Home سفرنامہ سانہہ ضلع بیگوسرائے کا مختصر سفر ـ ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

سانہہ ضلع بیگوسرائے کا مختصر سفر ـ ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

by قندیل

 

ویسے تو اپنے پھوپھی زاد بھائی جناب وسیم راجا کی شادی میں 23_24سال قبل بچپن میں سانہہ جانے کا اتفاق ہوا تھا لیکن اس وقت عمر ہی کیا تھی ـ بالکل سن غیر شعوری کا زمانہ تھا، بس بچوں کی ہوڑ میں گاڑی پہ بیٹھے اور شادی میں سانہہ پہنچ گئے میرے ساتھ میرا ہی ہم عمر بلکہ دوست بھی کہیے عزیزم زاہد بھی تھا.برسات کا زمانہ تھا، پولی ماسٹر مرحوم کی صاحبزادی سے وسیم صاحب کی شادی ہونی تھی ـ ایک اسکول میں بارات ٹھہری تھی، کچھ لوگوں کے ٹھہر نے کا انتظام گھر کے دروازے پر بھی تھا، کھانا وغیرہ ایک زیر تعمیر گھر میں کھلایا گیا تھا، اس تقریب کے دو واقعات بہت یادگار ہیں ـ ایک تو سونے کی حالت میں کچھ بزرگ حضرات کے سگریٹ پہ منچلوں نے ہاتھ صاف کر لیا تھا اور یہی نہیں بلکہ خالی ڈبے میں سگریٹ کی ناپ کی سناٹھی (سن /پٹسن چھڑائی ہوئی لکڑی) بھی بھر دی تھی، صبح کو جب شور شرابہ ہوا تو لونڈوں کو بڑا مزہ آیاـ

دوسرا دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ نوشے میاں غالباً آرام فرما رہے تھے کہ منچلوں کو پھر ایک شرارت سوجھی اور نوشے کا لباس اور سہرہ و پگڑی وغیرہ زیب تن کیا اور حسبِ معمول ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ دلہن کے گھر چل پڑے، دروازے میں داخل ہو گئے، عورتوں نے استقبال بھی کیا لیکن اسی دوران کچھ بڑی بوڑھیوں کے ہاتھوں چوری پکڑی گئی اور قبل اس سے کہ نقلی دلہے میاں کی مرمت کا انتظام ہوتا کہ وہ نودو گیارہ ہوگئےـ جان تو بچ گئی لیکن فریقین میں بڑی لے دے ہوئی ـ اللہ اللہ کر کے دونوں طرف ذرا خنکی آئی اور رخصتی کا عمل شروع ہو گیاـ

اب یہ دوسرا موقع ہے سانہہ کے سفر کا،یہ سادات کی ایک قدیم بستی ہے. یہی وہ تاریخی بستی ہے جہاں مدرسہ معینیہ قائم ہے، مفتی ظفیر الدین مفتاحی علیہ الرحمہ نے اسی مدرسے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا اور اپنی شہرہ آفاق کتاب "اسلام کا نظامِ مساجد” تصنیف کی تھی ـ

کافی روز سے میرے رفیقِ محترم مولانا طلحہ نعمت ندوی (استھانواں،بہار شریف) کا اصرار تھا کہ سانہہ چل کر مولانا یحییٰ ندوی صاحب سے ملاقات کی جائے اور کچھ دیر ان کی صحبت سے فائدہ اٹھایا جائےـ اس وقت مولانا طلحہ خدابخش لائبریری پٹنہ کے ایک پروجیکٹ پر علمی و تحقیقی کام کر رہے ہیں اور ماشاء اللہ اردو و عربی زبان پر یکساں مہارت رکھتے ہیں، ادب کے ساتھ ترجمہ نگاری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور سب سے بڑی خوبی اپنے علاقے(دیسنہ، استھانواں اور گیلانی وغیرہ) کی علمی و ادبی تاریخ کی بازیابی ہےـ وہ برابر ایسی ہستیوں کو منظر نامے پر لاتے اور لانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں جنھیں دانستہ یا نادانستہ طاقِ نسیاں کا حصہ بنا دیا گیا ہےـ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ پر وہ سیمینار بھی کراچکے ہیں، سید صاحب پر اور علامہ سید مناظر احسن گیلانی پر طلحہ نعمت ندوی صاحب کی کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں ـ

مولانا یحییٰ ندوی (فراغت:1955) قدیم فضلائے ندوہ میں ہیں، علم حدیث میں وہ ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی کے خاص تربیت یافتہ ہیں اور خود بھی علم حدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں بطور خاص حدیث کے قدیم مراجع ان کا خاص موضوع ہےـ آج بھی عرب علماء ان سے حدیث کی اجازت لے کر سند عالی حاصل کرتے ہیں، اس عمل کے لیے کبھی تو وہ خود عرب ممالک کا سفر کرتے اور کبھی عرب خود سانہہ تشریف لاتے ہیں ـ

رب کائنات نے بلا کا حافظہ عطا کیا ہے اور مطالعہ اس قدر وسیع کہ مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک ذخیرہ ان کے دماغ میں محفوظ ہےـ جس موضوع پر شروع ہوجاتے ہیں چپ ہونے کا نام نہیں لیتے. وہ علامہ گیلانی کے بھانجی داماد اور مولانا لطف اللہ رحمانی کے داماد ہیں، مولانا محمد ولی رحمانی علیہ الرحمہ سے ان کا سالہ بہنوئی کا رشتہ تھاـ

خیر مولانا طلحہ صاحب نے فون کیا کہ وہ پٹنہ سے روانہ ہورہے ہیں اور تم سانہہ پہنچو،چنانچہ ایسا ہی ہواـ میں تقریباً گیارہ بجے دن کو بڑی سانہہ مولانا یحییٰ ندوی صاحب کے دولت کدے پہ پہنچ گیا، مولانا فوراً پہچان گئے سلام مصافحہ کے بعد ظہر تک مختلف موضوعات پر ان سے گفت و شنید ہوتی رہی، کبھی میں سوال کرتا اور کبھی مولانا طلحہ کرتے.پھر ظہر اور ظہرانے کے بعد مولانا محتشم ندوی صاحب کے دولت خانے پہ حاضری ہوئی، بڑی محبت و شفقت سے پیش آئےـ ان کے ہاں کچھ آرام اور چائے نوشی کے بعد دوبارہ حضرت کی خدمت میں حاضری ہوئی مگر مختصر پھر میں نے اجازت لی اور گھر مشکی پور کے لیے روانہ ہوگیاـ اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی کے ساتھ مولانا یحییٰ ندوی صاحب کے سایۂ عاطفت کو تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھےـ اللہ مولانا محتشم ندوی اور رفیق محترم مولانا طلحہ نعمت ندوی کو جزائے خیر عطا فرمائےـ

You may also like

Leave a Comment