میرے خیال میں اس بار ملی قیادت نے الیکشن کے تناظر میں سردمہری سے کام لیا اسے بہت زیادہ خوش آئند تو نہیں تجرباتی طور پر مناسب اقدام کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی راۓ دہندگی ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور کسی جمعیت کے صدر یا سکریٹری ،جماعت کے امیر یا منتظم ، شاہی مسجد کے امام یا متولی ، خانقاہ کے پیر اور مزارات کے سجادہ نشین کا فرد کی آزادی میں دخل انداز ہوکر اپنے فرمان کے ذریعے راۓ دہندہ کو متاثر کرنا اس کے حق رائے دہی اور خود مختاری کو سلب کرنے کے مترادف ہے اور وہ اتنا ہی غلط ہے جتنا کسی راۓ دہندہ کو مال و زر یا اسباب cash or kind کے عوض ووٹ خریدنا۔ دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک فتویٰ میں کسی امیدوار سے مالی وغیر مالی منفعت کے عوض ووٹ حاصل کرنے کو رشوت لینے اور دینے کے زمرے میں رکھتے ہوئے ناجائز کہا ہے۔ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار۔
تاہم ملک و ملت کے اعلیٰ مفادات میں عوام کو ووٹنگ پیٹرن بتانا، توقعات و خدشات کے بارے میں باخبر کرنا سول سوسائٹی اور ملت کے اس فیلڈ کے ماہرین( علماء و دانشور) کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
ملت کے ان دو گروہوں ؛ ( دینی درسگاہوں سے نکلے ہوئے باخبر علماء اور عصری دانشگاہوں سے نکلے ہوئے سیاسی و سماجی طور پر متحرک دانشوران )
کے درمیان جو خلیج ہے اسے پاٹنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا نقصان، ملت کے سیاسی اور سماجی امور سے وابستہ ہر معاملے میں جہاں اجتماعیت کی ضرورت ہوتی ہے، نظر آتا ہے۔ حالیہ بہار الیکشن کی انتخابی مہم سے پہلے اور دوران , ملت کے افراد کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت تھی کہ کس کس پارٹی کو کن وجوہات کی بنا پر ووٹ کرنا بہتر ہوگا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں کس طرح کے خدشات ہیں۔ ظاہر وہ کسی مخصوص پارٹی کے حق میں نہیں بلکہ ایک کامن گائیڈ لائن ہوتی تاکہ ووٹرز اپنی پسند کی پارٹیوں کا تعین کر سکیں اور انتخابی سیاست میں ملت کے سرگرم افراد ملی مسائل کو ان پارٹیوں کے انتخابی منشور میں شامل کرا سکیں۔ یہ جب ہی ممکن ہوگا جب ملت کے دونوں گروہ علماء و دانشور ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس کریں اور اپنے اقوال وافعال سے آپس میں اعتماد بحال کریں۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے دانشور حضرات خود کچھ کرتے نہیں مگر جو لوگ کرتے ہیں ان پر بسا اوقات بے جا تنقیص اور بعض اوقات بجا تنقید کرتے ہیں۔ تنقید اور تنقیص سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے لئے مکتمل بننے کی ضرورت ہے۔
یہ ضرورت بہار الیکشن سے قبل کی نہیں تھی اور نہ بعد میں بنگال اور اپر پردیش کے لئے ہے۔ بلکہ ایک دائمی ضرورت ہے۔ پچھلے چند سالوں میں سیاست بالخصوص انتخابی سیاست میں مسلمانوں کو بے وقعت بنانے کی روش شروع ہوئی ہے اس کے پیش نظر ایک مکمل لائحہ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ عمومی طور پر مسلمانوں کا ذہن ہر طرح کے کنفیوژن سے پاک رہے۔ مثال کے طور پر دستور میں دیۓ گۓ حقوق کے تحت جب کسی پارٹی کی تشکیل ہوئی اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس سیاسی پارٹی کو تسلیم کیا اور الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیتے ہوئے سمبل دیا تو اس پارٹی کے خلاف ہفوات بکنا اسے فرقہ پرست کہ کر مطعون کرنا اور الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوشش کرنا قانوناً درست نہیں ہے۔ ہاں ووٹرز کو اگر کسی مخصوص پارٹی میں خامیاں نظر آۓ تو ووٹرز آزاد ہیں ایسی پارٹی کو ووٹ دے یا نہ دے۔
اس لئے ضروری ہے کہ علماء و دانشور طبقے کے ارباب حل و عقد دیانت داری سے اپنی رائے دیں کہ اگر کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ کرنے سے غیر مسلم طبقے کی صف بندی ہو سکتی ہے تو مسلمانوں کا یہ تھینک ٹینک اور مسلم لیڈرز نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ساتھ تصادم کی بجائے الائنس کے لئے راضی کرائےـ
در اصل پچھلے چند سالوں سے ہندوستانی مسلمان دوراہے پر کھڑا ہے یا حالات نے لاکھڑا کیا ہے۔
جب ملک کی سب سے زیادہ طاقتور پارٹی مسلمانوں کو انتخابی سیاست میں عملا بے وقعت بنانے کی راہ پر چلی تو چونکہ انتخابی سیاست میں سر گنے جاتے ہیں۔اصول کی بہ نسبت تعداد کی زیادہ اہمیت ہوتی اس لئے دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو امیدوار بنانے اور ٹکٹ دینے میں معقول اور غیر معقول عذر کا سہارا لیا۔ ایک عذر ہے عدم قبولیت non acceptability یہ عذر اس وجہ سے معقول ہے کہ اب پارٹی کے نام پر کم اور امیدوار کی ذات اور مذہب کے نام پر زیادہ ووٹ کۓ جاتے ہیں۔ یہ کئ انتخابات کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ راجد کے ریاستی یا ضلعی صدر یا سکریٹری اگر مسلم امیدوار ہے تو یادو کا ووٹ مسلم امیدوار کی بجائے کسی بھی پارٹی عموماً بی جے پی کی طرف شفٹ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے مسلمان کا صرف مسلمانوں کے ووٹ سے جیت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے اور غیر مسلموں کے ووٹ ملنا اصولاً ممکن ہوتا ہے عملاً نہیں۔ اسی پر دوسرا عذر مرتب ہوتا ہے مسلم امیدوار کی جیت کے عدم امکان یعنی non winnablity .. اس لئے سیکولر پارٹیوں کے مطمح نظر جب کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہو تو مسلم امیدوار کو ٹکٹ دے کر رسک کیوں لے !
لیکن اگر یہ سیکولر پارٹیاں مسلم نمائندگی کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہوتیں تو اپنے کیڈر کو تاکید کرتیں کہ پارٹی کا امیدوار پارٹی کا امیدوار ہے خواہ اس کی ذات برادری اور مذہب کچھ بھی ہو۔
ان حالات میں مسلمان اس کشمکش کا شکار ہے:
١- بہتر نمائندگی کے لئے اگر اپنی الگ پارٹی یا آئیڈنٹیکل پولیٹیکس کرتے ہیں تو غیر مسلم تو غیرمسلم خود مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس پارٹی کو دوسری مسلم لیگ کا نام دے کر شدید مخالفت کرتے ہیں۔
٢- اگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حسب معمول تائید کرتے رہے تو نہ صرف ایوانوں میں نمائندگی میں کمی ہو رہی ہے بلکہ مسلم ایشوز پر نام نہاد سیکولر پارٹیاں منہ کھولنے سے بھی کتراتی ہیں مبادا ان پر مسلم منہ بھرائی کا الزام نہ لگ جائے۔
کیا مسلمانوں کا کوئی تھینک ٹینک ہے اگر ہے تو وہ اس کشمکش سے باہر نکلنے کا راستہ دیکھا سکتا ہے۔۔۔ کوئ بیچ کا ایسا راستہ جس سے ہماری سیاسی نمائندگی بھی ہو اور فرقہ پرستی کا الزام بھی نہ لگے۔
ممکن تو ہے مگر افسوس پولیٹیکل سائنس کے ماہرین، پروفیسر حضرات ، سیاسی تجزیہ نگار، صحافی اور سابق جسٹس صاحبان اور نامور وکلاء یا تو خاموش رہتے ہیں یا اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر دوسروں میں عیب نکال کر ان پر تنقید کرتے ہیں ۔ مثبت تنقید کا استقبال ہونا چاہئے لیکن عیب جو دانشوران کام کو صحیح سمت دینے میں اپنا بھی یوگدان دیں۔ ملی کام کسی کی جاگیر نہیں ہے اور نہ کسی ذات برادری طبقے کا اس پر مونوپولی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)