میرٹھ:سید محمد اشرف اپنے آپ کو حقیقت نگار کہیں یا نہ کہیں، ترقی پسند کہیں یا نہ کہیں لیکن وہ ایک اچھے ناول نگار اور افسا نہ نگار ہیں۔جولگ محبت پر ظلم کررہے ہیں تو سمجھئے اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں۔وہ کون سے عناصر ہیں جو یہ خرابیاں ہما رے سماج میں پیدا کررہے ہیں۔سید محمد اشرف ایک ایسا انسان ہے جس کی نظریں وسیع اور دھڑکتے دل میں حساس جذبات ہیں۔سید محمد اشرف کے افسانوں اور ناولوںنے نوجوان نسل کو کا فی متاثر کیا ہے۔ِیہ الفاظ تھے جرمنی سے معروف ادیب و شاعر عارف نقوی کے جو شعبۂ اردو اور آ یوسا کے ذریعے منعقد ہفتہ واری ادب نما پروگرام میں’’سید محمد اشرف کی تخلیقی کائنات‘‘ موضوع پر اپنی صدارتی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم عالمی پس منظر میں دیکھیں تو ہماری خود نوشت کا دائرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خود نوشت لکھنا ایک افسا نہ یا ناول سے زیادہ مشکل کام ہے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیہ نعت ۔پی ایچ۔ڈی کی طالبہ فرح ناز نے پیش کیا۔ پروگرام کی سرپرستی صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی۔ مہمان خصوصی کے بطور معروف فکشن نگار سید محمد اشرف نے آن لائن شرکت کی۔مہمان ذی وقار کے بطور سابق صدر شعبۂ اردو، کشمیر یونیورسٹی، پروفیسر قدوس جاوید اورمہمان اعزازی کے بطور جموں سے ڈا کٹر ریاض توحیدی نے پروگرام میں شرکت کی ۔ مقالہ نگار کے بطور معروف شاعر عرفان عارف (اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ایس پی ایم آر کالج آف کامرس،جموں) اور معروف فکشن ناقد ڈاکٹر رمیشا قمر شریک رہے جب کہ مقرر کی حیثیت سے لکھنؤ سے آ یوسا کی صدر ڈاکٹر ریشما پروین نے شرکت کی ۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر آصف علی نظامت ڈاکٹر شاداب علیم اور شکریے کی رسم ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے انجام دی۔
صدر شعبۂ اردو اور معروف فکشن ناقد و فکشن نگار پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے مہمانوں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ جدیدیت کے زمانے میں جب کہا نیوں اور ناولوںمیں گنجلک علامات کا خوب استعمال ہو رہا تھا ایسے وقت میں سید محمد اشرف نے گنجلک اور علامات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے منفرد راستہ اختیار کیااورجہاں تک سید محمد اشرف کے بیانیہ کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت عمدہ زبان خلق کرتے ہیں اور اپنے ہم عصروں میں سے متعدد فکشن نگاروں سے اچھی زبان لکھتے ہیں۔
اس مو قع پر مہمان خصوصی سید محمد اشرف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ کسی بھی کہانی کے لیے تکنیک ہی اہم ہوتی ہے جو کہانی کو اونچائی تک لے جاتی ہے۔ اسی لیے اچھا افسا نہ لکھنا بہت مشکل کام ہے جب کہ ناول میں ایسا نہیں ہے ۔کیو نکہ ناول میں آ گے بڑھتے چلے جاتے ہیں ،بہت سے غیر ضروری الفاظ بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں اس کا بھی ناول پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب کہ افسا نے میں ایسا نہیں ہوتا۔اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر شاداب علیم کے بہت سے سوالوں اور خاص کر طلبا کے سوالوں کا جواب دیتے ہو ئے کہا کہ آج اردو کی بڑی اہمیت ہے۔ آج کی تاریخ میں اردو موضوع لے کر آ گے بڑھ سکتے ہیں۔ اردو کا اسکوپ آج بھی کم نہیں ہے۔اردو سیکھنا، جاننا اور استعمال کرنا ایک ایسی محنت ہے جسے سب کو ہی کرنا چاہئے۔جب تک ہم اردو والے احساس کمتری کا شکار رہیں گے تب تک کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ آج ملک میں نفرت کا ماحول ہے لیکن ہمیں محبت بانٹنی ہے اور نفرت کو ختم کرنا ہے۔ اب محبتیں بانٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھر میں بچوں کو موبائل سے دور رکھئے، تعلیم کا ماحول بنائیے۔ محنت ضرور رنگ لائے گی۔
پروفیسر قدوس جاوید نے کہا کہ حقانی القاسمی، طارق چھتاری اور صغیر افرا ہیم وغیرہ نے سید محمد اشرف کی افسا نہ نگاری پر کافی لکھا ہے۔ سید محمد اشرف کے یہاں جو کردار نگاری اور خیال آ رائی ملتی ہے اس پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کسی خاص تحریک کا سہارا نہیں لیا۔وہ وہی لکھتے ہیں جس کا تجربہ اپنی زندگی میں کیا۔ ان کی افسا نہ نگاری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ جیسے قاری ان کی کہانی پڑھ نہیں رہا بلکہ اس کہانی میں کہیں کھو گیا ہے۔
سید محمد اشرف کی تخلیقی کائنات کے چند گو شے ہی منظر عام پر آ ئے ہیں ،بہت سے گو شے تشنہ ہے ان پر ضرور کام ہو نا چاہئے۔
پرو فیسر ریشما پروین نے کہا کہ ایک کامیاب افسا نہ نگار وہی ہے جو کہانی لکھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کے ہنر سے بھی واقف ہو۔ سید محمد اشرف کا شمار بھی ایسے ہی افسا نہ نگاروں میں ہوتاہے۔ان کی کہانی میں کردار، قارئین کو متاثر کرتے ہیں۔
ڈا کٹر ریاض توحیدی نے کہا کہ سید محمد اشرف کے افسا نوں پر تبصرہ کریں تو معلوم ہو تا ہے کہ ان کے داستانی رنگ وآہنگ کے ساتھ ساتھ اسلوب،کردار نگاری اور منظر نگاری قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ان کے افسا نوں میں تجرباتی رنگ اور سماجی مسائل کے سچے ثبوت ملتے ہیں۔آج کا پروگرام اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔جس سے قا رئین اور طلبہ مستفیض ہوں گے۔
پروگرام میںڈاکٹر الکا وششٹھ،ڈاکٹر شبستاں آس محمد، سعید احمد سہارنپوری، محمد شمشاد، سیدہ مریم الٰہی، فیضان ظفر موجود رہے۔