معاون قاضی شریعت مرکزی دارالقضا امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مجھے جن بزرگوں کو دیکھنے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے،ان میں ایک نمایاں نام امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید محمدنظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے، کئی بار ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ المعہد العالی امارت شرعیہ کی طالبعلمی کے دوران ایک معززمہمان کے ساتھ جب ان کی قیام گاہ پر پہنچا تھا تو انہوں نے سیرت اور تفسیر کے مطالعے کا مشورہ دیا، آج جب ان کی زندگی کے ایک حصے کو سپرد قرطاس کرنے بیٹھا ہوں تو وہ پورا منظر نگاہوں کے سامنے ہے اور زبان پر حیدر علی آتش کا یہ شعر کہ:
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجیے
اللہ تعالی نے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کو مختلف النوع صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ جس طرح ایک متبحر عالم دین، بیدار مغز منتظم اورصف اول کے ملی قائدتھے بالکل اسی طرح زبان وبیان کے ماہر، پختہ قلم کار اور اونچے درجے کے شاعر بھی تھے،شاعری کا گوشہ گرچہ ان کی زندگی کا ایک گم گشتہ باب ہے لیکن ان کی زندگی اور ان کی شاعری پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فطری طور پر شاعر ہی تھے، گرچہ ان کی محنت شاعری کی بجائے قیادت کے میدان میں ہوئی، اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اگر ان کی زندگی میں قیادت کا پہلو نمایاں نہیں ہوتا تو لازمی طور پر شاعری کا پہلو بہت نمایاں ہوتا،ان کی زندگی سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے عہد طالب علمی سے سے ہی اپنے شعری سفر کا آغاز کردیاتھا،طلبہ دارالعلوم کے قلمی جداری رسالے” البیان ” میں ان کے اشعار خوب شائع ہواکرتے تھے، اس زمانے میں وہ فرحت گیاوی تخلص اختیار کرتے تھے جسے بعد میں ترک کرکے قائم کرلیا، طالب علمی کے عہد میں کہے گئیان کے اشعار بھی بڑے اہم ہیں، عہد طالب علمی کی ایک نظم پیام نو میرے سامنے ہے جسمیں وہ انتہائی سوز دروں کے ساتھ نوجوانان ملت سے خطاب کرنے کے بعد اخیر میں کہتے ہیں کہ:
خواب غفلت سے تجھے اب جاگ جانا چاہیے
اور دنیا کو پیام نوسنانا چاہیے !!!
حضرت امیر شریعت سادس رحمۃ اللہ نے جس دور میں دنیائے رنگ و بومیں قدم رکھا تھا وہ گرچہ غلامی کادورتھا لیکن لوگ جذبہ حریت سے سرشار ہوا کرتے تھے، جس کے اثرات اس وقت کے شعراء کے کلام میں نظرآتے ہیں؛ چنانچہ حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ کے کی کلام میں بھی جذبہ حریت کی رمق دیکھی جاسکتی ہے، ایک قطعہ بعنوان ”گناہ” میں وہ کہتے ہیں کہ:
بارگاہ کفر میں بہر مجال زندگی
حامل توحید کا ذوق سلامی ہے گناہ
جس غلامی کے سبب ہوتا ہو عصیاں کا فروغ
اے دماغ مرد مومن وہ غلامی ہے گناہ
دیکھیں کہ مذکور قطعہ میں کس خوبی کے ساتھ وہ آسودگی حال کی خاطر برٹش گورنمنٹ کی چاپلوسی کرنے والوں کوراہ راست پر آنے کی تعلیم دے رہے ہیں،اوراشاروں اشاروں میں برٹش گورنمنٹ کے طاغوتی نظام پر سخت نکتہ چینی کررہے ہیں،ساتھ ہی دیکھیں کہ بارگاہ کفر کے لفظ کا استعمال بھی کتنادلچسپ اور پرمعنی ہے، بلاشبہ ایسی شاعری پختہ دماغ، روشن دل اور شعر و ادب کا بہترین شعور رکھنے والا شخص ہی کرسکتا ہے۔
امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ کو قدرت نے ایک حساس دل سے نوازا تھا، وہ دنیا کی پریشانیوں اور الجھنوں سے خوب واقف تھے، لیکن پریشانیوں سے راہ فرار اختیار کرنا وہ روانہیں سمجھتے تھے اسی لئے اپنے اشعار میں انہوں نے زندگی کی الجھنوں کا تذکرہ کیا تو شروع میں نہایت حکمت کے ساتھ یہ ذہن سازی کردی کہ یہی دنیا کی ریت ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
چین کسے نصیب ہے فتنہ روزگار میں
جرات آرزو کہاں عالم اعتبار میں
غنچہ و گل کا تذکرہ بہر خدا نہ چھیڑیے
یاد بہار ہے فضول اجڑے ہوئے دیار میں
جب سے خزاں نے لوٹ لی روح بہار گلستاں
کچھ بھی نہ دلکشی رہی رنگت لالہ زار میں
ہم تو چلے تھے دیکھییے جلوہ طور ہی مگر
نظریں بھٹک کے رہ گئیں منزل کوہسار میں
فرحت خستہ حال کو لطف و خوشی سے کیا غرض
عمر تو ساری کٹ گئی نالہ دل فگار میں
مذکورہ اشعار کو بار بار پڑھیے، الفاظ کی تہ میں چھپیدرد و کرب کو محسوس کیجیے،قافیہ کے حسن کو دیکھ کر شاعری اور شاعر کی عظمت کو سلام کیجیے اس لیے کہ اس کے علاوہ اور چارہ ہی کیاہے؟ یہ سچی بات ہے کہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی کم حوادث پیش نہیں آئے لیکن اچھی بات یہ رہی کہ انہوں نے چیلنجز کو بہت عقلمندی سے قبول کیا، حالات کا مقابلہ کیا اور زیرکی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے، اسی لیے وہ کہتے تھے کہ یہ داڑھی دھوپ میں سفید نہیں ہوئی ہے اور ٹھیک ہی کہتے تھے،تجربات کی بھٹی مین وہ اس قدر تپ گئے تھے کہ حالات کا سامنا کرنا ان کے لیے بہت مشکل کام نہیں تھا، ہر موج بلا ان کے نزدیک ساحل کی حیثیت اختیار کرلیتا تھاچنانچہ وہ کہتے ہیں کہ:
مری کشتی کو طوفان حوادث کا گلہ کیوں ہو
کہ ہر موج بلا کو اک نیا ساحل سمجھتا ہوں
امیر شریعت سادس رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، نعت، نظم، حمد اور منقبت کے اشعار بھی کہے اور خوب کہے،جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کا شہرہ آفاق ترانہ بھی لکھا اور غزل گوئی میں بھی حصہ لیا لیکن غزل گوئی میں عام شعرا کی اتباع نہیں کی اور نہ ہی اس خیال کو قبول کیا جس کے مطابق غزل وحشی یا نیم وحشی صنف سخن ہے بلکہ غزل کا ایک مقام خود طے کیا جہاں بے حیائی، بے پردگی اور ہوس کی کوئی دھوم دھام نہیں ہے چنانچہ ان کی غزل میں جہاں الفاظ کی بہترین بندش اور معنی کی گہرائی ملتی ہے وہیں خیالات کی پاکیزگی بھی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر نظرآتی ہے، ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:
نہ ہوتی شمع محفل میں تو پروانے کہاں جاتے
نہ ہوتا سنگ در تیرا تو دیوانے کہاں جاتے
میرے نغموں نے ان کے حسن کو شہرت عطا کی ہے
نہ ہوتے ہم تو کہیے آپ پہچانے کہاں جاتے
نہ رہتے ان کے قدموں میں نہ بستے ان کی آنکھوں میں
تو پھر پوچھو انہی سے ان کے دیوانے کہاں جاتے
پکڑکر ہاتھ واعظ کا سر میخانہ لے آئے
مے مینا کی لذت ان کو سمجھاتے کہاں جاتے
میرے جوش جنوں نے وقت پر کی رہبری ورنہ
نہ جانے عقل کے مارے یہ فرزانے کہاں جاتے
یہ رستہ بھولنا بھی خوب تھا وہ میرے گھر پہونچے
اندھیری رات تھی تنہا خدا جانے کہاں جاتے
دیکھیے غزل کے تمام اشعار کس طرح طرح وجدانی لگ رہے ہیں،سلاست، روانی، فنی گہرائی کے علاوہ ان کی غزلوں میں آمد ہی آمد ہے، کہیں سے آوردکاکوئی تصور بھی نہیں ہے، آج کل کے کتنے شعراء ہیں جو اس درجے کا شعر کہہ سکتے ہیں، میرے خیال میں شاید ایک بھی نہیں ہیں، ان کے اشعار کو دیکھ رہا ہوں تو بار بار یہ سوال دل میں پیدا ہورہاہے کہ شاعری کی طرف کم توجہ دے کر انہوں نے ہم جیسے آشفتہ سروں کو ادب اور شاعری کے کتنے خوبصورت گلدستے محروم کردیا ہے؟ ممکن ہے ان کے ذہن میں قرآن مجید کی وہ آیت ہو جس میں عام شعراء کی مذمت بیان کی گئی ہے یا امام شافعی کا وہ شعر ہو جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر شعر گوئی علماء کے دامن کو داغدار نہیں کرتی تومیں لبیدبن ربیعہ سے بڑاشاعر ہوتا،خیر وجہ چاہے جو بھی ہو لیکن یہ بات تو طے ہے اگر وہ ادب وشاعری سے باضابطہ دلچسپی لیتے تو میر یا اقبال و غالب نہ سہی لیکن قتیل شفائی، فراق گورکھپوری اور کلیم عاجز کے درجے کے شاعر ضرور ہوتے اور دنیا انہیں ایک صاحب دیوان شاعر کی حیثیت سے جانتی، مجھے معلوم نہیں ہے کہ عوام یا خواص تک ان کی شاعری کا کتنا حصہ پہونچا ہے لیکن میرے پاس جتنا حصہ بھی پہونچا ہے اس کی روشنی میں اگر گفتگو کی جائے تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان شاعری میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو کسی بھی اونچے درجے کے شاعر کے اشعار میں ملتی ہیں ،
مزید خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی صنف میں اشعار کہتے ہوئے انہوں نے شعروادب کی روح کو ماند نہیں پڑنے دیا ہے اسی لیے دبستان عظیم آباد کے فی الواقع آخری چراغ اور مشہور زمانہ شاعر کلیم عاجز مرحوم امیرشریعت رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے خواہش کرتے ہیں ” کہ ایسا ہوتا کہ مولانا اپنے کمرے کے گوشے میں مجھ سے پوچھتے کہ کلیم صاحب! آج کل پٹنہ میں کون شاعراچھاہے؟ تو میں کہتا کہ مولانا پٹنہ میں اب کون شاعر ہے؟ بس ایک آپ ہیں اورایک ہم، سوہم بھی کیا؟(امیر شریعت سادس نقوش وتاثرات ص 347)
حضرت کلیم عاجز کی بات کو اگرانکساری اور عاجزی پر محمول کیا جائے تب بھی کلیم عاجز کی گفتگو سے امیر شریعت کا شاعرانہ مقام طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔امیر شریعت کی شاعری پر لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن مضمون کے طویل ہوجانے کا خوف دامن گیر ہے، اس لیے ہم امیر شریعت کی نعتیہ شاعری میں سے اس سلام کے ابتدائی اشعار کو نقل کرکے مضمون کا خاتمہ بالخیر کررہے ہیں جسے ماہرالقادری کے مشہور سلام سے کم درجے کا نہیں کہاجاسکتاہے
سلام اس پر جو آیا رحمۃ للعالمیں بن کر
سلام اس پر جوآیاھادی دین مبیں بن کر
سلام اس پر جو چمکادہر میں ماہ مبیں بن کر
جہان کفر پر خورشید ایمان و یقیں بن کر
سلام اس پر کہ جس نے دوجہاں کو روشنی بخشی
یہ دنیا مر چکی تھی پھر اس کو روشنی بخشی
سلام اس پر دیاجس نے جہاں کودرس الفت کا
پڑھایا نوع انساں کو سبق درد محبت کا
اب بس دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت سادس رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے اور ان کا بدل ملت کو عطاکرے۔