ڈاکٹر منصور خوشترکی ادارت میں شائع ہونے والےمقبول ادبی پرچے ’ دربھنگہ ٹائمز ‘ کی ، جنوری تا مارچ ۲۰۲۳ ء کی اشاعت میں ، ایک بھرپور گوشہ شامل کر کے ، مشہور و معروف فکشن نگار ، مرحوم شموئل احمد کو ان کے شایانِ شان خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے ۔ شموئل احمد کی موت کے بعد ، ان کی حیات و خدمات پر کوئی گوشہ پیش کرنے والا ’ دربھنگہ ٹائمز ‘ پہلا ادبی پرچہ ہے ۔ مجھے اس پرچے کی یہ بات اچھی لگی ہے ، کہ یہ ادیبوں کی خوشیوں اور غموں میں ، برابر شریک رہا کرتا ہے ۔ خوب یاد ہے کہ کووڈ کی وبا میں مرنے والے ادیبوں کی یاد میں بھی ’ دربھنگہ ٹائمز ‘ نے ایک خاص شمارہ ’ یادِ رفتگاں ‘ کے عنوان سےشائع کیا تھا ۔ شموئل احمد پر گوشۂ کئی وجہوں سے ضروری تھا ، ایک تو اس لیے کہ وہ اردو زبان وادب کے ایک بولڈ فکشن نگار تھے ، بولڈ سے مراد ’ فحش ‘ نہیں ہے ، اس سے مراد ، اپنے موضوع کو ، جرأت کے ساتھ برتنے والاہے ۔ دوم اس لیے کہ شموئل احمد صرف ایک فکشن نگار ہی نہیں تھے ، فکشن پر ان کا اپنا ایک مخصوص نظریہ تھا ، ایک ایسا نظریہ ، جس سے واقفیت ادب کے قارئین کے لیے ضروری ہے ، تاکہ وہ اردو فکشن کے تنوع کو آسانی سے سمجھ سکیں ۔ ساتھ ہی شموئل احمد کا اپنا ایک اسلوب ، اور ان کی اپنی لفظیات ہیں جو ، انہیں دوسرے فکشن نگاروں سے ممیز کرتی ، اور ان کے قارئین کو اردو فکشن نگاری کے الگ الگ رویوں سے آگاہ کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنے اداریہ ’ کہنے کی بات ‘ میں شموئل احمد کی موت پر اپنے دکھ اور ’ دربھنگہ ٹائمز ‘ سے مرحوم کے مراسم کا تذکرہ کرتے ہوئے سچ ہی لکھا ہے ، کہ ’’ شموئل احمد کے انتقال کی خبر نے پوری ادبی دنیا کو صدمے میں ڈال دیا ۔ ‘‘ شموئل احمد تھے ہی ایسے کہ ان کی موت کا غم ساری ادبی دنیا کا غم بن گیا ۔ وہ مزید لکھتے ہیں ، ’’ مجھے بطور خاص ان کے جدا ہوجانے کا افسوس ہے کیونکہ میں نے خود کو ہمیشہ ان سے قریب پایا ۔ شموئل صاحب ایک سچے فن کار تھے ۔ ان کی شخصیت اور انداز و اطوار کسی کو بھی گرویدہ بنا لیتے تھے ۔ ان کا اپنا اسلوب تھا ۔ اپنے موضوعات تھے ۔ اپنی ترجیحات تھیں ۔ اپنا زاویۂ نظر تھا ۔ ادب ہو یا اُن کی شخصیت ، شموئل احمد کا انداز سب سے جدا تھا ۔ یہاں تک کہ ان کا قہقہہ بھی منفرد تھا ۔ وہ پورے وجود سے ہنستے تھے ۔ وہ جس طرح دوستی اور محبت کھل کر کرنے کے قائل تھے ، اسی طرح ان کا غصہ اور احتجاج بھی زوردار ہوا کرتا تھا ۔ وہ جلدی نہ تو کسی سے مرعوب و متاثر ہوتے تھے اور نہ خوف زدہ ۔ وہ اپنی شرطوں پر زندگی گزارنے والے ایک کامیاب انسان تھے ۔‘‘ گوشہ میں ۱۸ تخلیقات شامل ہیں ، جن میں شموئل احمد کے افسانوں اور ناولوں کے تنقیدی جائزے ، انٹرویو ، مرحوم کی تحریریں اور لوگوں کےتاثرات پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ پروفیسر طرزی کی ایک نظم ہے ، جس کا ایک شعر ملاحظہ ہو :
شموئل احمد کے آگے خاں ہے جو نام اُن کا
جہانِ فن میں ہے بیشک اعلیٰ مقام ان کا
معروف نقاد عتیق اللہ نے اپنے مضمون ’ شموئل احمد کا گزرگاہ ’ گرداب ‘ میں ناول ’ گرداب ‘ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مرحوم کی شخصیت کا تجزیہ کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ شموئل کے نفسیاتی ادراک اور تیز فہمی کے اشتراک کی بنیاد پر ان میں انسان شناسی کے جس جوہر نے نمو پائی ہے اس کا رخ باہر میں جتنا نمایاں ہے اس سے زیادہ باطن میں مخفی ہے ، جیسا کہ کہا گیا ’ شموئل کو اندرون کا سراغ لگانے میں زیادہ لذت ملتی ہے ۔ ‘‘ یہ ایک وقیع مضمون ہے ۔ آفتاب احمد فاروقی نے اپنے مضمون ’ ایک بانکا تخلیق کار ؛ شموئل احمد ‘ میں مرحوم کے چند افسانوں کا تجزیہ کیا ہے ، ان کی نظر میں شموئل احمد کے افسانوں میں ’’ موضوعی سطح پر یکسانیت پائی جاتی ہے ، یعنی ان کے متعدد افسانے کی بُنت میں جنسی ناآسودگی کی کارفرمائی واضح طور پر نظر آتی ہے ۔ ‘‘ یہ مضمون بحث کے دروازے کھول سکتا ہے ۔ نورالحسنین نے ’ ناول مہاماری : مختصر تعارف ‘ کے ذریعے ان کے مشہور ناول ’ مہا ماری ‘ کا بہترین تعارف کرایا ہے ۔ پروفیسر اسلم جمشیدپوری کا مضمون ’ شموئل احمد کی تحریر کا انوکھاپن ‘ ایک اچھا مضمون ہے ، وہ اس مضمون میں یہ بتاتے ہیں کہ مرحوم کی تحریر کا انوکھاپن ’ بے باکی ‘ ہے ۔ ڈاکٹر سیّد احمد قادری اپنے مضمون ’ شموئل احمد ؛ ایک متنازعہ قصہ گو ‘ میں ، شموئل احمد کے افسانوں سے اٹھنے والے تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ، ’’ شموئل احمد پر فحاشی کا بھی الزام عائد کیا گیا( لیکن ) حقیقت یہ ہے کہ شموئل احمد نے اپنے افسانے میں عہدِ حاضر کے جبر و ظلم کو جس فنکارانہ انداز میں برتا ہے وہ انھیں اپنے ہم عصر فنکاروں سے منفرد بناتا ہے ۔ ‘‘ چار اہم مضامین مزید ہیں ، احمد صغیر ( گیا ) کا ’ شموئل احمد ایک زندہ دل انسان ‘ ، رخشندہ روحی صبوحی کا ’ میں منٹو نہیں شموئل احمد بننا چاہتا ہوں ‘ ، محمد غالب نشتر کا ’ موت سے کس کو رستگاری ہے ‘ ، اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی کا ’ بیباک ، البیلا فکشن نگار : شموئل احمد ‘ ۔ شموئل احمد سے دو مکالمے ، ایک کامران غنی صبا کا اور ایک ڈاکٹر منصور خوشتر کا ، نیز ان کی دو کہانیاں ، ایک مضمون اور ’ دربھنگہ ٹائمز ‘ میں چھَپے ان کے مراسلے اس شمارہ میں شامل ہیں ، ساتھ ہی ’ دربھنگہ ٹائمز ‘ پر مرحوم کے تاثرات بھی دیے گیے ہیں ، ان تحریروں اور مکالموں سے شموئل احمد کے ادبی رویے اور رجحان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ یہ ایک وقیع گوشہ ہے ، اس کے لیے ڈاکٹر منصور خوشتر کی محنت کو سراہا جانا چاہیے ۔
اس شمارہ میں مذکورہ گوشے کے علاوہ دیگر مضامین بھی وقیع ہیں ۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے دو بڑے فکشن نگاروں ، ذکیہ مشہدی اور خالد جاوید ، کے انٹرویو کیے ہیں جنھیں اس شمارہ میں شامل کیا گیا ہے ، یہ انٹرویو دونوں ہی فنکاروں کے ، ادب بالخصوص ناول اور افسانوں کے بارے میں نظریات سامنے لانے میں کامیاب ہیں ۔ کہانیاں ، نظمیں اور تبصرے معمول کے مطابق ہیں ۔ سابقہ شمارے میں خالد جاوید پر ایک گوشہ شائع کیا گیا تھا ، اس پر جو تبصرے کیے گیے تھے ، انھیں اس شمارہ میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ اس شمارہ کو حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 9234772764 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ، شمارہ کی ضخامت 280 صفحات ہے ،اور قیمت 300 روپیہ ہے ۔
سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کا وقیع گوشۂ شموئل احمد- شکیل رشید
previous post