Home خاص کالم سنگھی بمقابل موسنگھی بیانیہ کہاں تک درست ہے ؟ ـ مسعود جاوید

سنگھی بمقابل موسنگھی بیانیہ کہاں تک درست ہے ؟ ـ مسعود جاوید

by قندیل

مسلمانوں میں ایک لبرل طبقہ سیکولرازم کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے بے چین رہتا ہے۔ وہ بجا یا بے جا ہر وقت توازن برقرار رکھ کر مخصوص لوگوں میں سرخ رو بنا رہنا چاہتا ہے! سنگھی کے مقابل موسنگھی لکھ کر واہ واہی بٹورتا ہے۔ جس طرح مندروں میں نیچی ذات ایس سی / ایس ٹی اور خواتین کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی وہ لبرل طبقہ مسلم خواتین کا مسجدوں میں داخلہ ممنوع کا بیانیہ چلاتا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر خواتین کے لئے معقول انتظام ہو ، الگ دروازہ، علیحدہ وضو خانہ واش روم، اور امام کی اقتدا میں نماز اداکرنے کے لئے خواتین کا سیکشن ہو تو کوئی حرج نہیں بصد شوق داخل ہوں۔ عرب ممالک میں اور ہندوستان میں بھی بعض مقامات پر ایسا نظم ہے وہاں خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔
حاجی علی درگاہ میں خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور زیارت کے بہانے "ملن ” زیادہ ہونے لگا اور ان کے آپس میں تصادم کی نوبت آنے لگی تو ذمہ داروں نے پابندی لگائی،مگر خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اصل موضوع سے ہٹ کر عورتوں کے ساتھ بھید بھاؤ اور ناانصافی کی تحریک چلائی اور مندروں میں خواتین کے ممنوعہ دخول کے ہم پلہ ایشو بنا دیا ۔
بھائی مسلمان جب "نعرہ تکبیر اللہ اکبر ” کسی کو کہنے کو نہیں کہتا تو کیوں بیلنس کرنے کے چکر میں "جے شری رام ” کے ساتھ نعرہ تکبیر اللہ اکبر جوڑ دیتے ہو۔ کیا کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کو کبھی بھی اللہ اکبر کہنے کے لیے کہا ظاہر ہے نہیں تو پھر جبرا کسی کو کیسے کہے گا اور نہیں کہنے پر مارپیٹ کیوں کرے گا ! نہیں کہے گا اور نہ مارپیٹ کرے گا اس لیے کہ ناخواندہ مسلم بھی جانتا ہے کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔
کیا کسی مسلمان نے کبھی کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ کے بے حرمتی کی ہے ؟ ظاہر ہے نہیں۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ اسلام کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرنے توڑ پھوڑ کرنے آگ لگانے کی اجازت نہیں دیتا کسی پجاری مذہبی پیشوا پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو کیوں غیر مسلم شرپسندوں کی آتش زنی کی مذمت کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ دونوں فرقوں کے متشدد لوگ ایسی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
کیوں ضروری ہے کہ بات بات پر یہ بولا جاۓ کہ ہندوؤں کا کنبھ میلہ ہو یا مسلمانوں کا رمضان ! یہ غیر ضروری توازن کیوں؟ کیا مسلمانوں کا بھی کوئی شاکھا سسٹم ہے ؟ ظاہر ہے نہیں تو پھر کیوں ان کا تذکرہ کرتے ہی مسلم کٹر پنتھی کا ذکر لازمی حصہ کے طور پر کیا جاتا ہے ؟
ہاں جہاں واقعی شدت پسند مسلم نوجوان ملک کے مفاد کے خلاف بات یا کام کرتا ہو، دستور اور قانون کے دائرے سے باہر اس کی ایکٹیویٹیز ہوں اس کی مذمت ہر محب وطن مسلمان پر لازم ہے۔
ہندوستان ہمارا وطن عزیز ہے ، ہم اس کے مالک ہیں نہ کہ کرایہ دار یا کسی معاہدہ کے تحت یہاں رہ رہے ہیں کہ اس میں خلاف ورزی ہو تو معاہدہ توڑ دیں، یہ ہمارا ملک ہے اس ملک کے دستور کو ہم سب نے تیار کیا ہے اور ہم سب نے اپنے اوپر اس آئین کو نافذ کیا ہے۔
جہاں مسلمانوں کی غلطی ہو وہاں مسلمانوں کا نام لے کر، بغیر غیر مسلموں کے ساتھ موازنہ کیے، تنبیہ کریں تنقید کریں سزا دیں،لیکن بلا وجہ بیلنس بنانے کے لیے ہر جگہ نہ گھسیٹیں۔

عام لوگوں کے حقیقی مسائل مہنگائی، کرپشن حکومت کی خراب کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ پرست متعصب اور جانبدار مخصوص ایجنڈا چلانے والے میڈیا کی باتوں کو لبرل اور بعض سیکولر مسلم طبقہ کیوں پکڑ لیتا ہے شاید اس لیے کہ اسے اپنی ایسی شناخت پیش کرنی ہوتی ہے جس سے مخصوص غیر مسلم طبقہ میں اس کی مقبولیت ہو، شاید اسے دانشمند تعلیم یافتہ مہذب اور غیر بنیاد پرست کا سرٹیفکیٹ لینا ہوتا ہے،لیکن مسلمان تو مسلمان ہے ۔ تو پھر یہ فنڈامینٹل مسلمان بنیاد پرست مسلمان اور لبرل مسلمان آزاد خیال مسلمان کی خانہ بندی کیوں ؟ اور غیر تو غیر لبرل مسلمان بھی اس اصطلاح کی ترویج میں شریک کیوں ؟
ہر مسلمان بنیاد پرست ہے۔ اور بنیاد پرستی یہ ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد اور بنیادی تعلیمات کو بغیر چوں چرا تسلیم کرے۔ عمل کرنے میں کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن اسے دل سے ماننے میں نہیں۔ نماز ادا کرنے میں کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ نماز اداکرنا وقت ضائع کرنا ہے یا یہ فقط جسمانی کسرت ہے جسے مولوی ملا اور ان پڑھ مسلمان مانتے ہیں ، یہ اسلام میں قابل قبول نہیں ہے۔
دستور ہند فرد کی آزادی کے تحت آپ کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے اور اپنی پسند کے مذہب اختیار کرنے، نصف اختیار کرنے یا مکمل انکار کرنے کی آزادی دیتا ہے اسلام یا کوئی مذہب کسی کو پسند نہیں تو اس سے اپنے آپ کو کنارہ کشی کا اختیار دیتا ہے لیکن اس کے بارے میں اہانت آمیز کلمات کہنے یا دوسرے ماننے والوں کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment