے جاری کیا تھا، شیخ وحید الزماں کیرانوی نے 1973 میں دہلی سے بھی ایک مجلہ جاری کیا تھا۔ شیخ وحید الزماں کیرانوی نے نے دارالعلوم دیوبند سے ایک پندرہ روزہ مجلہ جاری کیا جس کا نام "الداعی” ہے، بعد میں یہ ماہنامہ ہوگیا اور اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔
جامعہ سلفیہ نے ایک مجلہ "صوت الامۃ” 1969 میں جاری کیا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ سے ایک مجلہ "المجمع العلمی الہندی” کے نام سے 1976 میں جاری ہوا۔ اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں میں بچاسوں عربی مجلات جاری ہوئے،جنہوں نے عربی زبان اور عربی صحافت کو غذا فراہم کیا۔ دہلی سے بھی ایک رسالہ نکلتا ہے، اس کا نام ہے ” اقرا تتحسن لغتك العربية”، یہ 16 صفحے کا ایک بہت ہی قیمتی رسالہ ہے عربی زبان سیکھنے والے طلبہ کے لیے۔
جواہر لال یونیورسٹی دہلی سے تشریف لانے والے پروفیسر مجیب الرحمٰن صاحب نے کہا کہ صحافت کا لفظ اس کے خاص معنی میں عربی زبان میں سب سے پہلے نجیب حداد نے استعمال کیا، صحیفہ کا لفظ سب سے پہلے رشید اللبنانی نے استعمال کیا اور مجلہ کا لفظ سب سے پہلے شیخ ابراھیم الیازجی نے استعمال کیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بتایا یا کہ عربی زبان میں آج بہت مواقع ہیں، ضرورت ہے کہ ہم اس زبان کو اچھی طرح سیکھیں، اس کے بعد راہیں ہمارے لئے کھل جائیں گی۔علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر ثناءاللہ نے قیمتی مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو بحیثیت تاریخ مطالعہ کریں،انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے اب تک کوئی عربی روزنامہ نہیں نکلا ہے، یہ بھی کہا کہ صحافت جس چیز کا نام ہے، وہ مکمل طریقے سے عربی زبان میں ہمارے ملک ہندوستان میں نہیں پائی جاتی ہے۔
اس پروگرام میں جامعات کے پروفیسرز کے علاوہ ممبئی یونیورسٹی کے عربی ڈپارٹمنٹ کے تقریبا تمام اساتذہ اور طلبہ موجود تھے،جن میں پروفیسر ڈاکٹر شاہد ، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جمشید ندوی، ڈاکٹر شبلی، ڈاکٹر تابش، ریسرچ اسکالر عادل، ڈاکٹر نیلوفر، ڈاکٹر حنا فاطمہ، ڈاکٹر نعمان، ڈاکٹر امام الدین، رضوان احمد، اسما، صفوان احمد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔