Home تجزیہ سلام ہے ان خواتین کو ! – شکیل رشید

سلام ہے ان خواتین کو ! – شکیل رشید

by قندیل

ہمانشی نروال ایک بیوہ ہے ۔ ایک فوجی لیفٹننٹ ونئے نروال سے اس کی شادی کو تین دن ہی گزرے تھے ، کہ پہلگام میں دہشت گردوں کے حملے میں اس کا شریک سفر مارا گیا اور وہ اپنے شوہر کی لاش کے پاس بیٹھی بین کرتی رہ گئی ! بین کرنے کی یہ تصویر بی جے پی آئی ٹی سیل کے بے حس گِدھوں کو اس قدر بھائی تھی کہ انہوں نے اسے سارے ملک بلکہ بیرون ملک تک وائرل کر دیا ۔ تصویر کے ساتھ یہ پیغام بھی وائرل ہوا ’دھرم پوچھ کر مارا ذات نہیں‘ ۔ گویا اپنے شوہر کی لاش کے پاس الاپ کرتی ہمانشی نروال ، بی جے پی کی اس مشین کا ، جس کا کام نفرت پھیلانا ہے ، ایک حصہ بنا دی گئی تھی ! لیکن ہمانشی نروال نفرت پھیلانے کی مشین کا پرزہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے،کیونکہ وہ تو سراپا محبت ہے ۔ اسے خوب پتا ہے کہ کسی عورت کا شوہر اس سے چھن جائے تو اس عورت پر کیا گزرتی ہے ، اس لیے وہ نہیں چاہتی کہ نفرت کے تاجر دوسری عورتوں کو بیوہ کرتے گھومیں ۔ ہمانشی نروال نے دہشت گردی کا انتہائی خوف ناک روپ دیکھا ہے ، جس میں کسی کا بیٹا جان سے گیا تو کسی کا بھائی ۔ اس نے دیکھا ہے کہ دہشت گردی کے بعد حقیقتاً وہ لوگ اس کی مدد کے لیے اس کے آس پاس کھڑے رہے ، جنہیں آج نفرت کے تاجر نشانے پر لیے ہوئے ہیں ، جو اس کے شوہر کی موت کو نفرت پھیلانے کے لیے بطور علامت استعمال نہیں کرنا چاہتے ۔ لہذا اس نے بیوگی کی حالات میں ، ایک بہادر فوجی کی بہادر بیوہ کی طرح سامنے آکر کہا کہ ’کشمیریوں اور مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ نہ بنایا جائے ، مجھے صرف امن اور انصاف کی ضرورت ہے‘۔ ایک وطن پرست فوجی کی محب وطن بیوہ ہی اس ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کر سکتی ہے ۔ ہمانشی نروال کو خوب پتا تھا کہ اس کا یہ بولنا بی جے پی آئی ٹی سیل کے کرگسوں کو پسند نہیں آئے گا ، لیکن اس نے اپنے فرض کو مقدم جانا اور اندھ بھکتوں کو ، یرقانیوں کو للکار دیا ۔ اور اب یرقانی پاگل کتوں کی طرح بلبلا رہے ہیں ۔ جو بزدل اور بے شرم ہوتے ہیں وہی کسی بیوہ کو گالیاں دے سکتے ہیں ، اسے ’شوہر کو کھا جانے والی‘کا طعنہ سنا سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ یہ جلد ہی کوئی دوسرا مرد ڈھونڈ لے گی ! یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں کے لیے دل میں نفرت بھرے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ ہمانشی جیسی خواتین کی ہمت کو توڑ نہیں سکتے ۔ ایک اور ہندوستانی ناری ہے نیہا سنگھ راٹھوڑ ۔ ایک لوک گائیکا ، ایک فنکارہ جس نے اپنے گیتوں اور اپنے سوالوں سے آمروں کے تخت ہلا دیے ہیں ۔ نیہا سنگھ پر مقدمہ درج کر دیا گیا ہے ، سنگین دفعات لگا دی گئی ہیں، صرف اس ‘ جرم ‘ کے لیے کہ اس نے سوال پوچھ لیا تھا کہ کون ہے پہلگام کے دہشت گردانہ حملے کا ذمے دار؟ اس نے سوال پوچھ لیا تھا کہ پی ایم مودی پہلگام کے متاثرین سے ملنے کیوں نہیں گئے؟ اس نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ سوال دریافت کرتی رہے گی کہ جمہوریت اور اس ملک کا آئین اسے یہ حق دیتا ہے ۔ اور یہ حکمراں سوالوں سے بچتے کیونکہ ان کے پاس جواب نہیں ہیں ۔ ایک اور خاتون ہے ، لکھنؤ یونیورسٹی کی ایک اسسٹنٹ پروفیسر مدری کاکوٹی عرف ڈاکٹر میڈوسا جو اے بی وی پی کے کوؤں ، شرپسند بجرنگیوں بلکہ سارے ہی یرقانیوں کے سامنے ایک چٹان کی طرح کھڑی ہے ۔ ڈاکٹر میڈوسا نے بھی سوال پوچھنے کی ہمت کی تھی ، سوال پہلگام دہشت گردانہ حملے پر ۔ جواب دینے کی بجائے اس پر ایف آئی آر درج کر دی گئی ۔ ڈاکٹر میڈوسا نے حاکمِ وقت کو للکار کر کہا ہے کہ وہ سوال پوچھتی رہے گی چاہے جو ہو جائے ۔ پی ایم اب تک متاثرین سے ملنے نہیں پہنچے ہیں ، ہاں مگر وہ پٹنہ پہنچے ، ممبئی آئے اور کیرالہ اپنے عزیز گوتم اڈانی کے پورٹ کے افتتاح میں گیے ۔ کیا ان سے سوال کرنا کچھ غلط ہے؟ یقیناً نہیں ۔ سلام ہے ان تینوں جری خواتین کے لیے کہ وہ سوال پوچھنے کا اپنا جمہوری اور آئینی حق ایسے میں بھی نبھا رہی ہیں جب بڑے بڑے بہادروں کی زبانیں مارے خوف کے گنگ ہیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like