تحریر:وجے شنکر سنگھ
ترجمہ:نایاب حسن قاسمی
پارلیمنٹ میں 27؍نومبر کو بھوپال سے تعلق رکھنے والی بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے گوڈسے کی تعریف و توصیف کرنے کی وجہ سے ملک بھرمیں وسیع پیمانے پر احتجاج کیاگیا ،جس کی وجہ سے حکومت بھی تشویش میں مبتلاہوگئی ؛چنانچہ آج 28 ؍نومبر کو وزارتِ دفاع کی مشاورتی کمیٹی سے پرگیہ سنگھ ٹھاکرکو ہٹا دیا گیا ہے۔ ممبر پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے ذریعے ناتھورام گوڈسے کو ‘محب وطن ‘ قرار دیے جانے کے تناظر میں بی جے پی کے کارگذار صدر جے پی نڈا نے کہا کہ کل پارلیمنٹ میں دیاگیاان کا بیان قابل مذمت ہے ، بی جے پی کبھی بھی اس طرح کے بیان یا نظریے کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو وزارت ِدفاع کی مشاورتی کمیٹی سے ہٹا دیا جائے گا اور انہیں پارلیمانی جماعت کے اجلاسوں میں حصہ لینے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اس سلسلے میں جو کہا ہے، وہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ:”ناتھورام گوڈسے کو محب وطن کہناتو دور ، ہم اس کے ساتھ محب وطن ہونے کی حیثیت سے برتاؤ کرنے کے خیال کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ مہاتما گاندھی ہمارے لئے نمونہ ہیں،پہلے بھی وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔
جب 30 جنوری 1948 کو دہلی میں مہاتما گاندھی کا قتل ہوا، تو ہندوستان ہی نہیں ، پوری دنیا دنگ رہ گئی تھی۔ جیسے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو گاندھی کے قتل کی خبر ملی ، اس نے فورا ہی قاتل کا مذہب پوچھا،جب اسے بتایا گیا کہ قاتل ناتھورام گوڈسے نامی ہندو ہے ،تو ماؤنٹ بیٹن نے نگاہ اٹھا کر کہا: "اے خدا! تو نے اس ملک کو بچالیا۔” اس وقت ہندوستان فرقہ وارانہ فسادکی تاریخ کے بدترین مرحلے سے گزر رہا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے محسوس کیا کہ اگر قاتل مسلمان ہوتا، تو ملک میں خوفناک خونریزی ہوتی۔ ویسے بھی اس وقت ہندوستان کی تقسیم کے بعدہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں ہنگامے جاری تھے۔ ملک کو امن و امان کے ساتھ ساتھ لاکھوں مہاجرین کی بحفاظت آبادکاری کے مسئلے کابھی سامنا تھا۔
سردار پٹیل اس وقت ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے وہ اپنے آپ کو گاندھی جی کی سکیورٹی میں کوتاہی اورقتل کے لئے ذمے دار ٹھہرا رہے تھے ؛کیوں کہ اس سےپہلے بھی گاندھی کے قتل کی کچھ ناکام کوششیں ہوچکی تھیں؛ لیکن اس وقت تک وی آئی پی سکیورٹی اتنی رائج نہیں تھی اور گاندھی بھی اس طرح کے حفاظتی اہتمام کے قائل نہیں تھے۔ اس سانحے کے بعد2 فروری کو گاندھی جی کی یاد میں دہلی میں ایک تعزیتی اجلاس ہوا، اس میں نہرو اور پٹیل سمیت کانگریس کے تمام بڑے رہنما موجود تھے۔ نہرو کی تقریر کے بعد پٹیل نے جو کہا ،وہ قاتل اور اس کی حمایت کرنے والے گروہ کی ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے۔پارلیمنٹ میں پرگیہ ٹھاکر کے ذریعے قاتل ناتھورام گوڈسے کی توصیف وتعریف کے بعد اس تعزیتی اجلاس میں سردار پٹیل کے ذریعے کی گئی تقریر کو یاد کرنا ضروری ہے۔ جواہر لال نہروکے بعد سردار پٹیل جب اس تعزیتی اجلاس میں تقریرکے لیے کھڑے ہوئے ، توان کی آنکھوں میں آنسو تھے، ان کی آوازمیں لرزش تھی، وہ بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، نہرو نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے کچھ بولنے کو کہا۔ اس وقت وہ نہرو کے بعد ملک کے دوسرے بڑے رہنما تھے، ان کا بولناضروری بھی تھا اور ان کی مجبوری بھی۔انہوں نے کہا : "جب دل درد سے بھر جاتا ہے ، تب زبان نہیں کھلتی ہے اور طبیعت کچھ کہنے کوآمادہ نہیں ہوتی،اس موقع پر جو کچھ کہنا تھا ، جواہر لال نے کہہ دیاہے ، میں کیا کہوں؟ "سردار پٹیل نے مزید کہا:”ہاں ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک پاگل آدمی نے یہ کام کیا؛ لیکن میں کسی پاگل آدمی کے اس کام کو تنہا نہیں مانتا،اس کے پیچھے کتنے پاگل ہیں اور انھیں پاگل کہاجائے یا شیطان یہ کہنا بھی مشکل ہے۔ جب تک آپ اپنے دل کو صاف نہیں کریں گے اور جرأت کے ساتھ ایسے عناصر کا مقابلہ نہیں کریں گے، تب تک کام نہیں چلے گا۔ اگر ہمارے گھر میں ایسے چھوٹے بچے اور نوجوان موجود ہیں ،جو اس راستے پر چلنا پسند کرتے ہیں ، تو انہیں یہ کہنا چاہئے کہ یہ برا راستہ ہے اور آپ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے‘‘۔ "(بھارت کی ایکتا کا نرمان، ص: 158)
انہوں نے کہا تھا : "جب سے میں نے عوامی زندگی کا آغاز کیا ہے، میں گاندھی جی کے ساتھ رہا ہوں۔ اگر وہ ہندوستان نہ آتے ،تومیں کہاں جاتا اور کیا کرتا،یہ سوچ کرآج مجھے حیرت ہوتی ہے۔ تین دن سے میں سوچ رہا ہوں کہ گاندھی جی نے میری زندگی میں کتنی تبدیلی کی، اسی طرح انہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں کیسے بدل دیں، انھوں نے سارے ہندوستان کوکس حد تک بدل دیا۔ اگر وہ ہندوستان نہ آتے تو قوم کہاں جاتی؟ ہندوستان کہاں ہوتا؟ ہم صدیوں سے گرے ہوئے تھے، انھوں نے ہمیں اٹھاکر کہاں پہنچادیا، انہوں نے ہمیں آزاد کرایا۔ "(بھارت کی ایکتاکا نرمان،ص: 157)
سردار پٹیل نے گوڈسے اور ان کے حامیوں کو سب سے بڑا بزدل قرار دیا۔ پٹیل نے کہا :”اس نے بوڑھے جسم پر گولی نہیں چلائی ، یہ گولی ہندوستان کے قلب پر داغی گئی ہے اور ہندوستان جس بھاری زخم سے دوچار ہوا ہے، اسے ٹھیک کرنے میں کافی وقت لگے گا، اس نے بہت برا کام کیا، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں ،جواس شرمناک حرکت کو بہادری سمجھتے ہیں۔ ”
مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد 4 فروری 1948 کو آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی گئی تھی، اس پابندی کے چھ ماہ بعد سردار پٹیل نے سنگھ کے سربراہ گولوالکر کو ایک خط لکھا، اس خط کو پڑھ کر یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ سنگھ اورملکی اتحاد کے بارے میں پٹیل کے خیالات کیا تھے۔
گولوالکر کو سردار پٹیل کا لکھا ہوا خط:
نئی دہلی ، 11 ستمبر 1948
اورنگ زیب روڈ
بھائی مسٹر گولوالکر
آپ کا11 اگست کا بھیجا ہوا خط موصول ہوا، جواہر لال نے بھی اسی دن مجھے آپ کا خط بھیجا تھا۔ آپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بارے میں میرے خیالات اچھی طرح جانتے ہیں، میں نے جے پور اور لکھنؤ کی میٹنگوں میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، عام لوگوں نے بھی میرے خیالات کا خیرمقدم کیا ہے۔ مجھے امید تھی کہ آپ کے لوگ بھی ان کا خیرمقدم کریں گے ؛ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے انہیں کوئی فرق نہیں پڑاہے اور وہ اپنے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سنگھ نے ہندوسماج کی بہت خدمت کی ہے۔ آپ کے لوگ ان علاقوں تک پہنچے جہاں لوگوں کو مدد کی ضرورت تھی اور عمدہ کام کیاہے۔ میرے خیال میں کسی کو بھی اس سچائی کو قبول کرنے میں اعتراض نہیں ہوگا؛ لیکن سارا مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے، جب یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف انتقامی اقدامات کرتے ہیں، ان پر حملے کرتے ہیں۔ ہندوؤں کی مدد کرنا ایک چیز ہے ؛ لیکن غریب ، لاچار لوگوں ، خواتین اور بچوں پر حملہ کرنا بالکل ناقابل برداشت ہے۔
اس کے علاوہ آپ ملک کی حکمراں جماعت کانگریس پر تندوتیز حملے کرتے ہیں اورایسا کرتے ہوئے آپ کے لوگ سارے وقارواحترام کو طاق پر رکھ دیتے ہیں۔ ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سنگھ کے لوگوں کی تقریروں میں فرقہ واریت کا زہربھراہوتا ہے۔ ہندوؤں کی حفاظت کرنےکے لئے نفرت پھیلانے کی بھلاکیا ضرورت ہے؟ اسی نفرت کی لہر کی وجہ سے ملک نے اپناباپو کھو دیا، مہاتما گاندھی کو قتل کردیاگیا،اب تو حکومت یا ملک کے عوام میں سنگھ کے تئیں کوئی ہمدردی تک باقی نہیں ہے۔ ان حالات میں حکومت کے لئے سنگھ کے خلاف فیصلہ لینا ناگزیر ہوگیاتھا۔
آرایس ایس پر پابندی عائد کیے ہوئے 6 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، ہمیں امید تھی کہ اس دوران سنگھ کے لوگ صحیح راستے پر آئیں گے؛ لیکن ہمارے پاس جس طرح کی خبریں آ رہی ہیں، ان سے ایسا لگتا ہےکہ سنگھ اپنی نفرتوں کی سیاست سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کروں گا کہ جے پور اور لکھنؤ میں میں نے جو کچھ کہاتھا، اس پر توجہ دیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ آپ کی تنظیم ملک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، بشرطیکہ صحیح راہ پر گامزن ہو۔آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، اس وقت ملک کے عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت ، ذات ، منصب یا پارٹی و جماعت سے قطع نظر قومی مفاد میں کام کریں۔ اس مشکل وقت میں پرانے جھگڑوں یا گروہی سیاست کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سنگھ کے لوگ کانگریس کے ساتھ لڑکرنہیں ؛بلکہ اس کے ساتھ مل کر قومی مفاد میں کام کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ کو رہا کردیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ صحیح فیصلہ لیں گے۔ آپ پر عائد پابندیوں کی وجہ سے میں صوبہ جاتِ متحدہ کی حکومت کے ذریعے آپ سے بات کر رہا ہوں۔ خط ملتے ہی میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
آپ کا
ولبھ بھائی پٹیل
آج پٹیل کی ایک ایک بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ گاندھی کی تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ہے، گاندھی جی کی ناکامیوں پر بھی بحث و نقاش کیا جاتا ہے اور ہونا بھی چاہیے؛ لیکن ان کے یا کسی کے بھی قتل کا جوازصرف ایک بیمار ذہنیت رکھنے والا شخص ہی پیش کرسکتا ہے۔اس ملک کے لوگوں پر گاندھی کا جتنا اثرتھا،اتنادنیاکے کم ہی لیڈروں کا کسی قوم پر رہاہے۔ آج وہ دنیا بھر میں ہندوستان اور ہندوستانیت کی علامت بن چکے ہیں۔ چاہے کوئی گاندھی کے نظریے ، آزادی کے لیے ان کی جدوجہد اور معاشرتی ترقی کے لئے کی گئی ان کی کوششوں سے اتفاق کرتا ہویانہ کرتاہو ؛لیکن آج کی صورتحال میں گاندھی تنقید و تحسین سے آگے نکل چکے ہیں۔ پٹیل نے سچ کہاتھاکہ صرف بزدل اور بیمارذہن لوگوں کا گروہ ہی کسی قاتل کی تعریف و توصیف کرسکتا ہے۔
(اصل مضمون دی ٹریبیون میں شائع ہوا ہے)