اے رحمان صاحب سے ایک سوال پوچھا تھا ( وہی دہلی والے اے رحمان ، جنہیں قانون اور آئین کی شقیں ازبر ہیں ، لیکن وہ صرف ماہر قانون ہی نہیں ، مختلف فنون کے ماہر ہیں ، ادب کے بھی ) ، ’’ آپ نے سالم سلیم کا مجموعہ کلام ’ واہمہ وجود کا ‘ ملاحظہ کیا ہے؟ ‘‘ ، جواب فوراً ملا ،’’ ہاں ! یہ شاعری لیک سے ہٹ کر ہے ۔‘‘ یہ جواب میرے لیے سالم سلیم کے کلام کے مطالے اور اس پر غور کرنے کے لیے کافی تھا ۔ سالم سلیم کی شاعری کا تعارف اگر ایک جملے میں کرنا ہو تو میں کہوں گا ،’ بھیڑ میں بھی منفرد ‘، اور اگر ایک لفظ میں تعارف کرنا ہو تو کہوں گا ،’ لاجواب ‘ ۔ یہ شاعری روایتی نہیں ہے ، مگر روایت سے ہٹی ہوئی بھی نہیں ہے ۔ اس شاعری میں جدید اندازِ فکر ٹھاٹھیں مارتا ہے ، لیکن یہ صرف جدید شاعری بھی نہیں ہے ۔ یہ شاعری یقیناً وجودی ہے ، لیکن اس میں اتنے رنگ گھلے ہوئے ہیں کہ یہ صرف وجودی شاعری نہیں کہی جا سکتی ، زندگی اور بعد از زندگی کے کتنے ہی فلسفے اس شاعری میں تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ یہ شاعری کہیں کہیں مشکل بھی ہے ، اپنی تشبیہات اور استعارات کے لحاظ سے ، لیکن اس میں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں مومنؔ کا وہ انداز پایا جاتا ہے جسے سہل ممتنع کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ، یہ شاعری وجودی ہے ، لیکن اس میں ہر طرح کے رنگ گھلے ہوئے ہیں ، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس شاعری کا مطالعہ اگر صرف وجودی سمجھ کر بھی کیا جائے تو ہر رنگ اور ہر شیڈ وجودی رنگ میں رنگا نظر آئے گا ۔ مختصراً یہ کہ سالم سلیم نے اپنے اس مجموعے میں جو غزلیں اور متفرق اشعار شامل کیے ہیں ، ان میں شاعری کے تمام رنگ نظر آتے ہیں ، لیکن ایک وحدت میں ڈھلے ہوئے ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ مثالیں پیش کروں یہ ضروری ہے کہ خود شاعر کی اپنی شاعری کے بارے میں کیا رائے ہے ، اور کسی دوسرے کی نظر میں ان کی شاعری کیا معنی رکھتی ہے ، اس پر ایک نظر ڈال لیں ۔
مجموعے اور شاعر کا تعارف معروف شاعر فرحت احساس نے ’ حرفِ استقبال ‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے ؛ وہ لکھتے ہیں ، ’’ سارے سچے شاعروں کی طرح سالم سلیم نے بھی شاعری کی بساط اپنی ذات کے نہاں خانوں میں بچھائی ہے جہاں وہ آئینہ نصب ہے جس میں باہر اور اندر کے تمام عکس و نقش ایک دوسرے پر عمل کرتے ہوئے ، معنی کی اپنی ایک دنیا آباد کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اظہار کے وسیلے کے طور پر زبان کی گہری فہم اور اس کے اسرار و طلسم کی آگہی بھی اس شاعر کا بہت بڑا سرمایہ ہے ۔ زبان کی یہ فہم اپنی شعری روایت کی تعبیرِ نو کی زمین تیار کرتی ہے جہاں ہر نئی شعری ذہانت کو اپنی نمو و نمود کے وسائل فراہم ہوتے ہیں ۔‘‘ فرحت احساس مزید لکھتے ہیں ، ’’ ان کی شاعری وجود کے تخلیقی سرچشموں کو جاری کرتے حرف کو اپنے ہونے کی بنیاد بنانے کی ایک مسلسل جد و جہد سے عبارت ہے ۔‘‘ فرحت احساس کے مذکورہ تعارف میں دو جملے غور کرنے کے ہیں ؛ ’’ سالم سلیم نے بھی شاعری کی بساط اپنی ذات کے نہاں خانوں میں بچھائی ہے ‘‘، اور نہاں خانوں میں نصب آئینے کے تمام عکس و نقش کے حوالے سے یہ جملہ ، ’’ معنی کی اپنی ایک دنیا آباد کرتے ہیں ۔‘‘ یہاں ذات کے نہاں خانوں سے مُراد ایسی شاعری جو وجود اور ذات کے اردگرد گھومتی ہو ، لیکن فرحت احساس یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اس وجود اور ذات کی شاعری سے سالم سلیم ’’ معنی کی ایک دنیا آباد کرتے ہیں ‘‘ ، یعنی یہ شاعری بھلے وجود اور ذات کے گرد گھومتی نظر آتی ہو لیکن اس میں معنی کی ایک دنیا آباد ہے ، جو اس شاعری کو محدود کرنے کے بجائے آفاقی بنا دیتی ہے ۔
سالم سلیم نے اپنے پہلے مجموعے کو پیش کرتے ہوئے ، ’ …اور پھر بیاں اپنا ‘ کے عنوان سے لکھا ہے : ’’ شاعری ، میرے لیے لفظ کی رفاقت میں اپنا استعارہ تلاش کرنے کی کوشش ہے ۔ ساری کائنات استعارات کے ایک باہم مربوط سلسلے سے عبارت ہے ۔ سو شاعری کو بھی مادی کائنات میں سے آدمی برآمد کرنے کا استعاراتی عمل کہا جا سکتا ہے ۔ لفظ کا یہ استعاراتی عمل نہایت بھید بھرا ہے ۔ میں نے اپنے طور پر اس بھید کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے اس بھید کو کھول لیا ہے ۔ دراصل شاعری معلوم سے نامعلوم کا ایک تخلیقی سفر ہے ۔ شعر کی تخلیق آگہی اور علم سے پرے جا کر اپنے بے کنار اور لامحدود سے ربط قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ لفظ کے ذریعے تخلیقی اظہار اپنے ہونے کا نعم البدل بن جاتا ہے ۔ اور یہی وہ منزل پے جہاں شاعر سرشاری میں رقص کرنے لگتا ہے ۔ آپ اپنا تلاش کرنے کی خواہش جب شدت اختیار کر لیتی ہے تو حرف لفظوں میں اور لفظ مصرعوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں ۔ کوئی بھی خارجی واقعہ آج تک میرے لیے تخلیقی محرک نہ بن سکا ۔ میں تو وقوعے کی داخلیت پر اپنی پونجی صرف کرتا ہوں اور واقعہ میرے اندرون سے پھوٹنے لگتا ہے ، پھر میرے اطراف میں لفظوں کا سایہ طویل تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہ غزلیں شاید میں نے نہیں کہی ہیں ، بلکہ میرے لہو میں کوئی سرگرم ہے جو میرے مصرعوں کو آہنگ اور موزونیت دیتا ہے ۔ لہو میں رواں اس شے کو آپ سالم بھی سمجھ سکتے ہیں اورسلیم بھی ۔ یہ شاعری انھیں دونوں کی پیکار طلبی اور اذیت کوشی کا نتیجہ ہے ۔‘‘
سالم سلیم نے اپنے اس مجموعے کو پیش کرتے ہوئے جو لکھا وہ پورا کا پورا اوپر پیش کر دیا گیا ہے ۔ اس تحریر سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں ؛ ایک یہ کہ شاعری کے ذریعے شاعر خود کو تلاش کر رہا ہے ، یعنی یہ تلاشِ ذات کی شاعری ہے ، اور دوسرا یہ کہ تلاشِ ذات کا یہ عمل ، جسے وہ استعارتی عمل کہتے ہیں ، بھید بھرا ہے ، اور شاعر ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ اس بھید کو کھولنے میں کامیاب رہا ہے ، یعنی اسے تلاشِ ذات میں کامیابی ملی ہے ۔ لیکن وہ ناکامی کا اعتراف بھی نہیں کرتا ۔ ممکن ہے وہ کامیاب ہو گیا ہو ، یا اگر کامیاب نہ ہوا ہو تو بھید کو پانے اور کھولنے کا یہ سفر جاری ہے ، اور جاری رہے گا ۔
جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں کہ ’ اس مجموعے میں جو غزلیں اور متفرق اشعار شامل کیے گیے ہیں ، ان میں شاعری کے تمام رنگ نظر آتے ہیں ، لیکن ایک وحدت میں ڈھلے ہوئے ۔‘ مثال کے طور پر درج ذیل اشعار ملاحظہ کریں ؎
سویا ہوا ہے مجھ میں کوئی شخص آج رات
لگتا ہے اپنے جسم سے باہر کھڑا ہوں میں
میں اپنی خاک میں زندہ رہوں ، رہوں نہ رہوں
دراصل میرے لیے مسٔلہ وجو د کا ہے
یہ بارِ جسم آخر میں نے اٹھا لیا ہے
اعضا چٹخ رہے تھے اور میں بھی تھک رہا تھا
حصارِ ذات سے کوئی مجھے بھی تو چھڑائے
مکاں میں قید مجھ میں لامکاں پھیلا ہوا ہے
شاعر نے ان تمام اشعار میں ، مختلف رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے ، اپنی ذات ، اپنے وجود کی بات کی ہے ، اس طرح یہ اشعار مختلف رنگوں کے ہوتے ہوئے بھی ایک وحدت میں ڈھل گیے ہیں ۔ شاعر نے اپنے سارے تجربات ، ساری محرومیاں ، سارے غم اور سارے کرب ، حالاتِ حاضرہ ، سیاست اور بدامنی سب اپنی غزلوں اور اپنے اشعار میں سمو دیے ہیں ، لیکن اس طرح کہ سب ان کے اپنے وجود کا حصہ بن گیے ہیں ! وجود بھی کیسا ؟ واہمہ سا ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ حالات اس کے وجود کو ، جو ایک حقیقت ہے ، واہمہ بنا دیتے ہیں ، یا حالات کے سبب شاعر اپنے وجود کو واہمہ سمجھنے پر راضی ہے ؎
یہ تم نہیں ہو کوئی دھند ہے سرابوں کا
یہ ہم نہیں ہیں کوئی واہمہ وجود کا ہے
سالم سلیم کی شعری کائنات میں موت ، آسمان ، جسم ، دھواں ، شعلے ، زیادہ ، روح اور بدن جیسی لفظیات کا تخلیقی استعمال بار بار ہوا ہے ۔ وہ سیاسی منظرنامے کو بھی نظرانداز نہیں کرتے اور اشاروں ہی اشاروں میں بڑے بڑے واقعات کی تصاویر نظروں کے سامنے لے آتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
کیسا ہنگامہ بپا ہے کہ مرے شہر کے لوگ
خامشی ڈھونڈنے غاروں کی طرف جاتے ہوئے
ایک زمانہ تھا جس کی مٹھی میں
وقت اسے بھی نگل رہا ہوگا
گھنٹیاں بجتی ہیں اب ذہن کے دروازے پر
مسجدیں ٹوٹ رہی ہوں مرے اندر جیسے
دیکھتا رہتا ہوں شہروں پہ دھوئیں کے بادل
اور اٹھتے ہوئے شعلے نظر آتے ہیں مجھے
اس مجموعے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ شاعر نے کہیں اپنے تخلص کا استعمال نہیں کیا ہے ! ایک بات جو قدرے کھٹکتی ہے ، وہ ہے تین یا چار اشعار کی غزلیں ! ممکن ہے اس کا سبب سالم سلیم کا اپنے کلام کے معیار کو ایک سطح پر رکھنے کے لیے سخت مدیرانہ قطع و برید ہو ۔ خیر جو بھی ہو ، اے رحمان نے بالکل سچ کہا ہے ، یہ شاعری لیک سے ہٹ کر ہے ، اور اس کے لیے سالم سلیم مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اور ’ ریختہ فاؤنڈیشن ‘ ( جس کے تحت ’ ریختہ بُکس ‘ سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے ، اور کیا ہی خوب صورت شائع ہوئی ہے ! ) کے بانی سنجیو صراف بھی ، جو اردو زبان سے بے پناہ محبت میں صوری اور معنوی حسن سے بھرپور کتابیں شائع کر رہے ہیں ۔ کتاب 126 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 200 روپیے ہے ، اسے حاصل کرنے کے لیے ’ ریختہ بکس ڈاٹ کام ‘ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
چلتے چلتے دو شعر پیش ہیں ؎
ہم کتنا ہی بہلائیں ، نہیں بہلے گا یہ دل
ہم کتنا ہی سمجھائیں ، پریشان رہے گا
اپنا کیا ہے کہ تری محفل میں
آنے لگ جائیں جانے لگ جائیں