سید شاہ حسین احمد صاحب کتاب ہی نہیں بلکہ خود ایک ایسی کتاب ہیں جس کے ہر صفحے پر محبت ، مودت، شفقت،عطوفت کی عبارت لکھی ہوئی ہے۔اس کتاب کے اوراق میں اتنے آثار و اسرار ہیں کہ دیدہ بینا سے ہی اس کا ادراک ممکن ہے۔ یہ شخصیت صرف ایک دائرے میں محصور نہیں بلکہ کئی سمتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔اس کی ایک جہت تصوف اور روحانیت ہے تو دوسرا زاویہ علم و ادب کا بھی ہے۔
شاہ حسین احمد کا تعلق ’درگاہ‘ (خانقاہ حضرت شاہ دیوان ارزانی ،پٹنہ) سے بھی ہے اور ’درس گاہ‘(ویر کنور سنگھ یونیورسٹی، آرا) سے بھی۔ان کا سلسلہ اس خانقاہ سے بھی ہے جس سے اردو کا قدیم رشتہ رہا ہے۔ جہاں نہ صرف اردو زبان کو پناہ ملی بلکہ بے پناہ پیار بھی ملا۔ جس کی وجہ سے یہ زبان عوام سے جڑتی گئی۔جو صرف عرفانیات کا مرکز نہیں بلکہ ادبیات کا گہوارہ بھی ہے۔ ان کا رشتہ اس درس گاہ سے بھی ہے جہاں علوم و ادبیات اور اسالیب زندگی سکھائے جاتے ہیں۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجوسید شاہ حسین احمد سے میری پہلی ملاقات بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے شہر دہلی میں ہوئی تھی ۔پہلی ہی نظر میں ان کی پر کشش شخصیت نے ایسا جادو کیا کہ آج تک میں ان کی ساحری میں قید ہوں ۔ برسوں بیت گئے مگر اس پہلی ملاقات کا لمس ابھی بھی زندہ اور تازہ ہے۔ درمیان میں ملاقاتوں کا سلسلہ توقف و تعطل کا شکار بھی رہا۔ مگر ان کی تحریروں سے ملاقاتیں جاری رہیں۔خانقاہ حضرت شاہ دیوان ارزانی سے شائع ہونے والے ان کے رسالہ سہ ماہی دیوان سے آنکھوں کا رشتہ جڑا رہا جو اپنے مشمولات اور محتویات کے اعتبار سے علم و ادب کا ایک معیاری اور موقر مجلہ ہے۔
سید شاہ حسین احمد عصر حاضر کے معروف محقق اور نقاد ہیں۔ ان کی بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں اردو کی مثنویاں (1987)، مطالعۂ راسخ (1990) خدا بخش کے اردو مخطوطات (1995)، تصوف عہد بہ عہد (2001)، احوال و آثار غلام مخدوم سرور (2012)، ادب و عرفان (2016)، تہہ خاک (2020)قابل ذکر ہیں۔ ان کی دو اور کتابیں ’بہار میں اردو شاعری 1857تک‘ اور ’فاعتبروا‘ ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بہت وقیع ہیں۔ پہلی کتاب کا تعلق اس بلدۂ بہار سے ہے جو علوم و فنون کا گہوارہ رہا ہے اورجس کی خاک پاک سے مرزا بیدل، سید عماد، راسخ، عبرتی، اثر اور شاد جیسی شخصیات کا تعلق رہا ہے۔ اس کی عظمتوں کے بہت سے حوالے بھی ہیں مگر تعصبات اور تحفظات کی وجہ سے اس کی عظمتوں کو نظر انداز بھی کیا جاتا رہا ہے۔جب کہ بقول اختر اورینوی:
’’ عہد قدیم میں بہار اپنشد کے برہم ودّیا کا گہوارہ رہا ہے۔ جین دھرم اور بدھ مت نے یہیں پرورش پائی۔‘‘
(بحوالہ: بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء)
انہی کے بقول :
’’یہاں نالندہ اور وکرم شیلا کی یونیورسٹیاں علم و ثقافت کا مینار تھیں۔ ‘‘ مگر تعصبات کی تاریکی نے ان روشن حوالوں کو بھی نگل لیا‘‘۔
یہاں میں اپنی ایک پرانی بات دہرانا چاہوں گاکہ ادب میں نا انصافیاں صرف افراد کے ساتھ نہیں بلکہ سرزمینوں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں۔ انہی میں بہار کی سرزمین بھی ہے ۔ تبھی تو اختر اورینوی جیسے روشن خیال ناقد کو یہ لکھنا پڑا کہ:
’’ اب تک اردو ادب کی جتنی بھی تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں بہار کی طرف سے نظر بچائی گئی ہے۔ اس میں کچھ تو بہاریوں ہی کا قصور ہے اور کچھ دوسرے صوبوں والوں کی تنگ دلی اور نا رسائی کا۔‘‘(بحوالہ: بہار اور اردو شاعری، مصنفہ: معین الدین دردائی)
اسی کے ازالے کے لیے یہاں کے کچھ محققین نے کوشش ضرور کی مگر بقول اختر اورینوی :
’’بہت سے جلوے زیر حجاب ہی رہے اور شاید آج تک ان محجوب جلوؤں سے آشنائی کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔‘‘
خدا بھلا کرے ان محققین اور مؤرخین کا کہ نا انصافی او رنظر انداز کیے جانے کی وجہ سے بیدار ہوئے اور بہار کی علمی اور ادبی عظمتوں کے نقوش تلاش کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچے کہ’’ دہلی اور لکھنؤ سے پہلے بہار نے اردو کی طرف توجہ کی۔‘‘ اور یہ بھی کہ:’’ حضرت امیر خسرو سے پہلے بہار میں اردو کا ہیولا تیار ہو چکاتھا۔‘‘ بقول معین الدین دردائی ایم اے علیگ: ’’لکھنؤ اور دہلی میں جب کسی اردو شاعر کا وجود نہیں تھا۔ اس وقت بہار میں کئی اردو شعرا موجود تھے۔ ‘‘
دردائی نے ایک اچھی بات یہ بھی لکھی کہ:’’ یہ فخر بہار کو ہی حاصل ہے کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب نے طرز بیدل میں ریختہ کہا اور میر تقی میر نے جعفر عظیم آبادی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔‘‘ اور یہ بھی فخر کی بات ہے کہ اردو لغت کی سب سے مستند کتاب فرہنگ آصفیہ کے مصنف سید احمد دہلوی صوبہ بہار کے ضلع مونگیر کے قصبہ بارو کے رہنے والے تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو بہار کی ادبی تاریخ اولیت اور عظمت کے بہت سے حوالوں سے روشن نظر آتی ہے۔ اسی لیے حمید عظیم آبادی نے کہا تھا:
بہار کی بھی ہے شرکت بہارِ گلشن میں
لہو سے ہم نے بھی سینچا ہے باغ اردو کو
سچ ہے کہ اردو زبان و ادب میں بِہار سے بَہار کے امکان روشن ہوئے ہیں۔ بِہار سے بَہار کا بہت گہرا رشتہ ہے غلام یحیٰ حضور کا ایک شعر ہے:
جو لوگ بولتے ہیں صوبہ بہار ہے یہ
بکسر بے غلط العام ، بَہارہے یہ
سید شاہ حسین احمد کی یہ کتاب بھی اسی بہار کی ایک بشارت ہے ۔ یہ بہار میں اردو شاعری کی ابتدائی تاریخ سے شناسائی کا ایک معتبر حوالہ اور دستاویز ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بہار میں اردو نثر اور شاعری کے تعلق سے جو تحقیقی گفتگو کی ہے وہ بہت وقیع ہے بہت سے ایسے یگانہ روز گار کے احوال و آثار انہوں نے درج کیے ہیں جن کا ذکر ادبی تاریخوں اور تذکروں میں نہیں ملتا۔ سید شاہ حسین احمدنے کچھ ایسی کتابوں کے حوالے سے ان کے کلام اور کوائف پیش کیے ہیں جن کا کسی محقق اور مؤرخ نے ذکر تک نہیں کیا ہے۔ انہوں نے بہار میں اردو نثر کے حوالے سے بہت اہم انکشاف کیا ہے کہ:
’’عشق علی شاہ عرف سعد اللہ شاہ کا لکھا ہوا فتاویٰ طریقت کا دیباچہ اردو کی پہلی نثری تحریر ہے۔‘‘انہوں نے بہار میں اردو نثر کے ابتدائی نقوش بھی تلاش کیے ہیں اور اس تعلق سے مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری سے لے کر1857کی نثری تحریروں کا جائزہ لیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اردو کے اولین فقرے صوفیائے کرام کے ملفوظات اور مکتوبات میں ملتے ہیں۔
انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے سارے ماخذ اور منابع کی جستجو کی۔اور بہار کی اردو شاعری کے ان پہلوؤں کو روشن کیا ہے۔ جو ہماری نگاہوں سے اوجھل تھے۔ ان کے مطابق ’’میر محمد باقر حزیں اردو شاعری کو بہار میں رائج کرنے والے پہلے شاعر ہیں۔‘‘ سید حسین احمد نے مختلف تذکروں کے حوالے سے ایسے لعل و گہر اورنجوم و جواہر کی جستجو کی ہے جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اس کتاب میں میر محمد باقر حزیں، دلدار بیگ دلدار شاہ آبادی، اشرف علی فغاں، میر منّوحیران عظیم آبادی، میر مرتضیٰ عظیم آبادی، میر غلام علی اظہر، میر ضیاء الدین حسین ضیاء، میر غلام حسین شورش، میر محمد سلیم، مرزا علی رضا تمنا، میر سید حیرت، میر وارث علی نالاں، خواجہ امین الدین امین، مردان علی خان مبتلا، خادم حسین خاں خادم، شاہ رکن الدین عشق، شیخ غلام یحییٰ حضور، طالب علی طالب، غلام حسن، شیخ محمد رضا نجات، اصالت خاں ثابت، میر ہدایت علی مائل، علی ابراہیم خاں خلیل، مرزا محمد علی فدوی، ہیبت قلی خاں حسرت، آیت اللہ جوہری، شاہ کمال علی کمال، شیخ غلام محمد دوست کے علاوہ 1801سے 1857تک کے شعراء میں محمد جعفر خاں راغب، منشی آسارام ذوق، شیخ محمد رفیع رفعت، محمد عابد دل، محمدقلی خاں مشتاق، میر محمد رضا، شیح غلام بنگالی عزت، راجہ بھوانی سنگھ گریاں، غلام مخدوم ثروت، عشق علی شاہ، کرم علی عاصی، غلام مرتضیٰ جنوں، میر محفوظ علی ہمدم، خواجہ محمد علی تمنا، محمد روشن جوشش، میر افضل علی نیاز، حمزہ علی رند، غلام علی راسخ، خواجہ امام بخش امامی، سید شاہ کریم بخش، خواجہ سلطان جاں، مہدی بخش تسلیم، سکھراج بہادر رحمتی وغیرہ کے احوال و اشعار شامل ہیں۔
سیدشاہ حسین احمد کی اس کتاب سے جہاں بہار کے بہت سے قصبات اور قریات کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ روشن ہوتی ہے۔ وہیں اس کتاب سے سیمانچل جیسے حاشیائی علاقے کی ادبی ثروت مندی کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پورنیہ جیسے علاقے سے میر محمد باقر حزیں کا رشتہ رہا ہے۔تذکرہ شورش کے مرتب محمود الٰہی نے لکھا ہے کہ:
’’دہلی سے روانہ ہونے کے بعد باقر حزیں کو شعر و شاعری کی خدمت کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ وہ اس کے بعد پندرہ سال سے زیادہ زندہ نہیں رہے اور اس مدت میں بھی انہیں عظیم آباد میں جم کر رہنا ممکن نہیں ہوا۔ انہیں ڈھاکہ اور پورنیہ میں قیام کرنا پڑا۔‘‘
ان کے بارے میں مزید یہ لکھا گیا ہے کہ :
’’وہ نواب صولت جنگ کے ہمراہ میر محمد وحید صاحب قبلہ کے وسیلہ سے پورنیہ چلے گئے اور وہاں انتقال کیا۔ حضرت شاہ مصطفی جمال الحق قدس سرہ کے روضہ میں چبوترے کے نیچے مدفون ہوئے۔ ‘‘
حزیں کے بارے میں شورش نے لکھا ہے کہ :
’’ریختہ کو سب سے پہلے بہار میں رائج کرنے والے حزیں ہی تھے۔‘‘میر باقر حزیں جن کا تخلص ظہور بھی تھا۔ مرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ ان کا شمار اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ مختلف تذکروں میں ان کا ذکر بھی ہے اور نمونۂ کلام بھی ہے‘‘۔
سید غلام حسین شورش کا بھی تعلق اسی سرزمین پورنیہ سے یوں رہا ہے کہ انہوں نے قیام پورنیہ کے دوران درد و الم اور باغ و بہار جیسی دو مثنویاں لکھیں۔ انہی کا تذکرہ رموز الشعراء تذکرۂ شورش کے نام سے مشہور ہے جس کا نسخۂ آکسفورڈ پروفیسر کلیم الدین احمد نے مرتب کیا ہے، تو نسخۂ جونپور کے مرتب ممتاز محقق پروفیسر محمود الٰہی ہیں۔ شورش کے اس تذکرہ کو کئی اعتبار سے انفراد و امتیاز حاصل ہے۔ بہار میں اردو شاعری کے آغاز اور نشو و نما کے تعلق سے اس تذکرہ سے جہاں بہت سی اہم معلومات فراہم ہوتی ہیں وہیں یہ بہار کا پہلا تذکرہ ہے جس میں بہار اور بنگال کے ان شعراء کو شامل کیا ہے جن کا ماقبل کے تذکروں میں ذکر نہیں ملتا۔ 1162سے 1167 تک شورش کا پورنیہ میں قیام رہا۔ اس کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے رنگین کے حوالہ سے اپنے تذکرہ میں یہ لکھا کہ:’’درپورنیہ دیوان او بنظر آمدہ بود‘‘شورش کا اردو دیوان چار ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ارشاد العارفین، احوال پادشاہان ہندوستان ان کی اہم کتابیں ہیں۔
پورنیہ سے ہیبت قلی خاں حسر ت کا بھی تعلق رہاجو نواب شوکت جنگ کے داروغہ دیوان تھے۔ یہ اتنے بڑے اہم شاعر تھے کہ حسرت موہانی نے ان کا انتخاب شائع کیا اور اسما سعیدی نے ان کا دیوان مرتب کیا۔ ہیبت قلی خاں حسرت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ:
’’حسرت میر باقر کے ہمراہ پورنیہ چلے گئے اور وہاں نواب شوکت جنگ بہادر کے دیوان خانہ کے داروغہ ہوگئے۔ اس کے بعد میر باقر کے بہن سے منسوب ہوئے۔‘‘ تذکرۂ شورش کے مطابق:’’عظیم آباد میں انہوں نے ہی سب سے پہلے ریختہ کی بنیاد رکھی۔‘‘
اس کے علاوہ میر محمد وحید اور میر محمد رضا جرأت جیسے شعراء کا تعلق بھی پورنیہ ہی سے ہے۔ ان کا انتقال بھی پورنیہ ہی میں ہوا۔ جرأت سید محمد وحید کے فرزند تھے اور شورش کے ماموں زاد بھائی۔ محمد رضا جرأت فارسی کے شاعر تھے۔ نظم و نثر میں مہارت تھی۔ تذکرۂ شورش میں جرأت کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ: ’’در پورنیہ جاں بجاناں دار نماز جنازہ حضرت پیر دستگیر قمرالحق خواندہ۔‘‘
بعض اور تذکروں میں مرثیہ گو شاعر علی قلی خاں ندیم، شیخ غلام بنگالی عزت،میر مستقیم جرأت، میر سلامت علی سلامت کا تعلق بھی پورنیہ سے بتایا جاتا ہے۔ندیم مرثیہ گو شاعر تھے۔ شورش کے بقول: ’’نواب شوکت جنگ کی جاں بخشی کی کارگزاری میں پورنیہ گئے۔ وہاں فارغ البالی سے رہے اور وہیں انتقال کیا۔‘‘ (بحوالہ: تذکرۂ شورش، مرتبہ و مترجمہ: عطا کاکوی، ص۔104)
شیخ غلام بنگالی عزت شاعر تھے، جنہوں نے ’جنگ نامہ‘ لکھا۔ ان کے بارے میں تذکرۂ شورش میں لکھا گیا ہے کہ:’’آخر میں پورنیہ میں تھے کہ مزاج میں وحشت سمائی اور صحرا کی راہ لی۔‘‘ (بحوالہ: تذکرۂ شورش، مرتبہ و مترجمہ: عطا کاکوی، ص۔80)
میر مستقیم جرأت کے بارے میں تذکرۂ شورش میں لکھا گیا ہے کہ: ’’از بعض تذکرہا بہ وضو پیوست کہ بسمت پورنیہ ترک لباس کردہ، بطاعات ایزدی می گزرانید۔‘‘ (بحوالہ: دو تذکرے، مرتبہ: کلیم الدین احمد، ص۔178)
انہی کا ایک مشہور شعر ہے:
ہر بُنِ مو سے مرے شعلہ نمایاں کردے
دل تو جلتا ہے پر اب سرو چراغاں کردے
میر سلامت علی سلامت کا بھی پورنیہ سے تعلق تھا۔ تذکرۂ شورش میں انہیں متوطن پورنیہ لکھا گیا ہے۔ انہی کے یہ اشعار ہیں:
تجھ ہاتھ سے کس کس کے لیے روئیے ظالم
سینہ میں نہ دل ہی ہے نہ جی ہے نہ جگر ہے
کعبہ کو چلوں شیخ ترے ساتھ میں کیوں کر
پھر ان دنوں دلدار کے کوچہ میں گزر ہے
سیدشاہ حسین احمدکی اس کتاب میں بہت سے ایسے شاعروں کے نام اور کلام ملتے ہیں جن سے شاید ہی زیادہ لوگ واقف ہوں۔بہار میں اردو شاعری کے تعلق سے کچھ اور کام بھی ہوئے ہیں۔بلخی نے شعرائے بہار پر کام کیا ، معین الدین دردائی نے بھی بہار اور اردو شاعری جیسی اہم کتاب لکھی۔ کلیم عاجز نے بھی بہار میں اردو شاعری کا ارتقاء1857سے1914تک تحریر کیا جو دفتر گم گشتہ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ شاہ حسین احمد کی یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور بہت سے اعتبارات سے تاریخ ادب اردو میں ایک بیش بہا اضافہ بھی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے کچھ ایسے شعراء اور ان کے کلام کی بازیافت کی ہے جو دوسرے محققین کی کتابوں میں نہیں ہے۔اچھا ہوا انہوں نے بہت سے شاعروں کے کلام اور کوائف سے شناسائی کی صورت پیدا کر دی ورنہ بہت سے شعراء ناقدری زمانہ کا شکار ہو کر دشت گمنامی میں کھو جاتے ۔ اور یوں بھی قدر شناسی کے معاملے میں بہار قدرے بخیل ثابت ہوا ہے ۔ تبھی تو شاد عظیم آبادی جیسے شاعرکو یہ شکوہ تھا:
میں وہ موتی ہوں تیرے دامن میں اے خاک بہار
آج تک دے نہ سکا کوئی بھی قیمت میری
لگا سکے میری قیمت نہ جوہری اے شاد
وہ کم نگاہ تھے اور لعل بے بہا ہم تھے
عرش گیاوی جیسی شخصیت کو بھی کچھ اسی طرح کی شکایت تھی:
وہ عرش آج دھوم ہے جس کی زمانے میں
گمنام آدمی تھا ہمارے بہار کا
عرش روئیں گے زمانے تک مجھے اہل بہار
غم نہیں جو آج توقیر ہنر ہوتی نہیں
یہ حقیقت ہے کہ بہار کی اس قدر ناشناس ذہنیت کی وجہ سے یہاں کے بہت سے جلیل القدر افراد گوشہ گمنامی میں زندگی بسر کر تے رہے۔ ضرورت ہے کہ بہار کے قصبات و قریات میں جومقتدر شخصیات ہیں ان کی تلاش و جستجو کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ بہار کی ایک مربوط اور مبسوط ادبی تاریخ مرتب کی جا سکے۔
سیدشاہ حسین احمد کی دوسری کتاب فاعتبرو(2013) ہے۔ اس کتاب میں تذکرۂ ماہ و سال :ایک جائزہ ، ڈاکٹر اسماء سعیدی کا تھیسس، ڈاکٹر احمد حسن دانش کا تھیسس، ڈاکٹر گیان چند جین کا تھیسس، کلیات چکبست: ایک جائزہ، مولانا شہباز بھاگلپوری: ایک جائزہ، تذکرۂ شورش : مرتبہ، کلیم الدین احمد، حیات راسخ کے چند پہلو، تذکرہ مدائح الشعراء، پٹنہ کے کتبے جیسے مضامین شامل ہیں جن میں انہوں نے بہت سے مایہ نازمحققین کے تسامحات کا استدراک کیا ہے اور اغلاط کی نشان دہی کی ہے ۔ یہ تمام مضامین ان کی تحقیقی ریاضت اور مطالعاتی وسعت کے غماز ہیں کیوں کہ اس کتاب میں انھوں نے بہت سے معتبر محققین کے تسامحات کی سخت گرفت کی ہے اور مستند مآخذ اور مصادر کے ذریعے ان کے معروضات اور مفروضات کو غلط ثابت کیا ہے۔ انھوں نے مالک رام ، گیان چند جین اور کالی داس گپتا جیسے محققین کی تحقیقات عالیہ کی بھی بخیہ ادھیڑ دی ہے ۔ ماہر غالبیات مالک رام کے تذکرۂ ماہ وسال میں سنین ولادت و وفات میں جو غلطیاں در آئی ہیں ان کی تصحیح کی ہے۔ انہوں نے اسے اغلاط کا دفتر بے پایاں قرار دیا ہے۔ اسی طرح گیان چند جین کی تحقیقی خامیوں کو نشان زد کیا ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں تذکرۂ شورش ،بہار میں اردو مثنوی، حیات راسخ وغیرہ کا تحقیقی محاسبہ کیا ہےاور یہ واضح کیا ہے کہ تحقیق در اصل حق کی تلاش سے عبارت ہے ۔ اس کی بنیاد ہی تشکیک، تفحص اور تجسس پر ہے۔ تحقیق میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ انہوں نے ایک محقق ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے Cross Verificationکی ہے اور باز تفتیش کے ذریعے واضح کیا ہے کہ ہمارے معتبر محققین بھی کس طرح غلطیوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور لوگوں کو گمراہ بھی کرتے رہے ہیں۔ سیدشاہ حسین احمد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اصلی مصادر کے بجائے ثانوی مآخذ پر انحصار سے کیسے غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ مثالی اور معیاری تحقیق کیسے کی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہ عجلت پسندی اور تساہل کی وجہ سے تحقیق کا معیار مجروح ہوتا ہے۔ اس کتاب کے بیشتر مضامین پڑھتے ہوئے مجھے اپنا مضمون ’’زوالِ تحقیق ‘‘یاد آ گیا۔ جس میں یہ لکھا گیاتھا کہ تحقیق کے بین علومی پیرا ڈائم ، کلاسیکی زبانوں اور روایتی علوم سے عدم آگہی کی وجہ سے تحقیق اپنا اعتبار کھوتی جا رہی ہے، اس لیے لایعنی موضوعات پر مقالات کے انبار لگائے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے عہد میں میرکی چٹائی کے طول و عرض ، غالب کے کمبل کے کھٹمل پر تحقیق کی جاتی ہے۔ مشفق خواجہ نے زوالِ تحقیق کے حوالے سے لکھا تھا کہ ایک صاحب نے عمر عزیز کے دس سال اس مسئلے کو حل کرنے میں صرف کر دیے کہ میر نے لکھنؤ سے دہلی کا سفر پا پیادہ طے کیا تھا یا گاڑی کے ذریعے لیکن وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ دراصل اسی نوع کی تحقیق سے اردو تحقیق کا معیار اور منہج مجروح اور مسخ ہوا ہے۔ سیدشاہ حسین احمد کی یہ کتاب اسی زوال تحقیق کی نشان دہی کرتی ہے جس کی طرف انہوں نے حرف اول میں یوں اشارہ کیا ہے:
’’تحقیق اور اصول تحقیق پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود نہ تو یونیورسٹی کے اندر اور نہ اس کے باہر اچھے تحقیقی کام ہو رہے ہیں۔ جب کہ ہر ایک سال ایسے سیکڑوں تحقیقی مقالے لکھے جاتے ہیں، جن پر دانش گاہوں سے پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی اعلیٰ ترین ڈگریاں ملتی ہیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کی فضا تحقیق اور کم از کم اردو تحقیق کے لیے بالکل سازگار نہیں ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے اور نہ کسی ایک یونیورسٹی کی بات ہے، بلکہ ’’ایں گناہیست در شہر شما نیز کنند‘‘، ہر دور اور ہر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کے لیے ایسے ہی مقالے لکھے گئے ہیں جن میں بے شمار غلطیاں راہ پاگئی ہیں۔‘‘
سید شاہ حسین احمد نے درایت اور دیانت کے ساتھ تحقیقی مقالوں کا احتساب کیا ہے۔ اس سے ان کی تحقیقی بصیرت اور مطالعاتی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں کتابوں سے میری معلومات میں جہاں بہت اضافہ ہوا، وہیں ایک بہت بڑی غلط فہمی کا بھی ازالہ ہوا کہ میں سیدشاہ حسین احمدکو خانقاہ شاہ ارزانی کا رحم دل سجادہ نشین اور صوفی سمجھتا تھامگر وہ تو نہایت سخت گیر اور شخصیت شکن محقق و ناقد نکلے۔
شخصیت شکن ناقد و محقق سید شاہ حسین احمد-حقانی القاسمی
previous post