Home ستاروں کےدرمیاں سیدسیفیؔ ندوی (ہمدم دیرینہ پروفیسر ابو بکر احمد حلیم پرو وائس چانسلر اے ایم یو ،علی گڑھ ) – ڈاکٹر نسرین بیگم علیگ

سیدسیفیؔ ندوی (ہمدم دیرینہ پروفیسر ابو بکر احمد حلیم پرو وائس چانسلر اے ایم یو ،علی گڑھ ) – ڈاکٹر نسرین بیگم علیگ

by قندیل

ایسو سی ایٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو، بیکنٹی دیوی گرلس پی جی کالج

ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
وہ کل جہاں سب کچھ تھا ۔بہاریں آئیں اور آکر چلی گئیں ۔وہ گزرے ہوئے زمانے کتنے قیمتی اور خاص ہوتے ہیں۔جن کے سہارے ہم اپنی زندگی کے سفر کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔تب تک ،جب تک سانس باقی ہے۔ بچپن کا وہ زمانہ اور پھر جوانی کے دن والدین کی بے لوث محبت، ان کی سر پرستی اور ماضی کی یادیں ۔جب بھی اس مصروف زندگی سے تھوڑا الگ ہٹتی ہوں ،تو بے شمار گزری یادیں اور باتیں یاد آنے لگتی ہیںاور دل تڑپنے لگتا ہے ۔
جب اماں (خدیجہ بیگم) وہ ساری باتیں بتاتی تھیں۔ ہم بھائی بہن میں کوئی کان دھر کے سننے والا نہیں تھا۔وہ بہت کچھ بتانا چاہتی تھیں ۔ ہمیں توان کی باتیں سننی بہت اچھی لگتی تھیں۔جب ہماری اماں وہ ساری باتیں ہمیں بتاتی تھیں۔میں بہت غور سے ان کی باتوں کو سنتی تھی۔آج وہی باتیں ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ سے کم نہیں ہے۔کم سے کم کچھ ماضی کی تاریخ تو دل ودماغ پر نقش ہے۔
ہم اس تاریخ کو بھی جانتے ہیں ۔جب ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے کتنے لوگ شہید ہوگئے،کتنے گھر ویران ہو گئے ،کتنی ماؤں کی گود سونی ہوگئیں۔ اس وقت لوگوں میں اپنے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کا ایک جنون تھا ۔مائیں اپنے بچوّں کو وطن عزیز کے لیے قربان کر دینا اپنی خوش نصیبی سمجھتی تھیں ۔اس جنون کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزوں کی دو سو سال کی غلامی کے بعد ہندوستان آزاد ہو گیا۔مگر آزادی کے فورـاًبعد کا وہ زمانہ جو بٹوارہ کی شکل میں سامنے آیا اور بسے بسائے گھر کے گھر اجڑ اور بکھرگئے ۔شاید ایسا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ نفرت کی دیوار ہمارے درمیان کھڑی ہو جائے گی اور ہم اپنوں سے دور ہو جائیں گے۔ وہ حویلیاں جو کل تک آباد تھیں شکستہ اور بوسیدہ ہوجائیں گی۔ لوگ مصائب وآلام میں گرفتار ہوجائیں گے۔ یہ زخم ناسور بن جائے گااور ہم اپنوں کو یاد کر کے تڑپتے رہیں گے۔ کیوں کہ تقسیم ہند جو ہندوستان کی تاریخ میں ایک عظیم سانحہ ہے۔اس تقسیم نے صرف ملکوں کا بٹوارہ ہی نہیں کیا بلکہ رشتوں کا بھی بٹوارہ کر دیا ہے ۔خاندان کے کچھ لوگ ادھر اور کچھ لوگ ادھر چلے گئے ۔جن لوگوں نے اس بٹوارہ کو دیکھا ہے ،اس درد کو سہا ہے ۔اپنے خون کے رشتوں کو پوری زندگی کے لیے نہ مل پانے کا غم برداشت کیا ہے ۔اس تڑپ کا اندازہ ہر کسی کو نہیں ہو سکتا ۔جس پر بیتی ہو، جس نے آنسوؤں سے اپنے دامن بھگوئے ہوں،یہ درد صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں ۔
اماں(خدیجہ بیگم )نے اس درد کو سہا اور برداشت کیا تھا۔وہ ساری باتیں ہمیں بتاتی رہتی تھیں ۔میں نے یہ محسوس کیاکہ ان گزری باتوں کو بتا کر ان کا دل تھوڑا ہلکا ہو جاتا تھا۔ جیسے انھیں کچھ سکون مل گیا ہو ۔ان کے اپنے جو ان سے دور چلے گئے تھے ۔اماں کی ساری باتیں ہمیشہ ہمارے دل و دماغ میں رہتی ہیں اور وہ ان ماضی کے نشانات کی تلاش میں رہتیں۔ بٹوارے میں تو سب کچھ برباد ہو گیا۔ ان دستاویزوں کو کون بچاتا۔کچھ رسالے اماںنے سنبھا ل کر رکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے وہ رسالے ہمارے سپرد کر دئیے ۔بولیں، تم ان رسالوں کی اہمیت سمجھتی ہو ۔اپنے پاس رکھو ۔تمہارے کام آئیں گے۔
وہ رسالہ ماہوار، انتخاب ، لکھنؤ تھا۔جس کے ایڈیٹر سیفی ندوی تھے ۔یہ مجلہ علمیہ ادبیہ انتخاب لکھنؤ مرکز انتخاب امین آباد پارک لکھنؤ، فروری ۱۹۳۴ ء جلد ایک نمبر ایک ہے ۔ اسسٹنٹ ایڈیٹر شفیقؔشاہ پوری ہیں۔ سیداسلام الحئ سیفی ندوی مدیر انتخاب ہمارے بڑے ماموں تھے ۔اس رسالے کو دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔
رسالہ ماہوار انتخاب میں جن حضرات کے مضامین شامل ہیں ان میں نواب سید علی حسن خاں صاحب ،متخلص بہ طاہر ؔ،جگرؔ مراد آبادی ، رئیس التحریر حضرت نیاز فتح پوری، زیبا فیض آبادی ایڈیٹر جوہر ؔ،جوش ؔملیح آبادی ،ڈاکٹر محمد امین خاں، سیفیؔ ندوی ،مدیر انتخاب ،شوکت تھانوی ، ایڈیٹر شباب و سر پنچ ، عمر انصاری مدیر صائقہ ، شہنشاہ حسین رضوی ایڈیٹر خیاباں ،حامد اللہ افسر میرٹھی ،حضرت عمرانصاری مدیر صائقہ، شہید بدایونی سید مقبول حسین احمد پوری بی اے ،میر زا جعفر علی خاں اثر لکھنوی،سیفی ؔندوی ،رباعیات سیفی،،شاد عارفی رام پوری ،فاروق صاحب سہیل لکھنوی ،مس حجاب اسمٰعیل، شاہ ابوالمسعودفصیحی،سید ابو محمد مبارک ،سید صمصام الحئ شاہجہاں پوری ،ملامل،رفیق لکھنوی ،شرر ندوی ،نادر لکھنوی، شاد غازی پوری ،واقف بسوانی ،رند لکھنوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔(۱)
رنگینیاں جو حسن ازل کی تھیں جا بجا
سب کھینچ کے آگئیں نگہ انتخاب میں
سید اسلام الحیّ سیفی ندوی ، مدیرانتخاب ہمارے بڑے ماموں تھے۔ اس رسالے کو دیکھ کر میں حیرت میں پڑ گئی ۔ اسی رسالے میں ایک چھوٹا سا مضمون پڑھا ۔ جو ہمارے چھوٹے ماموں سید صمصام الحئ کا لکھا ہوا تھا۔ ۱۹۳۴ء میں وہ درجہ ششم میں گور نمنٹ ہائی اسکول،بلیا میں پڑھ رہے تھے۔ ان کی اس تحریر کو پڑھ کر ہمارے اندر مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ یہ سوچ کر کہ ایک چھٹی درجہ کا بچہ، اس کی ایسی سوچ۔ دیکھیے وہ بچہ کیا لکھتا ہے :
’’ کتاب ہمیں طرح طرح کی باتیں بتا تی ہے اور گھر بیٹھے بیٹھے ملکوں ملکوں کی سیر کراتی ہے ۔قسم قسم کے گن اور ہنر سیکھاتی ہے ۔ہم اگر کسی شخص سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو طرح طرح کی خوشامدیں کرنی پڑتی ہیں اور دبائو برداشت کرنا پڑتا ہے ،لیکن کتاب ہم کو تمام باتیں بے عذر اور بے احسان سکھاتی ہے ۔ہم کو بھی اسی سے لو لگانا چاہیے‘‘۔(۲)
تعلیم کا جنون ہی چھوٹے ماموں سید صمصام الحئ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک لے آیا ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبۂ انگریزی کے مشہور پروفیسر نقاد ،ماہرِ اقبالیات و غالبیات اسلوب احمد انصاری صاحب جو اردو اور انگریزی پر یکساں عبور رکھتے تھے ۔علی گڑھ میں ماموں کے ساتھیوں میں تھے ۔چھو ٹے ماموں اعلی تعلیم کے بعد مختلف ملکوں کا سفر کرتے ہوئے لندن پہنچے اورLondon School of Economics ,London میں درس و تدریس کا کام انجام دینے لگے ۔انھوں نے اپنی پوری زندگی اپنے اہل و عیال کے ساتھ لندن میں ہی گزاری۔
علی گڑھ جن لوگوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ان میں پروفیسر آل احمد سروراردو زبان و ادب کے ممتاز ادیب و نقاد، پروفیسر اسلوب احمد انصاری معروف نقاد و ممتاز محقق غالب شناس اور ماہرِ اقبالیات ،پروفیسر ابوالحسن صدیقی سابق پرووائس چانسلر اے ایم یو ، نامورماہرِ ریاضی ،ڈیوٹی سو سائٹی کے کیپر،جوہمارے لوکل گارجین بھی تھے۔جنھیں ہم بھائی صاحب کہتے تھے۔ یہ لوگ جب بھی لندن جاتے تو ماموں کے ہی مہمان ہوتے تھے ۔انھیں شخصیات کی وجہ سے میں علی گڑھ تعلیم حاصل کرنے آسکی۔ اسلوب احمد انصاری صاحب سے ماموں نے ہمارا ذکر کیا کہ ہماری بھانجی بھی وہاں پڑھ رہی ہے ۔لندن سے واپس آنے پر انھوں نے ہمیں بلوا بھیجا کہ میں ملنا چاہتا ہوں ۔اس وقت میں ایم اے ( اردو) کر رہی تھی ۔کہنے لگے ۔۔۔میں تمہارے ماموں سے مل کر آرہا ہوں۔کسی طرح کی کوئی ضرورت ہو تو بتانا۔۔۔ میرے لیے وہ دن بہت خاص تھا ۔جسے میں ہمیشہ یاد رکھتی ہوں ۔ہماری تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا ۔بی ایڈ کے بعد ایم فل کرنے لگی ۔مولانا آزاد لائبریری پابندی سے جاتی تھی ۔
اس وقت میں ماہنامہ تہذیب الا خلاق و نشانت، اے ایم یو کے ماہنامہ نشانت، کی اسسٹنٹ ایڈیٹر تھی ۔نشانت کے بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سیدحامد صاحب تھے ۔ نشانت ،سر سید کے تہذیب الا خلاق کا ہندی روپ تھا۔تہذیب الاخلاق میں شائع ہونے والے مضامین کے ترجمے ہوتے اور نشانت میں شائع کیا جاتا۔صحافت سے ابتداء سے ہی ہمیں خاص دلچسپی رہی ہے ۔میں نے رسا لہ آج کل ،د ہلی کی تلاش میں مولانا آزاد لائبریری کے اردو سیکشن میں خاصا وقت گزارا ۔
رسالہ آج کل جوش ؔملیح آبادی کی ادارت میں نکلتا تھا۔ ہمارا ایم فل کا موضوع جوشؔ کی نثری خدمات پر تھا۔ آج کل کا شمارہ دیکھتے دیکھتے ہی ایک دوسرا رسالہ ، علم و ادب، دہلی مدیر سیفی ندوی ،ماہ جنوری ۱۹۴۱ ء پر نظر پڑگئی ۔(۳) سیفی ندوی دیکھ کر میں خوش ہوئی ۔مگر یقین نہیں آرہا تھا ۔ یہ ہمارے بڑے ماموں ہی ہیں یا پھر کوئی اور ہے۔ رسالہ لے کر بیٹھ گئی اور بغور دیکھنے لگی ۔اس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ارے یہ تو ہمارے بڑے ماموں ہی ہیں میں علم و ادب کو بغور دیکھنے لگی یہ رسالہ ماہ جنوری ۱۹۴۱ء، جلد ۲، شمارہ ۱ تھا۔ ادارہ علم و ادب کے مالک و مدیر مسئول سیفی ندوی مہتمم دفتر عزیز اندوری، مدیران اعزازی و معاونین مدیر علامہ کیفی چریاکوٹی، ڈاکٹر امیر حسن صاحب صدیقی ،محترمہ نور صاحبہ بدایونی ،مولانا حسن مثنی ندوی پھلواری ،جناب نسیم چغتائی، سید صمصام الحئ و اسرار احمد علیگ تھے ۔رسالہ علم و ادب کے اشاعت کے سلسلے میں سید سیفی ؔ ندوی مافی الضمیر میں لکھتے ہیں:
’’میں علم و ادب کی ابتداء کیوں کی؟ اسی لیے کہ بلند ترین معیار علم و ادب کی پرورش کی جا سکے ؟ پھر اگر مقصد وقیع کے اعتبار سے رسالے میں کسی قدر کا اضافہ اور دقت پسندیوں کے لحاظ سے کچھ امعان نظر کی دعوت اپنی حد سے بڑھ گئی تو میں اس کے لیے بھی مستحق ملامت نہیں سمجھا جا سکتا اور اگر اس قسم کی معیارپروری میں کوئی کمی رہ گئی تو اس پر بھی اپنے کو قابل سزا نہیں سمجھتا اس لیے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر اس قسم کی ٹھوس خدمات کی طرف اور موجودہ بازار کی مانگ سے بالکل بے نیاز ہوکر وادئے تلخ اور مقویات بے مزہ کی جانب آج اگر کوئی توجہ کرے تو ظاہر ہے کہ ایک طرف احباب کی تائید میں بہت کم ساتھ دیں گی تو دوسری طرف خود وہ توجہ کرنے والا نفسیاتی اعتبار سے وہی ہوگا جس کے دل میں قوم وملت کا درد اور خدمت کی صحیح تڑپ ہو اور جب تڑپ ہوگی تو روشن ہے کہ ملیـ وسیاسی کاکنوں کی کمی کی وجہ سے ایک ایک دماغ و دل پر اتنا بار خدمت ہوگا جس کاسنبھالنا مشکل ہو‘‘۔ (۴)
رسالہ علم و ادب جو خالص علمی و ادبی رسالہ ہے ۔اس رسالہ کو نا مساعد حالات میں نکالنا بے حد مشکل کام تھا۔ چوںکہ سیاسی حالات بھی سازگار نہ تھے اور ان حالات کا سامنا بھی کرنا تھا ۔ان حالات میں جن لوگوں نے اس رسالہ کا ساتھ دیا ان کے متعلق سید سیفیؔ ندوی مافی الضمیر میں لکھتے ہیں:
’’ ہاں!اب تک علم و ادب کو جن لوگوں سے واسطہ پڑا اور جن اکابر کی تائیدیں اسے حاصل ہوئیں جی چاہتا ہے ان کا شکریہ بھی کچھ بہ اندازطرفین ادا کروں لیکن میرے نزدیک زندگی کا سب سے اہم فریضہ یہی ہے جس کے لیے اپنے کو بحالت موجودہ صالح نہیں پاتا۔ لہٰذا اس مرحلے کو بھی آئندہ اشاعت کے لیے چھوڑتا ہوں ۔جو فروری کی پہلی کو بہ پابندئ وقت ارسال خدمت کر دیا جائے گا۔ انشااللہ ‘‘ ۔(۵)
اس رسالہ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوا کہ جن اکابر کی تائیدیں حاصل تھیں ان میں سب سے اہم نام پروفیسر ابو بکر احمد حلیم پرو وائس چانسلر اے ایم یو ،علی گڑھ کا تھا ۔ رسالہ علم و ادب، دہلی کے صفحہ نمبر پانچ پر جب نظر ٹھہری تو دیکھا کہ پروفیسر ابو بکر احمد حلیم صاحب بیرسٹر لاء ،پرو وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا علم و ادب کے لیے بعنوان ایک شگفتہ پیام، تحریر ہے ۔پروفیسر ابو بکر احمد حلیم صاحب رسالے کے بارے میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں :
’’دہلی ہمیشہ سے علم وادب کا مرکز رہی ہے۔ایسی جگہ سے ایک بلند معیاری خالص علمی وادبی رسالہ کا اجراء ضروری تھا اور اب اس سے زیادہ اچھی خبر کیا ہوگی کہ میرے محترم دوست مولانا سیفی ندوی صاحب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مناسب اقدام کی طرف توجہ فرمارہے ہیں۔۔۔‘‘۔(۶)
پروفیسر ابو بکر احمد حلیم صاحب پرو وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دعوت پر سید سیفی ندوی علی گڑھ تشریف لائے تھے اور اپنی تقریر سے لوگوں کو بے حد متاثر کیا تھا ۔اس تقریر اور اپنی دوستی کے بارے میں پروفیسر ابوبکر احمد حلیم صاحب لکھتے ہیں :
مولانائے موصوف سے میری ملاقات گویا پُرانی ہو چکی ۔گزشتہ سال مجلس تاریخ و تمدن (مسلم یونیورسٹی ) کے سالانہ اسلامی ہفتہ کے موقع پر میں نے آپ کو ایک مشہور اور بلند پایہ مقرر کی حیثیت سے دعوت دی اور مولانا نے میری دعوت پر یوپی کے مشرقی سرحدی ضلع بلیا سے زحمتِ سفر گوارا فرمایا۔ ’’اسلامی قانونی معاشرت ‘‘ کے عنوان سے رامپور حامد ہال میں ایک بصیرت افروز اور عالمانہ تقریر فرمائی جو بہت زیادہ دلچسپ رہی اور عام طور پر بے حد پسند کی گئی ۔میںخود بھی اس تقریر سے بہت متاثر و مستفید ہوا ‘‘۔(۷)
رسالہ علم و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے بھی پروفیسر حلیم صاحب فکر مند تھے۔ جیسا کہ ان کی تحریرسے ظاہر ہوتا ہے۔ علم وادب کے بارے میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں اور سیفی ندوی صاحب کی قلمی صلاحیت کی پذیرائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اکثر و بیش تر مختلف ملکی و سیاسی اور علمی و ادبی مباحث پر مولانا سے گفتگو کرنے کا مجھے موقع ملتا رہا، آپ کے مضامین پڑھے ،کلام و اشعار سے لطف اُٹھایا اورعلم و ادب کا ماضی الضمیر تو خود مولانا نے پڑھ کر سنایا ،جن کی بنا پر میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مولانائے موصوف جو ایک با وقار عالم دین، متبحر(علم کا دریا)اور فاضل ادیب،ایک قادرالکلام شاعر، دردمند و ایثار پیشہ صاحب سیاست اور ماہرِ تجربہ کار اہلِ قلم و نکتہ داں صحافت ہونے کے علاوہ از حد مخلص صائب الرائے متین اور دور رس انسان ہیں ۔احباب جن کی عزت کرتے ہیں اور مشاہیر و اکابر ملک جنھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایسا شخص اگر علمی و ادبی خدمات کی طرف متوجہ ہو تو اسے بزم علم و ادب کی خوش نصیبی ہی کہنا چاہیے ‘‘۔(۸)
پروفیسر حلیم صاحب کی قلم سے نکلے ہوئے گراں قدر یہ جملے پڑھ کر اپنے دل کی کیفیت اور خوشی کا اظہارکر پانا ہمارے لیے مشکل ہے ۔اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ہم نے پروفیسر حلیم صاحب کے بارے میں مزید معلومات کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ ماہرِ تعلیم ہیں ۔ آپ کی ولادت ۱۸۹۷ ء میں بہار میں ہوئی ۔پٹنہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعداعلی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے بعد ۱۹۲۱ ء میں ہندوستان آئے اور علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے اپنے کیر یر اور تدر یسی سفر کا آغاز کیا اور۱۹۲۳ ء میں شعبۂ تاریخ اور پولیٹیکل سائنس میں پروفیسر مقّرر ہوئے ۔۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۴ء تک صدر شعبۂ تاریخ اور پرو وائس چانسلر کے عہدے کی ذمہ داری نبھائی ۔اس وقت ڈاکٹر ضیاء الدین احمد وائس چانسلر تھے ۔۱۹۳۸ء میں شاہ سلیمان وائس چانسلر ہوئے اور ۱۹۴۲ء میں ڈاکٹر ضیا الدین صاحب دوبارہ وائس چانسلر ہوئے اور حلیم صاحب نے پورے دس سال تک پرو وائس چانسلر کی ذمہ داری سنبھالی اور ۱۹۴۴ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور یہیں سے اپنے سیاسی کیریر کی ابتداء کرتے ہوئے سیاسی میدان میں قدم رکھا ۔جس مقام پر رہے علم کی شمع کو جلائے رکھا ۔وہ بر صغیر ہند و پاک کے معروف و ماہرِ تعلیم اور تاریخ داں تھے ۔پروفیسر ابو بکر احمد حلیم کے علمی کارناموں اور ذہانت کے اہلِ علم و دانش ور قائل تھے۔۱۹۴۰ ء میں پونے میں ہونے والے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کی ذمہ داری نبھائی اور ۱۹۴۲ء میں ہندوستان کی انٹر یونیورسٹی بورڈکے چیرمین کے عہدے پر فائز رہے ۔
تہذیب الاخلاق کے مشاہیر علی گڑھ پاکستان میں ظل احمد نظامی صاحب کا مضمون نظر سے گزرا ۔جس میں انھوں نے ادارئہ سر سید کے سپوتوں جنھوں نے اپنا ہی نہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام روشن کیا تھا ۔ان میں پروفیسر ابوبکر احمد حلیم صاحب کے بارے میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں:
’’ پروفیسر حلیم ان مایہ ناز اساتذہ میں سے ہیں جو علی گڑھ اور اس کے بعد پاکستان میں بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔۔۔ان کا یونیورسٹی سے اتنا طویل تعلق رہا کہ ان کے عہد میں کم سے کم دو نسلوں نے تعلیم حاصل کی اور اکثر لوگ انھیں پروفیسروں کے پروفیسر کہتے تھے ۔درس وتدریس کے علاوہ انھوں نے یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لی ۔ آزادی کے بعد وپاکستان منتقل ہو گئے۔سندھ اور کراچی یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی۔ جہاں وہ کافی عرصہ تک وائس چانسلر رہے‘‘۔(۹)
تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۷ء میں سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بنے ۔۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۱ء تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔
اس کے بعد کراچی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ اپنی پوری زندگی علمی کام کرتے ہوئے گزاری، اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ آخر ۲۰؍ اپریل ۱۹۷۵ ء کو کراچی، سندھ پاکستان میں پروفیسر ابو بکر احمد حلیم صاحب کا انتقال ہوا۔ان کا نام ان کے کارناموں کے سبب ہمیشہ زندہ رہے گا۔ صدیاں گزرجانے کے بعد ابو بکر حلیم جیسی شخصیت اس سرزمین پر پیدا ہوتی ہیں ۔
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
رسالہ علم و ادب، دہلی کے علاوہ ایک اور رسالہ ہمیں والدہ سے حاصل ہوا تھا ۔وہ ماہنامہ امام ،کراچی جو علامہ سیفی ندوی (ماموں ) کی ادارت میں ۱۹۵۷ ء سے شائع ہو رہا تھا۔ رسالہ کے صفحہ سات پر بعنوان مکہ ریڈیو سے امام کی قدر افزائی پڑھ کر میں بے حد خوش ہو ئی ۔جیسا کہ ابتداء میں ہی ذکر کر چکی ہوں کہ ہندوستان کا بٹوارہ ایسا ہوا کہ ہمارے اپنے ہم سے جدا ہو گئے ۔امام کا جو شمارہ ہمارے پاس ہے۔ وہ رسالہ دفتر ماہنامہ امام،فاطمہ منزل ،رابسن روڈ ،کراچی نمبر ۱ سے شائع ہوا ہے۔(۱۰)
ماہنامہ امام ،کراچی میں جن کے مضامین شامل ہیں ان میں محترم مولوی محمد سلیمان صاحب یکتائی علوی ،الحاج مولانا ضیاالقادری بدایونی ،محی الدین احمد ،سیفی ندوی ،مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ،عارف سیالکوٹی ،شفیق کوٹی ،عابد نظامی کے نام خاص ہیں ۔
اس کی تصدیق سید سیفی ندوی کے اس خط سے بھی ہوتی ہے جو ۲؍اپریل ۱۹۸۰ء کو فاطمہ منزل ،رابسن روڈ، کراچی نمبر ایک سے ماموں نے اماں کو لکھا تھا ۔اس خط کو پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِدھر اماں اپنے بھائی کے لیے تڑپتی رہیں اور اُدھر بھائی اپنی اکلوتی بہن کے لیے ،اور بٹوارے کی آہنی دیوار نے انھیں ملنے کا موقع ہی نہیں دیا۔کئی با ر ماموں کے آنے کا منصوبہ بنا مگر نہ آسکے ۔شاید اللہ کو منظور ہی نہیں تھا کہ ملاقات ہو ۔ہم نے تو ماموں کو دیکھا ہی نہیں۔ مگر آج جو رسالے ،مضامین ،خطوط ہمارے پاس ہیں وہ اس دور کی تاریخ بیان کرنے کے لیے کافی ہیں ۔شاید یہ ثبوت ہمارے پاس نہ ہوتے تو ہمارے لیے یہ سب کچھ لکھ پانا مشکل ہوتا ۔
فرصت ملے تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
میں اپنا فرض سمجھتی ہوں کہ ان خستہ حال رسالوں کو سنبھال کر رکھوں ۔جن کی سفیدی اب ختم ہو چکی ہے اور یہی بٹوارے کی نشانی بھی ہے۔گزرے ہوئے واقعات کو یاد کرکے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیںاور یہ سوچ کر پھر آنکھیں بھر آتی ہیں کہ وہ اپنے ہم سے کیسے جدا ہو گئے۔ جنھیں دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستی رہ گئیں ۔
وے صورتیں الہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
آہ !اب وہ لوگ کہاں رہے جن پر ہم فخر کرتے تھے۔ جن کے لیے آنکھیں آج بھی ترستی ہیں۔
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
ماموں کے ہاتھ کا لکھا ہوا وہ خط جب میں پڑھتی ہوں تو دل ہل جاتا ہے کہ کاش ماموں کو ایک بار دیکھ لیا ہوتا ۔مگر اس خط میں لکھے ہوئے ایک ایک جملے ایسے ہیں جن پر ہماری والدہ ( خدیجہ بیگم ) نے عمل کیا اور اپنی پوری زندگی انھوں نے ہم لوگوں کی ایسی پرورش کی کہ ہم ان تمام ذمہ داریوں کو سمجھنے لگے جو ایک اولاد کے لیے ضروری ہے ۔ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’اس نے چاہا تو جلد ہی یا کچھ دیر میں تمہیں دیکھوںگا اور ان کو حسب حال کھلاؤںگا ، پلاؤںگا اور خوش کروںگا ۔تم ان کی تعلیم و تربیت اور ادب و سلیقہ سکھانے کی طرف پوری توجہ رکھنا ۔آخر خط میں تمہیں یہ تاکید کرتا ہوں کہ ماضی کا غم اور فکر نہ کرنا ۔حالات پر زور اللہ کی مرضی پر صابر و شاکر رہ کر خوش رہنے اور صحت مند رہنے کی پوری کوشش کرنا۔ بچوں کے دل میں ولولہ امنگ اور بلند ہمتی پیدا کرنے کی طرف پوری توجہ کرنا ۔
سب کو دعا۔ والدعا
تمہارا بڑا بھائی سیّد سیفی ندوی
ایڈیٹر امام ، ماہنامہ ، فاطمہ منزل رابسن روڈ ،کراچی
۲ اپریل ۱۹۸۰ء
سیدّ سیفی ندوی (ماموں ) کا یہ آخری خط تھا ۔پھر ان کے کسی خط کا کبھی انتظار نہیں رہا ۔وہ ہمیشہ کے لیے ہم سب سے رخصت ہو گئے ۔
انھیں پیاسوں کی خاطر آج تک موجیں تڑپتی ہیں
جو اوروں کے لیے رستے میں دریا چھوڑ جاتے ہیں
اماں (خدیجہ بیگم ) بھی اس دار فانی سے انہیں یادوں کو ساتھ لیے ہو ئے ہم سب سے ۹؍ جون ۱۹۹۷ ء کو رخصت ہو گئیں:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

حوالے
(۱) انتخاب لکھنؤ ، ایڈیٹر سیفی ندوی، مرکز انتخاب امین آباد پارک ،لکھنؤ ،فروری ۱۹۳۴ ء
(۲) انتخاب لکھنؤ ، ایڈیٹر سیفی ،مرکز انتخاب امین آباد پارک ،لکھنؤ، فروری ۱۹۳۴ء، ص: ۵۸، عنوان ، کتاب اور مطالعہ
(۳) بلند معیاری علمی و ادبی ماہنامہ علم و ادب ،دہلی، مدیر سیفی ندوی، دار الا شاعت ،مرکز علم و ادب ۔عابد بلڈنگ ، بلیماران، دہلی ، جنوری ۱۹۴۱ ء
(۴) علم وادب، ’’مافی الضمیر‘‘، ص:۱۰
(۵) علم وادب دہلی، جنوری ۱۹۴۱ء، ص:۱۱
(۶) ایضاً
(۷) علم و ادب دہلی، مدیر سیفی ندوی، جنوری ۱۹۴۱ ء، جلد ۳، شمارہ ۱، ص: ۵
(۸) رسالہ علم و ادب،مدیر سیفی ندوی، دار الا شاعت ،بلیماران ،دہلی ، علم و ادب کے لیے ایک شگفتہ پیام ،جنوری ۱۹۴۱ ء، جلد ۳، شمارہ ۱
(۹) ماہنامہ تہذیب الاخلاق ( مشاہیر علی گڑھ نمبر ) جلد سوم ،اپریل ۲۰۱۳ ء ،مدیر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی ،ص ۱۹۴، جلد ۳۲، شمارہ ۴
(۱۰) ماہنامہ امام ، کراچی، جنوری ۱۹۶۷ ء، مدیر سیفی ندوی ، مہتمم دفتر ماہنامہ امام ، فاطمہ منزل ،رابسن روڈ ،کراچی نمبر ۱

You may also like