Home نقدوتبصرہ سلیقۂ تسمیہ : نام رکھنے کی نبوی ہدایات پر مشتمل ایک مکمل نصاب – شکیل رشید

سلیقۂ تسمیہ : نام رکھنے کی نبوی ہدایات پر مشتمل ایک مکمل نصاب – شکیل رشید

by قندیل

بچپن میں جِن ناموں نے حیرت میں ڈالا تھا اُن میں ایک نام چھٹن تھا ۔ چھٹن رشتے میں میرے نانا لگتے تھے ، انتہائی شریف النفس اور سادہ لوح انسان تھے ۔ میں یہ سوچا کرتا تھا کہ یہ چھٹن کیسا نام ہے ! بعد میں نہ جانے کتنے حیران کرنے والے نام کانوں سے ٹکرائے ، اور لوگوں کی زبان سے سُنے ۔ بِبن ، بڑکو ، ریو ، لکّی اور نہ جانے کیا کیا ! ایک دلچسپ واقعہ ہے گاؤں کا ؛ ایک صاحب کے یہاں بچوں کے نام جو بھی رہے ہوں وہ پکارے جاتے تھے سدّر اور گُدّر کے نام سے اور والد صاحب کو بھدّر کہہ کر پکارا جاتا تھا ، جب ان کے یہاں ایک اور لڑکے کی آمد ہوئی تو گاؤں کے حافظ جی کے پاس گئے کہ حافظ جی کوئی نام بتا دیں ۔ حافظ جی نے کچھ طنز سے کہا تمہیں نام تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ، سدّر اور گُدّر کے وزن پر چِتّھر رکھ دو ۔ حافظ جی کی بات کچھ غلط بھی نہیں تھی ، اکثر مسلمان اپنے بچوں کے نام ہی ایسے رکھتے ہیں کہ سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ اوپر جو نام آئے ہیں کیا ان سے کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ سب مسلمانوں کے نام تھے / ہیں ؟ یقیناً نہیں ۔ اور اب تو مزید ستم ہے کہ ’ ماڈرن نام ‘ تلاش کیے جاتے ہیں ! گویا یہ کہ سارے اسلامی نام اب ’ غیر ماڈرن ‘ ہوگئے اس لیے متروک ٹھہرے ! جبکہ اسلام ماڈرن نہیں ’ اچھے ‘ نام رکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔ حدیث شریف ہے : ’’ قیامت کے دن تمہیں تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا اس لیے نام اچھے رکھ کر آنا ‘‘ ( ابو داؤد ) ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ جانے کہ اچھے نام سے کیا مراد ہے اور اسلام میں نام رکھنے کے کیا آداب ہیں ۔ حال ہی میں اس موضوع پر ایک اہم کتاب ’ سلیقۂ تسمیہ یعنی نام کیسا اور کیوں رکھیں ‘ کے نام سے آئی ہے ، اس میں بتایا گیا ہے کہ نام رکھنے کی نبوی ہدایات کیا ہیں اور تسمیہ کے نبوی مزاج اور ناموں کے تعلق سے نبوی تعلیمات کیا ہیں ۔ مصنف عبدالرّب قاسمی ( فاضل دیوبند ) نے اسے ’’ ایک مکمل نصاب اور کامل سلیقۂ تسمیہ ‘‘ کہا ہے ۔ اس کتاب میں ۱۱۴ عنوانات کے تحت ’ سلیقۂ تسمیہ ‘ پر بات کی گئی ہے ۔ کتاب ترتیب دینے کا خیال عبدالرّب قاسمی کو کیوں اور کیسے آیا ، اس کا ذکر انہوں نے دیباچہ ’ وہ جو لکھنے کا سبب ہوا ‘ میں خوب صورت انداز میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ اس کتاب کے لکھے جانے کا سبب یہ ایک روایت بنی ہے : إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيمَةِ بِاسْمِائِكُمْ وَأَسْمَاءَ آبَائِكُمْ فَحَسْنُو أَسْمَائِكُمْ (ابوداؤد ) یعنی میدان محشر میں تمہیں تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا اس لیے نام بہت اچھے رکھ کر آنا ۔ روایت کے پس منظر میں موجود درایت ، درد اور احساس کو میں نے کچھ اس طرح سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ اولین و آخرین سے بھرے ہوئے میدان محشر میں حضور ﷺ میزانِ عدل کے پاس جلوہ افروز ہوں گے ۔ وہیں سے تمام انسانیت کے نام یکے بعد دیگرے پکارے جا رہے ہوں گے ۔ آپ ذرا سوچ کر دیکھیے نام پکارے جانے والے کسی مجمع میں اگر کوئی بھدّا اور بے تکا سا نام پکارا جائے تو وہاں موجود پورا مجمع استہزاء اور تمسخر سے ہنس پڑتا ہے ۔ ایسے وقت میں نام والے اس کی سبکی ، ندامت ، شرمندگی ، ہزیمت اور شکستگی کا حال پوچھیے ۔ زمین میں گڑ جانے اور روپوش ہو جانے کو جی چاہتا ہوگا ۔ اور یہ احساس صرف اس کا ہی نہیں بلکہ وہاں موجود والدین ، سرپرستوں ، بزرگانِ خانوادہ اور اساتذہ کا بھی ہوگا ۔ اس سے آگے سوچیے تو اس کے مذہب اور مذہبی تعلیمات کی بھی رسوائی کا سبب بنے گا ۔ کیا ( اس وقت یہ سوال نہیں اٹھیں گے کہ ) کیا ان کے نبی نے انہیں نام رکھنے کا سلیقہ نہیں سکھایا تھا ، نام رکھنے کی تعلیم نہیں دی تھی ، نام کے انتخٓاب کی ہدایت نہیں دی تھی ؟ اس طرح کے نامناسب اور نا پسندیدہ منظر سے بچنے کے لیے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ روایت بطور تنبیہ امت کو ارسال کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے مقابلہ میں اپنی امت کے اعمال و احوال پر فخر کرنے کے بہت مشتاق و منتظر ہیں یہ بات تو سیکڑوں روایات میں موجود ہے ۔ امت کو ہر گام پر اس کا بہت پاس و لحاظ رکھنا چاہیے ۔ یہ میرا احساس ہے مذکورہ روایت کے پس منظر میں اور اسی احساس نے مجھے اس طویل و ضخیم مسودہ کے لیے آمادہ کیا اور لاک ڈاؤن کے عرصہ میں وقت کو کارآمد بنانے کی یہی تدبیر نا چیز کے سمجھ میں آئی ۔‘‘

ابتدائی حصے میں کتاب پر ، چھ بڑے علمائے دین کی تقاریظ شامل ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی لکھتے ہیں : ’’ پیش نظر کتاب ’ سلیقۂ تسمیہ ‘ میں نام رکھنے کے سلسلہ میں مفصل گفتگو کی گئی ہے ۔ خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ اصلاح کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے اور حروف تہجی کی ترتیب اور دیگر عنوانات کے تحت اچھے ناموں کی ایک طویل فہرست شامل کر دی گئی ہے ۔ کتاب معلومات افزا ہے اور اس سے صحیح نام رکھنے میں اچھی رہنمائی مل سکتی ہے ۔ اگرچہ بعض مقامات پر مصنف کا لہجہ کچھ زیادہ تلخ ہو گیا ہے ؛ مگر جذبہ صحیح ہے ۔‘‘ استاذ حدیث و نائب متمم دارالعلوم دیوبند مولانا مفتی محمد راشد لکھتے ہیں : ’’ مولانا عبدالرّب قاسمی فرخ آبادی ( جنرل سکریٹری جمیعۃ علماء فرخ آباد ) کی زیرنظر کتاب دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی کہ موصوف نے مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوے ایک نہایت حساس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے ۔‘‘ مفتی محمد سلمان منصور پوری ، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں : ’’ مسلم معاشرہ میں نام رکھنے کے سلسلے میں بڑی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں ، لوگ نت نئے ناموں کے شوق میں بسا اوقات بالکل مہمل نام رکھ لیتے ہیں ، یا کسی مشہور اداکار یا کھلاڑی کے نام کو اختیار کر لیتے ہیں اور اس بارے میں اسلامی ہدایات کو ملحوظ نہیں رکھتے ، حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ علماء سے مشورہ کرکے معنی کے اعتبار سے اچھا نام رکھا جائے ؛ اس لیے کہ ناموں کا اثر بھی بچوں پر پڑتا ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ( مولانا عبدالرّب قاسمی کی ) اس محنت کو قبول فرمائے ۔‘‘ تین مزید تقاریظ مولانا ریاست علی ، مفتی و استاذ حدیث ، اسلامیہ عربیہ مسجد امروہہ ، ڈاکٹر محمد اللہ خلیلی ، کوآرڈینیٹر دارالعلوم دیوبند و چیف ایڈیٹر دیوبند آن لائن اور مولانا مفتی ظفراحمد قاسمی کی تحریر کردہ ہیں ۔

کتاب کے آغاز میں مصنف نے صاحبِ اولاد ہونے کو اللہ کی ایک بڑی نعمت بتلاتے ہوے تربیت اولاد کی نبوی ہدایات پر روشنی ڈالی ہے ، بالخصوص اچھا نام رکھنے کی ہدایت پر ۔ اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’ نام اچھا کون سا ہے اور بُرا کون سا اس کی وضاحت کون کرے گا ؟‘ مصنف اس کا جواب بھی دیتے ہیں : ’’ یہاں تو اعتبار صرف اور صرف معلم کائنات اور محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کی پسند و ناپسند کا کیا جائے گا ۔‘‘ مصنف لکھتے ہیں : ’’ عالم یہ ہے کہ علوم عصریہ کا بلند پایہ ماہر اپنے نام کی صحیح اسپیلنگ نہیں جانتا اور جو لوگ ان پڑھ کہلاتے ہیں ان کے تو سو کے سو فیصد ناموں کا اندراج غلط ہوتا ہے ۔ اور ان کو احساس وشعور نہیں ہو پاتا ، نہ وہ خود جانتے ہیں اور نہ لکھنے والے کو بتلا سکتے ہیں ، محسوس ہوتا ہے کہ امت نے نام رکھنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور تعلیمات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے ، نہ اس سلسلے کی صحیح معلومات لوگوں کے پاس ہیں اور نہ ہی وہ جاننا چاہتے ہیں ۔ من مانی اور خود پسندی کا عالم یہ ہے کہ اگر آپ سے کوئی شخص آکر فرمائش کرتا ہے کہ مولانا ! اللہ نے مجھے بیٹا عنایت کیا ہے اس کا کوئی اچھا سا نام تجویز کر دیجیے ۔ آپ نے اپنی عالمانہ شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے نام تجویز کیا ابراہیم ، اسماعیل ، ادریس ، الیاس یا داؤد تو جواب ملے گا کہ یہ تو بڑے بوڑھوں والے نام ہیں ۔ اور اگر آپ نے نام تجویز کیے ابو بکر ، عمر ، عثمان اور علی تو جواب ملے گا یہ بہت پرانے نام ہیں ، اگر آپ عبدالرحمان ، عبدالرحیم ، عبدالرؤف اور عبدالخالق نام تجویز کر دیں تو جواب آئے گا یہ لمبے نام ہیں ۔ اور جب آپ خباب ، حبیب ، حماد ، صہیب ، بشار و جریج نام تجویز کر دیں گے تو جواب آئے گا یہ نام سب لوگ لے نہیں پائیں گے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نام رکھنے کے سلسلے میں پھیلی ہوئی جہالت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ہلکی پھلکی کوشش سے ان کو اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں رہا ۔‘‘

آگے چھوٹے چھوٹے عنوانت کے تحت سلیقۂ تسمیہ کی تربیت دی گئی ہے ۔ کچھ عنوانات ہیں ، ’ قرآن سے نام رکھنے کی جسارت دیکھیے ‘ ، ’ لفظ عبد سے نام رکھنے کا اصول ‘ ، ’ شگون اور فال کی حقیقت ‘ ، ’ نام شخصیت ہی نہیں بلکہ نسل کو بھی متاثر کرتا ہے ‘ ، ’ نام ہر وقت تبدیل کیا جا سکتا ہے ‘ ، ’ نئے نام رکھنے کا جنون ‘ ، ’ محمد نام رکھنے کے فضائل و برکات ‘ ، ’ صحابہ کے نام رکھنا بھی باعثِ برکت ہے ‘ ، ’ یزید نام رکھنا کیسا ہے ‘ وغیرہ ۔ کتاب میں اسمائے صحابہ ، اسمائے خلفاء راشدین ، اسمائے عشرہ مبشرہ ، اسمائے مہاجرین ، اسمائے اصحاب عقبہ ، اسمائے شہدائے کربلا ، اسمائے کاتبین وحی بھی دیے گئے ہیں ، اور اسمائے صحابیات بھی ۔ کتاب کے آخری صفحہ پر نام رکھنے کے اصول کو اس طرح پیش کیا گیا ہے : ’’ نام ایسا رکھیے جو میدانِ محشر میں رسوائی اور استہزاء کا سبب نہ بنے ، ایسا رکھیے جو نبی کی ہدایت کے مطابق ہو ، ایسا رکھیے جس میں عبدیت کے معنی اور بندگی کا عنصر موجود ہو ، ایسا رکھیے جو انبیاء ، صحابہ اور صلحاء میں سے کسی کا ہو ، ایسا رکھیے جو انسانی وجود پر منطبق ہو جائے ، ایسا رکھیے پکارتے وقت جس کی فال درست آئے، نام ایسا مت رکھیے جس میں اپنی تعریف کی گئی ہو ، ایسا مت رکھیے جو دشمنان انبیاء و دین کا ہو ، ایسا مت رکھیے جس کے معنی بچے کی شخصیت پر منفی اثر ڈالیں ،ایسا مت رکھیے جس میں شرک اور بغاوت کے معنی ہوں ، ایسا مت رکھیے جو فلم انڈسٹری یا ڈرامہ سیریلس میں چل رہا ہو ، نام ہمیشہ باتوفیق اور ذی علم شخصیت سے رکھوائیے ، نام ہمیشہ پرانا اور امت کے نکوکاروں میں متداول رکھیے ، ہمیشہ عربی زبان کے رکھیے ، نئے اور چونکانے والے مت رکھیے ، نام میں صرف نسبت دیکھیے اسٹارس مت دیکھیے ، صحابہ ، انبیاء ، اولیا اور صلحاء کے نام رکھتے وقت معنی مت پوچھیے ۔‘‘ یہ ایک اہم کتاب ہے ، اور آج کی نئی نسل کے لیے ، جو دین سے دور ہوتی جا رہی ہے ، بہت مفید ہے کہ اسے صحیح اسلامی نام رکھنے کی ہدایات کا پتہ چل سکے گا ، اور ان شاء اللہ اس سے اس کا مزاج دینی بن سکے گا ۔ کتاب 470 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت تحریر نہیں کی گئی ہے ۔ یہ کتاب مصنف نے خود شائع کی ہے ، کتاب منگوانے کے لیے رابطہ کریں 9838956252 نمبر پر ۔

You may also like