اشعر نجمی
جے این یو میں ہونے والا حالیہ تشدد یہ سوال حکومت سے کررہا ہے کہ آخر طلبا سے حکومت اتنی ڈرتی کیوں ہے؟ آخر انھیں وہ ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ، یا ‘آتنک وادی’، ‘دیش کے غدار’ اور ‘Urban Naxal’ کہہ کر حاشیے میں پھینکنا کیوں چاہتی ہے؟ آخر سرکار کے نمائندے بار بار یہ کیوں کہتے نظر آتے ہیں کہ طلبا کا کام پڑھنا اور تحقیق کرنا ہے، نہ کہ سرکار کے خلاف احتجاج کرنا، حالاں کہ آپ اس کے جواب میں سرکار سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ آپ کے سابق وزیر ارون جیٹلی بھی ‘جے پی آندولن’ کی طلبا تحریک میں کیوں شریک تھے؟ آپ کی پارٹی کی طلبا شاخ ABVP جے پی آندولن سے لے کر آج تک منھ پر نقاب ڈالے کیا کررہی ہے؟ ظاہر ہے سرکار اپنی پارٹی کی تاریخ سے یہ صفحہ پھاڑ چکی ہے چونکہ وہ اپنے ماضی سے خوفزدہ ہے، اور اس کی وجہ صاف ہے کہ جن طلبا کے سپورٹ سے اس نے اندراگاندھی کی حکومت کو الٹا تھا، وہی طلبا آج اس کےخلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ طلبا کی یہ طاقت صرف ہندوستان کی تاریخ کا حصہ ہے بلکہ آپ کی توجہ ان عالمی طلبا تحریکوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جنھوں نے معاصر حکومتوں کے لیے چیلنج کھڑا کیا، تخت و تاج کو زمین بوس کردیا۔ آپ تاریخی تناظر میں ان واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ اس حقیقت کو پالیں گے کہ ہندوستان کی موجودہ سرکار طلبا سے کیوں ڈر رہی ہے۔
نشاتہ ثانیہ کے بعد صنعتی انقلاب اور انقلاب فرانس نے قدیم اقتصادی، سیاسی، اور سماجی اداروں کو یکسر بدل کرکے رکھ دیا۔ بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی، جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری آگئی اور چرچ کو ریاستی امور سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تبدیلی کی اس ہوا کو عقلیت پسند مصنفین جیساکہ فرانسس بیکن، ڈیکارٹ، روسو، والیئٹر اور برونو وغیرہ نے مزید توانائی بخشی۔ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور سائنسی طرز فکر جیسی کئی نعمتوں کے ساتھ یورپ میں شخصی آزادی، معاشرتی مساوات، انصاف اور انسان دوستی کی نئی اقدار اور تصورات وجود میں آئے۔ تعلیمی نظام کو چرچ کے تسلط سے آزادی ملی۔ ان سب عوامل نے یونیورسٹیوں کے ماحول میں ڈرامائی تبدیلیاں برپا کیں اور طلبا کو اپنا نقطہ نظر اپنانے، اظہار رائے کرنے اور جمہوری اصولوں پر مبنی تنظیم بنانے کے لیے مناسب ماحول میسر آیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی منظر پر طلبا کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔سب سے پہلے جن نظریات نے یورپ کے طلبا کو اکٹھا کیا؛ وہ تھے جمہوریت اور قوم پرستی۔ یورپی ممالک پر نپولین کا حملہ جرمنی، اٹلی، آسٹریا اور روس کے طلبا کی قوم پرستی کی تحریک کی ایک بڑی وجہ بنا۔ 1815ء میں جینا یونیورسٹی کے جرمن طلبا نے Urburschenshaften نامی ایک یونین بنائی۔ اس تنظیم نے قوم پرستی کے نظریات کو پھیلانے کے لیے کام کیا، اس نے اپنی شاخیں دوسری تمام جرمن یونیورسٹیوں میں بھی پھیلا دیے۔ اس تنظیم کی سرگرمیاں نیم اتحادی جرمن ریاستوں کی حکومت کو بہت خطرناک لگیں اور اسے 1819ء میں کالعدم قرار دے دیا گیا۔ مگر کالعدم قرار دیے جانے کے باجود کئی سال تک اس کی سرگرمیاں خفیہ طور پر جاری رہیں۔
1848 میں پیرس، ویانا اور برلن میں انقلاب کی ایک بڑی لہر اٹھی۔ اس انقلابی تحریک میں طلبا صف اول میں شامل تھے۔ بعدازاں اٹلی کے طلبا غیر ملکی دخل انداز یوں کے خلاف متحد ہوگئے اور بطور قوم اٹلی کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ روسی طلبا نے زار حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے انھیں کی تقلید کی۔
قوم پرستی نظریات ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں کے ذریعے ان ممالک کی کالونیوں تک بھی پہنچ گئے۔ ایک اور اہم عوامل یہ بھی تھا کہ ان کالونیوں کی اشرافیہ کے جو نوجوان مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے تھے؛ قوم پرستی، شوشل ازم اور سیکولرازم کے جدید نظریات سے متعارف ہوئے اور واپس آکر نہ صرف انھوں نے ان نظریات کو پھیلایا بلکہ اپنی اپنی اقوام کے رہنما بھی ثابت ہوئے۔
قومی حالات کو دیکھتے ہوئے ان کالونیوں میں قوم پرست طلبا تنظیمیں وجود میں آئیں جو جلد ہی قومی آزادی کی تحریکوں میں بدل گئے، غیر ملکی تسلط سے نفرت اور سوراج کی زبردست محرک ثابت ہوئے ،انڈونیشیا کے طلبا اس کی بہترین مثال ہیں۔ انھوں نے قومی آزادی کی جددجہد کے ساتھ ساتھ قوم پرستانہ نظریات کو پھیلانے کا کام بھی کیا ۔برصغیر کی تاریخ بھی اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔1905 میں برصغیر کے طلبا نے بنگال کی تقسیم پر حکومت برطانیہ کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ 1920 کی تحریک خلافت میں بھی انھوں نے اہم کردا ادا کیا۔ برصغیر کی دو اہم تنظیمیں؛’آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن’ اور ‘آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن’ شامل ہیں جو 1936 اور 1937 میں قائم ہوئیں۔ ان تنظیموں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اہم کردا ادا کیاتھا۔ اس کے علاوہ انقلابی طلبا نے بھی ہندوستان کی تحریک آزادی اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے بہت کام کیا۔ عظیم ہیرو بھگت سنگھ بھی ان میں سے ہی ایک تھے۔
بیسویں صدی کا پہلا نصف حصہ دنیا سے کالونیوں کے خاتمے کا دور تھا۔ اسی لیے اس عرصہ میں طلبا تحریکوں کا بنیادی مقصد ملکی آزادی حاصل کرنا ہی تھا، جب کہ نصف صدی کے بعد ان کا زیادہ تر رجحان سوشلزم، مارکسزم اورعمومی سماجی تبدیلی کی طرف زیادہ ہوتا گیا۔ سوشل از م نظریات کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ 1991 میں سوشلسٹ بلاک کے انہدام تک تقریبا تمام ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں طلبا کی سیاست پر ان کی اجارہ داری رہی۔ تاہم کئی مستثنیات بھی ہیں جیسا کہ انقلاب ایران میں شامل کچھ طلبا گروپ اور مذہبی و نسلی ایجنڈے پر کام کرنے والی دیگر کچھ تنظیمیں جیساکہ اسلامی جمیعت طلبا اسلام بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ بھی رہی ہیں تاکہ سرد جنگ میں انھیں روس کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔طلبا تنظیموں میں کچھ ایسی تھیں جو کسی خاص نظریہ کے بجائے خاص حالات و واقعات کے ردعمل میں وجود میں سامنے آئیں، جیسا کہ جنگ عظیم اول میں یورپی طلبا تنظیموں نے جنگ کے خلاف تحریک چلائی اور جنگ عظیم دوئم میں امریکہ کی شمولیت کے خلاف امریکی طلبا تنظیموں نے تحریک چلائی اور بیسویں صدی کے پہلے نصف میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے تحریک چلائی گئی۔
تبت کو چین نے 10مارچ 1959 کو قبضہ کیا تھا اور تبت کی تحریک آزادی (student for a free tibet 1994 )میں طلبا و طالبات کے فعال کردار کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے چند تبتی آزادی پسند سیاسی کارکنوں اور تبتی اسٹوڈنٹس نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ‘ایس ایف ٹی’ تبت کے اندر جدوجہد کرنے کے بجائے باہر ممالک میں مقیم تبتی طلبا و طالبات پر مشتمل ایک انٹرنیشنل نیٹ ورک قائم بھی کر چکی ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں بلوچی قومی تحریک آزادی پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہاں بھی ایک ایسی طلبا تنظیم نظر آئے گی جس نے بڑے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھا۔ ویسے تو ریاست پاکستان نے بلوچ قومی تحریک میں جدوجہد کرنے والی تنظیموں کے خلاف پابندی عائد کردی ہے لیکن بی ایس او آزاد (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے خلاف کچھ زیادہ ہی اپنی مشنری کا استعمال کیا۔ جب ریاست پاکستان نے بی ایس او آزاد پر پابندی عائد کردی تو ان کے کارکنان کو گرفتار کرنا اور یونیورسٹیوں میں ان کے کارکنان کے ہاسٹلوں میں چھاپہ مار کر ان کے کتابوں کو دہشت گرد مواد ظاہر کرنا ریاست کی ناکامی کا منہ بھولتا ثبوت ہے کہ ریاست پاکستان بی ایس او آزاد سے کتنا خوف زدہ ہے۔
مختصر یہ کہ طلبا تحریکوں کی تاریخ بتا رہی ہے کہ طلبا تنظیمیں ہی اپنی قوم کے نوجوانوں کی تربیت کرتی ہیں اور انھیں اپنی قومی تاریخ و ثقافت کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں اور وہ اپنے تاریخی اہمیت کو جان کر جدوجہد کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ ایک انقلابی تنظیم ہی اپنی قومی تحریک کو اچھی طرح گائیڈ کرسکتا ہے۔ لہٰذا مودی سرکار طلبا تحریکوں کی طاقت اور ان کے اثرات سے خوب اچھی طرح واقف ہے اور وہ شاید یہ سمجھ چکی ہے کہ جب طلبا تحریک زور پکڑتی ہے تو اس سیلاب کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے، اسی لیے مودی سرکار بھی دوسری غاصب حکومتوں کی طرح پولیس نما غنڈوں یا غنڈوں نما پولیس کا سہارا لے کر اس قوت کو کچلنا چاہتی ہے جسے کبھی جے پرکاش نے ‘یووا شکتی’ کہا تھا۔