حال ہی میں سوربھ رائے کی بحالی اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے دہرہ دون میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ویزیولی ہینڈیکیپٹ میں ہوئی تھی۔ نوکری میں شمولیت کی رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد سوربھ نے تقریباً ایک ماہ تک تدریس کا کام انجام دیا اور پھر رخصت لے کر اپنے وطن للت پور جانے کا ارادہ کیا۔ چھٹیاں منظور ہو گئیں تو اس نے ٹرین پر اپنی جگہ محفوظ کروالی۔
سوربھ کو یکم مئی کی صبح ساڑھے پانچ بجے کی اُجّینی ایکسپرس میں سفر کرنا تھا ۔ لہٰذا تیس اپریل کو رات کے گیارہ بجے وہ اسٹیشن پہنچ گیا۔ بھاری بھرکم جسم، وزنی بستہ اور انتہائی ناقص بینائی کے ساتھ وہ رکشہ سے اتر کر لشتم پشتم پلیٹ فارم پر پہنچا۔
ابھی وہ پلیٹ فارم پر موجود ایک بنچ پر بیٹھنے کے لیے جگہ بنانے کی کوشش میں تھا کہ ایک لڑکی سے اس کی ٹکر ہوگئی۔ ٹکر کیا تھی گویا معانقہ سا ہو گیا۔ لڑکی سٹپٹائی اور پھر سوربھ پر برس پڑی: ’’ابے نالایق نظر نہیں آتا ہے کیا؟ بے شرم کہیں کا ۔ کوئی بھی جگہ ہو تم لوگ اپنی حرکت سے باز نہیں آتے ہو۔‘‘
’’دیکھئے، سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ میں…‘‘ سوربھ کا فقرہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ دو چار لوگ بشمول ایک قلی کے جمع ہو گئے اور اس پر پل پڑے۔ لات اور مکے تابڑ توڑ برس رہے تھے۔
سوربھ چلا رہا تھا ’’ارے بھائی مجھے دکھائی نہیں دیتا ہے۔ دیکھو، میری خاص طرز کی چھڑی۔‘‘ لیکن شور اور ہنگامہ میں اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی تھی۔ اسے اپنی بصارت کی کمی اور لوگوں کی بصیرت سے محرومی پر غصّہ آرہاتھا۔
اس دوران وہ لڑکی جس سے سوربھ ٹکراگیا تھا چیخ کر بولی: ’’ارے آپ لوگ چھوڑ یئے اسے۔ وہ بینائی سے محروم ہے میری طرح۔‘‘ اس کے ذہن میں آیا کہ یہ سب سالے لڑکی کو گوشت کا ایک لوتھڑا سمجھتے ہیں اور موقع ملنے پر ہرگز نہیںچوکتے ہیں، لیکن لڑکی چھیڑنے والے ملزم کو مارنا کوٹنا ہو تب دیکھئے ان کی شرافت کیسے کو ند کر آتی ہے۔
لوگوں کا ہجوم منتشر ہوا تو سوربھ پلیٹ فارم کے فرش پر بے حس و حرکت بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اُس کے بال پراگندہ تھے، قمیص ایک دو جگہ سے پھٹ گئی تھی اور چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
وہ لڑکی سوربھ کے قریب ہی سر جھکائے کھڑی تھی۔ ’’مجھے چھما کر دیجئے۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ میں نے آپ کی پوری بات سنی نہیں اور واویلا شروع کر دیا۔‘‘ سوربھ ساکت و جامد بیٹھا رہا۔ لڑکی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا: ’’آپ میرا ہاتھ پکڑیں اور کھڑے ہو جائیں۔ یہاں بنچ پر بیٹھنے کے لئے جگہ ہے۔‘‘
سوربھ اس لڑکی کے جلو میں بنچ پر بیٹھ گیا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد سوربھ نے اپنا تعارف کرایا او ر لڑکی سے اس کا نام دریافت کیا۔
’’ دنیا تضادات سے پٹی پڑی ہے۔ آپ کے سوال کا جواب بھی ایک مجسم تضادہے۔ میرا نام روشنی ہے۔‘‘ لڑکی بولی۔
’’روشنی صرف بینائی کا نام تھوڑے ہی ہے۔ جب دل میں درد پیدا ہوتا ہے تب روشنی ہاتھ آتی ہے۔ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے والوں کو تو میں اندھا ہی سمجھتا ہوں۔‘‘ سوربھ نے جواباً کہا۔
روشنی سوچ رہی تھی کہ لگتا ہے کسی شاعر یا فلسفی سے پالا پڑگیا ہے۔
اس اثنا میں سوربھ نے روشنی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ مجھے چائے پینے کی خواہش ہو رہی ہے۔ آپ کے لئے بھی منگوا رہا ہوں۔‘‘ روشنی نے پہلے توصاف انکار کر دیا لیکن سوربھ کے پیہم اصرار کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ گفتگو کرتے ہوئے دونوں نے چائے کی کئی پیالیاں پی ڈالیں اور بسکٹ کے کئی ایک پیکٹ ختم کر ڈالے۔ سوربھ نے بتایا کہ وہ ایک کالج میں ملازمت کرتا ہے اور چند روز کی چھٹی لے کر اپنے وطن للت پور ، یوپی ، جا رہا ہے۔ پھر اُس نے اپنا رُخ روشنی کی طرف کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کو کہاں کا سفر درپیش ہے؟‘‘
’’مجھے بہت دور جانا ہیـ۔‘‘ لفظ دور کو ذرا کھینچ کر بولتے ہوئے روشنی نے ایک سرد لہجے میں یہ بات کہی۔
سوربھ نے الفاظ بدل کر اپنا سوال دہرایا: ’’میرا مطلب ہے آپ کس ٹرین کا انتظار کر رہی ہیں؟ اور یہ ٹرین کس وقت متوقع ہے؟‘‘
’’میں نے کہا تو کہ مجھے بہت دور جانا ہے‘‘۔ روشنی نے جزبز ہو کرقدرے تیز لہجے میںکہا۔
چونکہ شگفتہ مزاجی اور تحمل، سوربھ کی شخصیت کا خاصہ تھا لہٰذا اس کے چہرے پر ناخوشی کے بادل کا گزر تک نہیں ہوا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’منزل جتنی دور ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ اصل مزہ تو سفر میں ہے۔‘‘
روشنی کو سوربھ کی دلچسپ باتوں میں مزہ آنے لگا تھا۔ سوربھ کو بھی روشنی کی باتوں میں ایک ذہین اور حساس طبیعت کی جھلک محسوس ہو رہیتھی۔
سوربھ نے روشنی سے پوچھا: ’’آپ پڑھائی کر تی ہیں؟‘‘
روشنی گویاہوئی: ’’گذشتہ برس میں نے گریجوئیشن مکمل کر لیا تھا۔ پڑھائی کا یہ سنگ میل میں نے اپنے گھر والوں کے خلاف جا کر طے کیا ہے۔ میرے گھروالے میری پڑھائی کے سخت مخالف ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ میں زیادہ پڑھ لکھ جاؤںگی تو شادی کے لیے لڑکا ملنا مشکل ہو جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ میں P.O. کا امتحان دوں۔ مگر میرے گھر والے ہمیشہ پھبتی اُڑاتے رہتے ہیں۔ آج ہی اُنہوں نے کہا کہ اپنا سامان صحیح سے رکھ نہیں پاتی ہے، وقت پر کچھ تلاش نہیں کرپاتی ہے اور چلی ہےP.O. کا امتحان دینے۔ میں تو اپنی زندگی سے عاجز آچکی ہوں۔‘‘
سوربھ بڑی توجہ کے ساتھ روشنی کی باتیں سن رہا تھا۔جب روشنی خاموش ہوئی تو اُس نے کہا: ’’روشنی جی، زندگی ہے تو مشکلات بھی ہیں۔ زندگی کوہر رنگ میں جینا ہی تو اصل کمال ہے۔‘‘
اس کے بعد سوربھ اپنی عادت اور طبیعت کے مطابق طرح طرح کے قصے، کہانیاں اور لطیفے سناتا رہا۔ کبھی خود پر ہنسنے والی کوئی بات کہتا۔ کبھی دوسروں کی باتوں یا حرکتوں کو بیان کرکے قہقہے لگاتا۔
روشنی کو سوربھ کی صحبت میں فرحت کا احساس ہونے لگا تھا۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا وہ زندگی میں پہلی بار ہنسنے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ایک پل کے لئے اُسے لگا کہ اس کی منزل کافی قریب ہے۔
اب صبح کے پانچ بج چکے تھے۔
’’دہرہ دون میں آپ کا گھر کہاں ہے؟‘‘ سوربھ نے روشنی سے پوچھا۔
’’جین آشرم کے قریب۔‘‘ روشنی نے جواب دیا۔
’’تو چلیں؟‘‘ سوربھ نے استفسار کیا۔
’’مگر آدھ گھنٹے بعد تو آپ کی ٹرین آنے والی ہے‘‘۔ روشنی کے لہجے میں تحیر اور استعجاب تھا۔
’’دراصل مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔ اسی لئے آج کا سفر موقوف کر رہا ہوں۔‘‘ سوربھ نے بڑے پرسکون انداز میںکہا۔
’’ٹھیک ہے آپ جائیں، میںاپنے گھر چلی جاؤں گی۔‘‘ روشنی نے خشک لہجے میں کہا۔
’’ارے یہ کیا بات ہوئی ۔ مجھے بھی جین آشرم کی طرف سے ہو کر جانا ہے۔ ساتھ چلیں۔ ایک سے بھلے دو۔‘‘ سوربھ نے اپنا بریف کیس اور اپنی چھڑی اٹھاتے ہوئے کہا۔
جب وہ دونوں جین آشرم کے قریب پہنچے تو ایسا لگا کہ سارا شہر ان کی تلاش میں سر گرداں تھا۔ لوگ زاغ و زغن کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ خواتین کا ایک گروہ روشنی کو اُچک لے گیا۔ مردوں کا ایک جتھا سوربھ کو یوں گھسیٹنے لگا جیسے قصائی کسی ہٹیلے جانور کو مذبح لے جاتا ہے۔ بعد میں گھر کا ایک کمرہ روشنی کے لیے عقوبت گاہ بنا ہوا تھا اورایک دوسرے کمرے میں سوربھ کی مرمت کی جا رہی تھی۔
’’ارے تم لوگ اس کو کیوں مار رہے ہو۔ وہ شریف آدمی ہے۔ وہ تو مجھے یہاں لے کر آیا ہے ورنہ تم میرا مرا ہوا منہ دیکھتے۔ ارے نالایق لوگو!کیا کر رہے ہو؟‘‘ روشنی دیوانوں کی طرح چیخ چیخ کر گوہار کر رہی تھی۔ اُدھر لوگوں نے سوربھ کو ایک کرسی پر بیٹھا کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے تھے اور لاتوں، مکوں اور تھپڑوں سے اس کی خاطر خواہ تواضع فر ما رہے تھے۔ مارپٹائی کرنے والا ہر شخص ایک ہی طرح کی بات کہتے ہوئے اپنے ہاتھ پیرکو حرکت میں لاتا تھا۔ ’’لڑکی بھگاتا ہے۔ بڑا عاشق بنا ہے۔ حرام زادے ! تیری…‘‘
جہاں سوربھ کچھ بولنے کی کوشش کرتا تو ایک بار پھر گالیوں اور لاتوںمکوں کی بوچھار شروع ہو جاتی۔ آخرکار اس نے انگریزوں کے زمانے کا ایک آزمودہ نسخہ استعمال کیا۔
اس نے چلا کر کہا: Why don’t you listen to me?
اور پھر سینا تان کر اس نے انگریزی زبان میں اپنا تعارف پیش کیا۔
لوگ سکتے میں آگئے اور آنکھیں پھاڑپھاڑ کر اسے دیکھنے لگے۔ لوگوں پر اس مجرب نسخہ کا اثر دیکھ کر سوربھ کا حوصلہ بڑھا اور اس نے مزید کہا:
ٰFor your information, I’m not her paramour.
لوگوں نے سوربھ کو آزاد کیا اور اب ایک گھر آئے ہوئے مہمان کی طرح اس کی خاطر مدارات شروع کی۔ ناشتہ کے بعد چائے پیتے ہوئے سوربھ نے حکیمانہ طریقہ سے روشنی کے گھر والوں کو سمجھا یا کہ اگر روشنی مزید تعلیم حاصل کرلے او رکسی نوکری میں آجائے تو اس کا مستقبل روشن ہو جائے گا۔ لوگوں کو ترغیب دلانے کی خاطر اس نے فخریہ کہا: ’’دیکھیئے میں بھی دیکھنے کی صلاحیت سے تقریباًمحروم ہوں لیکن میں اسسٹنٹ پروفیسر بن گیا۔‘‘
اگلے دن سوربھ للت پور پہنچا اور اپنی چھٹیاں گزار کر دہرہ دون واپس آگیا۔
وہ روشنی سے رابطہ میں تھا۔ فون سے بات کرتے ہوئے وہ روشنی کی خوب ہمت افزائی کرتا تھا اور وقتاً فوقتاً کالج کی لائبریری سے اسے بریل رسم الخط میںتیار کی ہوئی کتابیں فراہم کر وا دیا کرتا تھا۔ وہ دونوں جب بھی ملتے دیر تک چہل قدمی کرتے، کالج کی کینٹین میں بیٹھ کر چائے ناشتہ کرتے اور راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے۔
اسی طرح دو سال گزر گئے۔
ایک دن صبح صبح سوربھ کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ سوربھ نے موبائل چالو کیا تو ادھر سے فاتحانہ مسرت سے مملو روشنی کی آواز سنائی دی۔ ’’ہیلو سوربھ ! ایک خوشخبری ہے۔ میں نے P.O.کا امتحان پاس کر لیا۔ اس کا سہرا تمہارے سر جاتاہے۔ تھینک یو سو مچ!‘‘
سہرا کا لفظ سننا تھا کہ سوربھ کے دل پر ایک چرکا لگا۔ یہ لفظ اس کے دماغ میںکھب کر رہ گیا۔ اُسے اچانک اپنے گھر میں ایک مہیب اندھیرے کا احساس ہونے لگا۔ اسے آج پھر یاد آیا کہ وہ للت پور کے ایک برہمن خانوادے کا چشم وچراغ ہے جبکہ روشنی کا جنم دہرہ دون کے ایک دلت پریوار میں ہوا ہے۔
سوربھ نے فون بند کیا۔ اسے یاد نہ رہا کہ اس نے روشنی سے جواباً کیا کہاتھا۔ وہ اپنے بسترپہ یوں گر ا جیسے کسی درخت کی کوئی بوسیدہ شاخ چٹاخ سے ٹوٹ کر یکا یک زمین پر گر پڑتی ہے۔ اُسے کسی کروٹ کل نہیں پڑتا تھا۔ اُس کے دماغ کو لفظ سہرا ڈسے جا رہا تھا۔