نہ جانے کتنے لوگ اب تک آ چکے، کتنوں کے فون، میسجز مسلسل مل رہے ہیں۔ یہ لوگ مدرسوں کے لیے تعاون کی گزارش لے کر آ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت ساروں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ مجھے یقین ہے ان میں سے بیشتر لوگ بہت ہی مخلص اور معتبر ہیں۔ یہ بغیر کسی ذاتی مفاد کے صرف خدمت کے جذبے سے مدرسوں کا چندہ کر رہے ہیں. نہ جانے کتنی جگہ انہیں کھری کھوٹی بھی سننی پڑتی ہے لیکن یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے بھی تپتی ہوئی گرمی میں مدرسے کے کمزور اور بے سہارا بچوں کی خاطر در در بھٹک رہے ہیں. ممکن ہے کچھ لوگ یہ اعتراض کر بیٹھیں کہ انہیں کمیشن ملتا ہے لیکن میں یہ بات اپنے ان شناساوں کے تعلق سے کہہ رہا ہوں جن کے متعلق میرا یقین ہے کہ وہ کمیشن نہیں لیتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ قوم کے پاس مخیر حضرات کی کمی ہے۔ اس مبارک ماہ رمضان میں تو لوگ کھل کر مال خرچ کرتے ہیں۔ کچھ نہیں تو زکوٰۃ کی رقم تو ہر صاحب حیثیت مسلمان نکالتا ہی ہے لیکن پھر بھی مانگنے والوں کی ایک بھیڑ ہے. ہم جیسے نہ جانے کتنے لوگ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں کہ کسے دیا جائے اور کسے نہ دیا جائے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ تعلق نبھانے کے لیے زکوٰۃ کی بڑی رقم ٹکروں میں تقسیم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس بڑی رقم سے کوئی بڑا کام نہیں ہو پاتا ہے۔
ذرا غور کیجیے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمارے گاؤں اور محلے کا شخص اپنے لیے یا اپنے ادارے کے لیے دوسرے گاؤں اور محلے میں جا کر تعاون کے لئے در در صدائیں لگاتا ہے اور دوسرے محلے اور گاؤں کا شخص ہمارے محلے میں در در کی خاک چھانتا رہتا ہے. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر محلے کی سطح پر کچھ ایسے لوگ ہوتے جو اپنے علاقے کے ضرورت مندوں کی خبر رکھتے. اپنے علاقے کے دینی اداروں کی ضروریات پر نظر رکھتے اور محلے کی سطح پر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے. اس طرح نہ تو یہ تصدیق کا مسئلہ ہوتا کہ مانگنے والا کتنا معتبر ہے اور نہ ہی ہمیں اپنے پیسے ٹکروں میں چھینٹنے کی نوبت آتی۔
صدقہ و زکوٰۃ کی رقم کو منظم طریقے سے خرچ نہیں کرنے کی وجہ سے کوئی بڑا نتیجہ بھی سامنے نہیں آ پاتا ہے۔ معمولی سے معمولی شخص صدقہ زکوٰۃ کی امید میں چھوٹا موٹا ادارہ قائم کر لیتا ہے جہاں بچوں کی تعلیم کیا ہوتی ہے ہر کوئی جانتا ہے۔
ایسے میں میرا ذاتی مؤقف یہی ہے کہ مختلف جگہوں پر تھوڑے تھوڑے پیسے دینے کی بجائے اپنے اس پاس کے ویسے مستحق کی مدد کی جائے جو مانگنے کے لیے در در صدا نہیں لگاتے۔ ویسے بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے جو ذہین ہیں لیکن معاشی تنگی کی وجہ سے اچھی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں. زکوٰۃ کی رقم ایک بار میں خرچ کر دینا یا صرف رمضان میں ہی خرچ کرنا کوئی ضروری نہیں ہے. اگر اس رقم سے سال بھر کسی بچے کی فیس دی جائے تو یہ بھی زکوٰۃ کا بہترین مصرف ہوگا۔
زکوٰۃ کی رقم بغیر سوچے سمجھے تقسیم کرنے سے گداگری کو فروغ حاصل ہوتا ہے لہذا ہمیں اس جانب سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔