’ سمندر بولتا ہے!‘ وقار قادری کے اس مختصر 143 صفحات پر مشتمل ناولٹ کا موضوع کمال کا ہے ؛ تہذیبی ، سماجی اور مذہبی بنیادوں پر تبدیل ہوتا گاؤں یا علاقہ اور ساتھ ہی ساتھ تبدیل ہوتے انسان یا انسانی رویے ۔ یہ ناولٹ ، جیسا کہ کچھ لوگوں نے باور کرانا چاہا تھا ، نہ مذہبی کٹر پن پر تنقید ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی بیانیہ ، یہ بس ایک گاؤں اور اس گاؤں میں رہنے والوں کی خوشی ، غم ، چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ان کے درمیان ہونے والے معمول کے لڑائی جھگڑوں کا ، جو عام طور پر جائیداد کے لیے ہوتے ہیں ، اور رسوم و رواج ، روایات اور توہم پرستی کا ، اور توہمات سے آہستہ آہستہ ابھرنے کا ایک پرتاثر بیانیہ ، اور ہم جیسوں کے لیے جو گاؤں دیکھ چکے ہیں اور اپنی عمر کا کچھ حصہ گاؤں میں گزار چکے ہیں ، یادوں کا ایک پٹارا ہے ، ایک ایسا پٹارا جو کبھی ہنساتا اور کبھی آنکھیں بھگوتا ہے ، اور احساس دلاتا ہے کہ تبدیلیاں کیسے سماج اور معاشرے پر ، اور ان کے توسط سے انسانوں پراثر ڈالتی ہیں ۔
یہ کہانی چار دوستوں سلیم ، سجاد ، افضل اور علیم کی ہے ، جو اپنے اپنے عمل اور رویے سے سارے کوکن کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن یہ کہانی دادی کی بھی ہے جو معاملہ فہم ہیں ، لیکن پرانی روایات اور توہمات کی قائل بھی ، مگر اب وہ کچھ بدل رہی ہیں ، کیونکہ ان کے بقول : ’’ ڈھونگی باباؤں کو اب اچھی طرح سے پہچاننے لگی ہوں ‘‘۔ یہ کہانی جمال باوا کی بھی ہے جن کی موت کی خبر ناولٹ کے ابتدائی چند صفحات ہی میں ملتی ہے ، لیکن وہ سارے منظر نامے پر تقریباً آخر تک چھاے رہتے ہیں ۔ جمال باوا جیسے کردار اب بھی نظر آجاتے ہیں ، جو جوانی کی غلطیوں کے مداوے کے لیے کسی مزار کے اور اس حوالے سے پورے سماج کے ، مختلف طریقوں سے ، خدمت گار بن جاتے ہیں ، چاہے اس کے لیے انہیں جھاڑ پھونک ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ یہ کہانی حاجی صاحب کی بھی ہے ، علیم اور جمیلہ کی بھی ہے ، جنہوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی ہے ۔ اور سلمیٰ کی بھی ہے ، جو سلیم کی محبوبہ تھی مگر جبراً اس کی شادی دوسرے سے کرادی جاتی ہے ، لیکن چند روز بعد ہی طلاق ہوجاتی ہے اور اب اس کی شادی سلیم سے ہو رہی ہے ۔ مزید کردار ہیں ، اور یہ سب ہی کردار سلیم کے حوالے سے سامنے آتے ہیں ۔ کیا بے خاص بات ہے ان کرداروں میں؟ یہ اپنے سماج اور معاشرے سے کٹ نہیں سکتے ، یہ تمام لڑائی جھگڑوں کے باوجود ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔ یہ وابستگی کوکن کو دوسرے خطوں سے منفرد بھی بناتی ہے اور اسے ایک الگ رنگ بھی دیتی ہے ، اور وقار قادری اس رنگ کو کبھی واضح انداز میں اور کبھی ڈھکے چھپے طور پر سامنے لاتے ہیں ۔ ایک رنگ ’ بھائی چارے ‘ کا ہے ۔ کوکن میں اب بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان یگانگت برقرار ہے ، لیکن اب تبدیلیاں بھی نظر آنے لگی ہیں ، اب : ’’ پنچایت ہی نہیں بلکہ اسمبلی اور لوک سبھا کے الیکشن تک ذات برادری ہی زور پکڑ چکی ہے ‘‘۔ گلف نے مسلمانوں کو اور علاقے کو بھی خوش حال بنایا ہے مگر گھرانوں کو منتشر بھی کیا ہے ۔ اور علاقے کی خوش حالی نے قدیم روایات پر پانی ڈالنے کا بھی کام کیا ہے : ’’ برادری یا گاؤں کے دو چار بزرگوں کے سامنے یہ ( گھریلو ) بٹوارہ ہوتا جسے مان لیا جاتا ۔ جب بھائیوں کو فرصت ملتی تحصیل جاکر پکّے کاغذات پر زمینوں کا بٹوارہ لکھوا لیتے ۔ بے ایمانیاں تو اس زمانے میں بھی ہوا کرتی رہی ہوں گی ، مگر برادری پنچوں کا فیصلہ آخری ہوا کرتا تھا …. پرانے بزرگوں کے کیے ہوے بٹوارے کے فیصلوں کے بعد جنہوں نے ، سرکاری کاغذات میں اپنے نام درج کروا دیے تھے وہ تو خیر سے بچ گیے ، مگر جو احباب بزرگوں کے فیصلوں کو سرکاری کاغذات میں تبدیل کرواے بنا ، وشواس کی بنیاد پر کام چلا رہے تھے ، ان گھرانوں میں بڑی سر پھٹوّل ہو رہی ہے ، نئی پود نے زبانی جمع خرچ کو ماننے سے انکار کر دیا ہے ‘‘۔
کوکن کے سارے منظر ، سارے قضیوں اور ساری تبدیلیوں کو اس مختصر سے ناولٹ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے ، جس سے کوکن اور اس کے گاوؤں کی رنگا رنگی بڑی حد تک سامنے آجاتی ہے ۔ لیکن فکشن صرف معلومات کی فراہمی کا یا یادوں سے بھری تحریر یا کسی مخصوص نظریے سے زندگی کو دیکھنے کا نام نہیں ہے ، یہ ان سب کو متھ کر ایک کہانی بنانے کا نام ہے ۔ وقار قادری نے یادوں اور معلومات کی فراہمی پر اس قدر زور دیا ہے کہ کہانی کہیں درمیان سے غائب ہو گئی ہے ۔ یہ کہانی بنیادی طور پر سلیم اور سلمیٰ کی کہانی تھی یا ہونی چاہیے تھی ۔ سلمیٰ کا کردار بس جھلک ہی دکھلاتا ہے ، لیکن اگر اسے کہانی سے نکال دیا جاے تو یہ ناولٹ لڑکھڑا سکتا ہے ۔ نہ جانے کیوں سلمیٰ اور سلیم کی محبت کی کہانی کو وقار قادری نے ’ ڈیولپ ‘ نہیں کیا ! محبت کی کہانی پر یہ ایک بہترین ناول بن سکتا تھا ، جس میں کوکن کی روایات ، کوکن کے مسلمانوں کی تہذیب اور کوکن کے مختلف رنگ سموے جا سکتے تھے ۔ کئی کردار ’ ڈیولپ ‘ نہیں ہو سکے ، کئی کہانیاں مزید تٖفصیل کی متقاضی تھیں ، مثلاً علیم اور جمیلہ کی کہانی ، سجاد کا المیہ ، نجمہ کی کہانی اور دادی کی کہانی ، جو گاؤں کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں ۔ یہ دادی ہی ہیں جن کے توسط سے پتہ چلتا ہے کہ تقسیم کا اثر کوکن پر بھی پڑا تھا ، بھلے یہ اثر بھرپور نہ رہا ہو ۔ یہ تقسیم کی کہانی بھی کچھ تفصیل مانگتی تھی ، تاکہ اس دور کے کوکن اور اس دور کے کوکن کے مسلمانوں کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگ سکتا ۔
کہانی کا اختتام کچھ اور بھی ہو سکتا تھا ، لیکن سلمیٰ اور سلیم کی شادی اور دو بھائیوں کا آپسی دشمنی بھلا کر سمدھی بننا بھی مناسب اختتام ہے ، لیکن یہ اختتام مزید بہتر ہوتا اگر سلمیٰ اور سلیم کے کردار مزید ’ ڈیولپ ‘ کیے گیے ہوتے ۔ زبان مناسب ہے ، لیکن زبان کو ، بیانیہ کو ، متن کو اور کہانی کہنے کے انداز کو مزید چست کیا جا سکتا تھا ۔ وقار قادری ایک ذہین انسان ہیں ، ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ، لیکن وہ ایک سرکاری افسر ( بابو ) کے طور پر اتنے لمبے عرصے تک برسرکار رہے ہیں کہ ’ عجلت ‘ یا ’ کام نپٹانا ‘ شاید ان کی عادت میں شامل ہو گیا ہے ، اس ناولٹ ،میں ان کی ’ عجلت ‘ صاف نظر آتی ہے ، اگر وہ ذرا سی اس پر محنت کر لیتے تو یہ کوکن کے حوالے سے ایک یادگار ناول بن سکتا تھا ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ناولٹ یادگار نہیں ہے ۔ اردو زبان میں کوکن کی تہذیب پر ، میری معلومات کی حد تک ، یہ واحد ناول ہے جو ، صرف مذہبی شدت پسندی کو کوکن میں ہونے والی تبدیلیوں کا سبب نہیں قرار دیتا ، مزید وجوہ بھی سامنے لاتا ہے ۔ ناولٹ کا نام ’ سمندر بولتا ہے ! ‘ شاید اس لیے ہے کہ کوکن کے ساحلوں پر واقع گاوؤں کا سمندر سے گہرا رشتہ ہے ۔ سمندر ہی ہے جو گاوؤں کے آباد ہونے کا ذریعہ بنا ہے ۔ سمندر لوگوں کو اپنا اور لوگ سمندر کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں ، اسی لیے وہاں رہنے والوں کو یہ لگتا ہے کہ سمندر ان سے باتیں کرتا ہے ۔وقار قادری کو اس ناولٹ کے لیے مبارک باد کا حق ہے ، اس لیے کہ ایک فکشن نگار کے طور پر یہ ان کی پہلی کوشش ہے ، اور بہت اچھی کوشش ہے ۔ قارئین کے لیے انہیں مبارک باد دینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ اس ناولٹ کو خریدیں اور پڑھیں ۔ یہ ناولٹ ’ کتاب دار ، ممبئی ‘ ( رابطہ : 9869321477 ) نے سفید مضبوط کاغذ پر خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے ۔ قیمت 200 روپیے ہے ۔ کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے چھوٹے بھائی سیّد اشفاق قادری کے نام کیا ہے ، جو 6 ، دسمبر 2022 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، اللہ مغفرت فرمائے ، آمین ۔