پان کھانے کی عادت برصغیر میں صدیوں سے چلی آرہی ہے ۔ایک زمانہ تھا امیر غریب چھوٹے بڑے سب کو پان مرغوب خاطر تھا۔البیرونی نے جہاں ہندوستان کی دیگر رسوم کا ذکر کیا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” اس ملک کے لوگ پان چونہ کے ساتھ کھاکر اور سپاری چباکر اپنے دانتوں کو سرخ کرتے ہیں”۔ پان کی تاریخی اور سماجی اہمیت ومقبولیت کے پیش نظر شعرااور ادبا نے پان کی قصیدہ نگاری میں خوب زور قلم صرف کیا ہے اور مختلف طریقوں سے اپنے اشعار میں پان کا ذکر کیا ہے۔
فارسی اور اردو شاعری میں سیکڑوں ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں مختلف تشبیہات اور استعارات کی صورت میں پان کا ذکر ہوا ہے۔ مصحفی غلام ہمدانی،حفیظ جونپوری،ارشد علی خان قلق،عبد الرحیم نشتر،ریاض خیر آبادی، اکبر الہ آبادی، میر تقی میر وغیرہم نے اپنے اشعار میں پان کا ذکر کیا ہےـ مؤخر الذکر نے تو بہت سارے اشعار پان کے ذکر سے مزین کیے ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ پان خوری کی عادت برصغیر میں صدیوں سے چلی آرہی ہے۔چھوٹے بڑے امیر وغریب سبھی شوق سے پان کھایا کرتے تھے۔ متعدد حکمران، سپہ سالار، اصحاب فکر ودانش، ادیب، علمااور مشائخ پان خوری کے رسیا رہے ہیں۔
علماۓ کرام ومشائخ عظام میں سے حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندی ،مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ،مولانا مناظر احسن گیلانیؒ،مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ وغیرہ جیسے اساطین علم وعمل پان شوق سے کھایا کرتے تھے۔مولانا ابوالکلام آزادؒ فرمایا کرتے:
"پان بغیر تمباکوکے کھانا،گناہ بے لذت ہے اور مذاق سلیم کی عدالت میں سنگین جرم!”
بہر حال علماۓ کرام کی پان خوری کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں یہاں اس مضمون میں امیر شریعتؒ کی پان خوری کے حوالے سے چند واقعات کی روشنی میں ان کی بھر پور زندگی کے اس پہلو پر نظر ڈالنا ہے۔
جناب جانباز مرزا شاہ جیؒ کی پان خوری کی عادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"پان کھانے کی سخت عادت ہوگئی تھی، لیکن بغیر تمباکو کے کھاتے، بازار میں چلتے پھرتے نہیں۔گھر میں یاتقریر سے پیشتر۔اس کا سامان بھی چائے کی طرح کبھی الگ نہیں ہوا تھا۔”
وہ پان خود بناتے،لوازمات خود شامل کرتے گلوری بناتے اور مزے سے منہ میں رکھ لیتے۔ متعدد ملاقاتیوں نے اپنے تاثراتی مضامین میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہم نے ان کواپنے بیٹھک میں بوقت ملاقات پان بناتے،لوازمات کو ترتیب دیتے پایا۔
چنانچہ شورش کاشمیریؒ لکھتے ہیں:
پان شروع سے کھاتے تھے ایک چھوٹا سا پان دان ساتھ رکھتے، چھالیا خود کاٹتے،چونا خود بناتے اور کتھابھی خود پکاتے تھے،اس پان خوری میں دانت بھی گھلا لیے تھے”۔
شاہ جیؒ کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں مزید لکھتے ہیں:
جب پان کھانے کی عادت پختہ ہوگئی تو تیلیوں کی ایک غریب الحال ٹوکری میں پانوں کی ڈھولی، چونا،کتھااور سپاری کی گولیاں کھدر کے ٹکڑوں میں لپیٹ لپاٹ کے رکھتے تھے۔
چائے کی طرح شاہ جیؒ نے پان کا تذکرہ بھی اپنے مکتوبات میں کیا ہے۔
چونکہ جیل کی فضا میں انسان کو وہ کچھ میسر نہیں ہوتا جو اسے مطلوب ہو اس لیے اکثر قیدیوں کی برسوں کی عادت غیر ارادی طور پر چھوٹ جاتی ہے۔لیکن پھر آزاد ہونے اور اس چیز کے میسرہونے پر دوبارہ وہ عادت عود کر آتی ہے۔
شاہ جیؒ سکھر جیل سے اپنی صاحبزادی ام کفیل بخاری کے نام اپنے مکتوب میں چائے اور پان کی عادت چھوڑنے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"چائے چھوڑ دی ہے اور کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔پان بھی چوبیس گھنٹے میں ایک دو دفعہ۔یہ دونوں مصیبتیں دور ہوگئی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل وکرم میرے حال پر ہے۔یہ ارادةً نہیں چھوڑیں بلکہ خواہش ہی جاتی رہی۔”
8مئی 1953ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں:
"باقی اللہ کے فضل سے چائے،پان،برف اس وقت تو سب سے نجات حاصل ہے اور کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔”
9جون1953ء کے مکتوب میں چائے اور پان کی برسوں کی عادت جیل کی محدود فضا میں ترک کرنے کی وجہ بتائے ہوئے لکھتے ہیں:
"چائے اور پان کا چھوڑنا بھی بلا وجہ نہ تھا۔کچھ دقتیں تھیں اور اس سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔اگر چہ برسوں کی عادت تھی۔دراصل ہماری کلاس، سی کلاس تھی۔آج دوتین دن ہوئے،ہمیں بی کلاس دی گئی ہے۔اس میں چائے وائے بھی مل جاتی ہے اور غذا میں بھی خاصا فرق ہے اور جو رعایتیں سیکورٹی قیدی کی حیثیت سے حاصل تھیں، وہ بھی بحال ہیں۔”
شاہ جیؒ نے جیل سے رہا ہونے کے بعد چاۓ نوشی اور پان خوری کی عادت ترک نہیں کی۔ برسوں کی عادت ایسی آسانی سے کیسے چھوٹ جاتی۔ ہاں آخر عمر میں پان خوری کا مشغلہ چھوڑ دیا تھا جس کا تذکرہ ان کے فرزند ارجمند کے حوالے سے اس مضمون کے آخر میں "ختامہ مسک” کے طور پر شامل ہے۔
پان میں زہر:
1942ءمیں ان کو شجاع آباد (ضلع ملتان)میں جلسہ کے دوران زہر دیا گیا۔گلے میں کثرت تقریر سے کچھ خرابی محسوس ہوئی ہوگی۔ایک احرار رضا کار سے کہا کہ پان بنوا لاؤ۔اتنا سنتے ہی کوئی مخالف اٹھا اور رضاکار سے پہلے پان کی دکان پر پہنچ کر پان لگوایا اور شیشی میں سے کچھ نکال کر اس میں ڈالا اتنے میں رضاکار نے پہنچ کر دکان دار کو پان لگانے کا کہا تو وہ شخص بولا یہ میں نے لگوایا ہے۔تمہیں جلدی ہے تم لے جاؤ میں اور لگوالیتا ہوں۔سادہ لوح رضاکار وہی پان لے کر آگیا اور اباجی کو دے دیا۔ رضاکار پر تو کوئی شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔اباجی نے پان لے کر منہ میں رکھ لیا۔پیک نگلتے ہی انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے اندر سے کوئی چیز کاٹ رہی ہے۔ہتھیلی پر تھوڑی سی پیک ڈالی تو ہتھیلی کالی ہوگئی۔رضاکار سے کہا کہ مجھے کیا ڈال کر دیا ہے؟ اس نے کہا میں نے خود نہیں لگوایا ہے اِس طرح ایک آدمی نے دیا تھا۔اُسی وقت لوگ پان والے کے پاس دوڑے گئے۔ اُس نے کہا میں نے کچھ نہیں ڈالا جس شخص نے لگوایا تھا،اُس نے شیشی میں سے کچھ ڈالا تھا،یہ ویسے ہی لے گیا۔پان تو اباجی نے تھوک دیا مگر شدید تکلیف شروع ہوگئی۔فرماتے ایسا لگتا تھا کہ انتڑیاں کٹ کر نکل جائیں گی۔جوں توں کر کے تقریر ختم کی اور قاضی احسان احمد صاحبؒ کے مکان پر پہنچے جہاں قیام تھا۔ڈاکٹر نے آکر کہا کہ زہر دیا گیا ہے۔قاضی صاحبؒ کے والد قاضی محمدامین صاحبؒ روتے پھرتے تھے کہ اگر میرے ہاں شاہ جیؒ کو کچھ ہوگیا تو میں کیا منہ دکھاؤں گا۔پھر اجابتیں اور قے شروع ہوگئی کچھ دن وہیں علاج کیا پھر لاہور لائے گئے۔ہم نے اخبار میں ہی پڑھا۔ لاہور میں حضرت مولانا احمد علی رحمة اللہ علیہ کے برادر نسبتی ڈاکٹر عبدالقوی لقمان صاحب کے زیر علاج رہے اور کافی دنوں بعد گھر آۓ۔بہت دن بخار اور قے میں مبتلا رہے اور انتہائی ناتواں ہوگئے۔
جس شخص نے زہر دیا اس کا نام سید عنایت اللہ شاہ تھا۔پولیس نے اسی رات اسے گرفتار کرلیا۔جب اسے اباجی کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"بھائی میں نے آپ کا کیا نقصان کیا تھا؟”
پھر پولیس افسر سے فرمایا:
"بھائی میں اس شخص سے کوئی انتقام نہیں لینا چاہتا میں نے اس سے معاف کیا تم بھی معاف کردو اور اللہ تعالیٰ بھی اسے معاف فرمائے”۔
ایک دفعہ شاہ جیؒ بیٹھک میں بیٹھے پان لگارہے تھے۔مولانا غلام مصطفیٰ صاحب بہاولپوری بھی موجود تھے۔انہوں نے از راہ تفنن کہا:
"شاہ جی ! اگر میری حکومت ہو تو پان سگریٹ پر پابندی عائد کردوں۔”
شاہ جیؒ نے شفقت ومحبت بھری نظروں سے مولانا کو دیکھا اور فرمانے لگے:
"بیٹا آپ نے بھی کرلی حکومت۔” اور پھر ایک واقعہ سنا ڈالا کہ احرار کے عالمِ شباب میں ایک بہت بڑے اجتماع سے میں مخاطب تھا اور احرار کے پروگرام کو پیش کر رہا تھا کہ”اگر احرار کی حکومت ہوئی تو چکلے بند اور فحاشی کا خاتمہ ہوجاۓ گا۔ شرابی،زانی اور چور وغیرہ کو شرعی سزائیں ملیں گی”۔ جلسہ میں ایک بوڑھا جو میری تقریر پوری دلجمعی اور ہمہ تن گوش ہو کر سن رہا تھا۔ فورا بول اُٹھا۔:
"ہاں شاہ جی! پھر آپ نے حکومت کرلی۔”
موضوع کی مناسبت سے یہ لطیفہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس کوامیرشریعتؒ کی صاحبزادی ام کفیل بخاری نے اپنی کتاب ” سیدی وابی”میں مولوی مظہرعلی اظہر کے تذکرہ میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
ایک دن اباجی نے لطیفہ سنایا۔مولوی مظہر علی اظہر صاحب کے ساتھ لاری میں سفر کر رہے تھے۔چھوٹی سی ٹوکری میں پان کا سامان ساتھ ہوتا تھا۔سیٹ پر ٹوکری رکھنے کی جگہ نہ تھی۔پان لگانا تھا، اس لیے پان کا ٹکڑا تو خود ہاتھ میں پکڑا اور ڈبا نما پاندان مولوی صاحب کو تھماتے ہوۓ کہا:
بھائی مظہر علی! تعاونوا علی البر والتقویٰ۔
مولوی صاحب نے ڈبا پکڑا اور چونے کتھے کے خانوں کی طرف انگلی کرکے کہنے لگے:
"اینہاں وچوں بِر کیہڑا اے تے تقویٰ کیہڑا اے؟”
(ان میں سے "بِر” کون سا ہے اور "تقویٰ” کون سا؟)
سید عطاءالمومن بخاریؒ فرزند امیر شریعتؒ فرماتے ہیں:
اباجیؒ کے آخری دنوں کی بات ہے روزانہ کے معمول کے مطابق سلیمی دواخانہ جانے کے لیے اُٹھے پان بنانے لگے۔اکڑوں بیٹھ کر ہتھیلی پر پان رکھا، لوازمات اوپر ڈالے اور پھر پان کو ہتھیلی پہ مروڑنے لگے چورا کرکے منہ میں ڈالتے تھے کہ دانت باقی نہیں رہے۔اچانک پتہ نہیں کیا خیال آیا پان کا چُورا کرتے کرتے غالب کا شعر گنگنانے لگے۔
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
شعر پڑھتے پڑھتے پان کا چُورا ہاتھ سے نیچے گرادیا اور پھر ہمیشہ کے لیے پان کھانا ترک کر دیا۔