Home ستاروں کےدرمیاں سلام بن رزاق: ایک عہد تھا تمام ہوا- اسلم رحمانی 

سلام بن رزاق: ایک عہد تھا تمام ہوا- اسلم رحمانی 

by قندیل

شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور 

افسانہ ادب کی نثری صنف ہے۔ لغت کے اعتبار سے افسانہ جھوٹی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں یہ لوک کہانی کی ہی ایک قسم ہے۔ ناول زندگی کا کُل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتا ہے۔ جبکہ ناول اور افسانے میں طوالت کا فرق بھی ہے اور وحدت تاثر کا بھی۔افسانہ کو کہانی بھی کہا گیا ہے۔ لیکن موجودہ ادبی تناظر میں افسانے سے مقصود مختصر افسانہ ہے جو کم سے کم آدھے گھنٹے میں یا آدھی نشست میں پڑھا جاتا ہے۔ افسانہ دراصل ایک ایسا قصہ ہے جس میں کسی ایک واقعہ یا زندگی کے کسی اہم پہلو کو اختصاراً اور دلچسپی سے تحریر کیا جاتا ہے۔اس کی ترتیب میں اجزائے ترکیبی کا بہت زیادہ عمل دخل رہتا ہے اور ان میں سے وحدت تاثر کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔پریم چندر کے علاوہ سجاد حیدر اور سلطان حیدر جوش نے بھی اردو میں مختصر افسانہ کے نمونے پیش کیے۔ شروع میں پریم چند نے بنگالی ادب سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا تھا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ‘سوز وطن’1908’میں شائع ہوا۔ ان افسانوں میں سامراج دشمن اور وطن دوستانہ جذبات کی ترجمانی کی گئی تھی اس لیے انگریز حاکموں نے اس مجموعے کو ضبط کر لیا۔ پریم چند کی ابتدائی کہانیوں میں داستانوں کے انداز کی جھلک تھی لیکن بعد میں ان کا فن برابر ارتقا رہا اور انھوں نے اردو افسانہ نگاری کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

کسی افسانہ یا افسانہ نگار کے اچھے ہونے کی یوں تو بہت ساری ادبی کسوٹیاں ہیں جن پر کسی کو کسی افسانہ یا افسانہ نگار کو ادبی اور غیر ادبی کی سند دی جاتی یا دی جا سکتی ہے مگر ادب نواز عوام الناس کے درمیان جس پیمانہ پر اس کو تولا یا کسا جاتا ہے وہ ہے کہ افسانہ کس حد تک عوام کے ذات سے جڑا ہوا ہے، اور عوامی شعور کی کس حد تک ترجمانی کر پا رہا ہے، سیاسی سماجی، معاشرتی مسائل پر افسانہ نگار کی کتنی نگاہ و پکڑ ہے اور فن پر گرفت رکھتے ہوئے وہ اسے کس حد تک نبھا پا رہا ہے۔ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پاتے ہیں کہ سلام بن رزاق ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں۔ 1970ء کے بعد کئی اہم افسانہ نگاروں کے نام آتے ہیں جن میں سلام بن رزاق کا نام سرفہرست ہے۔ممتاز افسانہ نگار، ادیب اور مترجم سلام بن رزاق کی پیدائش 15 نومبر 1941 کو مہاراشٹر میں پنویل میں ہوئی۔ وہ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے 35 برس تک وابستہ رہے۔ 1999 میں بی ایم سی کے ایک اسکول سے پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ سلام بن رزاق ماں کی شفقت سے اسی وقت محروم ہو گئے تھے جب ان کی عمر چھ یا سات برس کی تھی۔ ان کی پرورش ان کی پھوپی نے کی۔ سلام بن رزاق کا بچپن غربت اور محرومی میں گزرا۔ ادب کا ماحول انہیں گھر پر تو نصیب نہ ہوسکا لیکن لائبریری میں اردو، ہندی اور مراٹھی کے ادیبوں کی کتابیں پڑھ پڑھ کر ان کے اندر ادبی ذوق پروان چڑھا۔ سلام بن رزاق کا ادبی رجحان پہلے شاعری کی جانب تھا۔ اسکولی دنوں میں ہی وہ مصرعے موزوں کرنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی اور ہم جماعتوں کی جانب سے منظوم معافی نامہ اپنے ہیڈ ماسٹرکو لکھ کر دیا تھا۔ انہوں نے غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ لیکن داستانیں اور تاریخی اور جاسوسی ناول پڑھتے پڑھتے کب انہیں نثر لکھنے کا سلیقہ آگیا انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوا۔ انہوں نے محرم کی مجلسوں اور وعظ کی محفلوں کے لیے مرثیے بھی لکھے۔

افسانہ نگاری کا آغاز:

سلام بن رزاق نے پہلا افسانہ 1962 میں ‘رین کوٹ’ لکھا جو اس دور کے نہایت معتبر ادبی جریدے ‘شاعر’ میں شائع ہوا۔انہوں نے ہندی اور مراٹھی کی بہت سی کہانیوں کو اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ہندی کی عصری کہانیوں کے ان کے ترجمے کے مجموعے کو 1998 ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازہ گیا۔ ‘شکستہ بتوں کے درمیان’۔ یہ ان کے تحریر کردہ منتخب افسانوں کامجموعہ ہے، جسے ساہتیہ اکادمی نے 2004 میں انعام کا مستحق قرار دیا۔سلام بن رزاق نے تنقیدی مضامین، تبصرے، ڈرامے، ریڈیو فیچر، فیچر فلمیں، بچوں کی کہانیاں لکھیں اور ترجمے بھی کیے لیکن ان کی حقیقی پہچان ایک ایسے افسانہ نگار کے طور پر ہے جس کا اسلوب بیانیہ ہے۔ جو معاشرے کے گھناؤنے چہرے سے بہت اچھی طرح آشنا ہے اور جو نہایت دیانت داری سے معاشرے کی سچائی کو بیان کر دیتا ہے۔ اس کا لہجہ بے باک ہے لیکن اس میں ہلکا پن نہیں ہے۔ بات کو پر پیچ طریقے سے نہیں بلکہ سادہ اور شستہ انداز میں کہنے پر قدرت رکھتا ہے۔ وہ دکھ درد کے ماروں کی یاس اور محرومی کا ترجمان ہے۔ معاشرے کے دبے کچلے لوگوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بقول پروفیسر ابن کنول ’’سلام بن رزاق کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے اردو افسانے کونئی زندگی دی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ ’’آٹھویں دہائی میں لکھنے والے افسانہ نگاروں کی فہرست میں ان کا نام سب سے پہلے لکھا جائے گا۔ اس دہائی کے افسانہ نگاروں نے ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں سے استفادہ کرتے ہوئے الگ راہ نکالی ہے۔‘‘

الغرض سلام بن رزاق کے افسانوں کو اکہری حقیقت نگاری، روایتی کردار نگاری اور سطحی واقعہ نگاری کے افسانوں سے مختلف کرتا ہے بلکہ ایک نئے طرز کے پلاٹ کی تعمیر بھی ہوتی ہے۔ یہی اسلوب ان کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز و منفرد بناتا ہے اور وہ تکنیک کی سطح پر تجربے کرنے والے فن کاروں میں ایک اہم مقام حاصل کر لیتے ہیں۔افسانے، ترجمے بچوں کے ادب پر مشتمل ان کی اب تک 14/ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔سا ہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے تخلیقی ادب اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے ترجمہ جیسے گراں قدر اعزازات کے علاوہ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی ، اترپردیش اردوا کادمی بہار اردو اکادمی ایوارڈزاور کتھا ایوارڈ سے نوازے جاچکے ہیں۔ ان کے کئی افسانوں کے ہندی، مراٹھی، تیلگو، پنجابی کے علاوہ انگریزی، روسی، ازبک، جرمنی اور نارویجن زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پانچ ٹیلی فلمیں اور تین فیچر فلمیں بھی تحریرکی ہیں۔مہاراشٹرا اردو اکادمی کی جانب سے آپ کو ’سنت گیانیشور‘ قومی ایوارڈاورغالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی کی جانب سے’غالب ایوارڈ ‘ سے بھی نوازا گیاہے۔سلام بن رزاق 7/ مئی 2024 کو سانپاڑہ نیو ممبئی میں تقریبا 83 سال کی عمر میں جواں مردی کے ساتھ قرطاس کی کشت میں قلم کا ہل چلا تے۔ الفاظ و معنیٰ کی کاشت کرتے اور مقبولیت کی فصل کاٹتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

You may also like