سلام بن رزاق کے انتقال پُرملال کے ساتھ ممبئی میں اردو زبان کے افسانہ نگاروں کا ایک سنہرا دور اختتام کو پہنچا ۔ مرحوم کو لوگ عام طور پر سلام بھائی ! کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ ہمارے دوست مرحوم م ناگ انہیں بِن رزاق کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ نوجوان ادیبوں کے لیے وہ مربی اور استاذ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ سلام بھائی ! سے زیادہ ، اُن کے دور کا کوئی بھی افسانہ نگار نوجوان ادیبوں سے ، اُن کے مقابلے قریب نہیں رہا ۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہے کہ ان سے پہلے کے ان کے ساتھیوں کو نہ سوشل میڈیا کی سہولت حاصل تھی اور نہ ہی ان کی زندگیوں نے انہیں اتنی مہلت دی کہ وہ نوجوان ادیبوں سے قریب ہو سکیں ۔ اکثر افسانہ نگار ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ عرصہ اس دنیا میں نہیں رہ پائے ، اور جو رہے انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی ، جیسے کہ مرحوم انور قمر ۔ اور باقی جنوبی ممبئی چھوڑ کر دور کی بستیوں میں جا بسے تھے ، جیسے طنز و مزاح نگار فیاض احمد فیضی ، اللہ انہیں صحت اور تندرستی دے ، آمین ۔ میں نے جب ممبئی میں ادبی کتابوں کی مشہور دکان ’ مکتبہ جامعہ ‘ میں آنا جانا شروع کیا تھا ، تب جو ادیب وہاں اکثر نظر آتے تھے اُن میں انور خان ، علی امام نقوی ، مشتاق مومن ، مقدر حمید ، انور قمر ، ساجد رشید ، عنایت اختر ، فیاض احمد فیضی ، م ناگ ، پرویز ید اللہ مہدی اور سلام بھائی کے نام نمایاں ہیں ۔ انور خان ، عنایت اختر اور ساجد رشید اس دنیا میں نہیں رہے ، لیکن ان کی یادیں باقی ہیں ، یہ تینوں ’ مکتبہ جامعہ ‘ میں تقریباً روزانہ آتے تھے کہ یہ قریب ہی کے مُحلّوں میں رہتے تھے ۔ سلام بھائی ! چونکہ ان دنوں کرلا میں رہا کرتے تھے اس لیے وہ ہفتہ میں ایک یا دو بار آ پاتے تھے ، لیکن آتے ضرور تھے ۔ انور قمر کی رہائش باندرہ میں تھی اس لیے وہ روزانہ نہیں آ پاتے تھے ۔ مرحوم علی امام نقوی روزانہ کے آنے والوں میں تھے کیونکہ اُن دنوں وہ بھنڈی بازار کے علاقے ہی میں رہا کرتے تھے ۔ مرحوم مقدر حمید بھی روزانہ نہیں آ پاتے تھے ، اور نہ ہی مرحوم مشتاق مومن ۔ مشتاق مومن کو میں نے بس ایک یا دو دفعہ ہی ’ مکتبہ جامعہ ‘ پر دیکھا تھا ، وہ بیمار تھے ، اور بیماری کے سبب انہوں نے گھر سے باہر نکلنا بند کردیا تھا ۔ آنے والوں میں ایک نام اور یاد آگیا ہے ، مرحوم افسانہ نگار عبدالعزیز خان کا ، جو قریب ہی کی امین بلڈنگ میں رہا کرتے تھے ۔ پرویز ید اللہ مہدی امریکہ چلے گیے تھے وہیں کی مٹّی میں مل گیے ۔ عنایت اختر ممبئی ہی میں آسودۂ خاک ہیں ۔ یہ سب کیا کمال کے لوگ تھے ! جب ملتے تب ادبی صورتِ حال پر ، ادبی تحریکوں پر ، عالمی ادب پر ، افسانہ نگاری پر ، شاعری اور انشائیہ نگاری پر اور اپنے اور دوسروں کے افسانوں پر زوردار بحثیں کرتے ۔ مجھے ان سب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ، بلکہ میں اس گروپ کا احسان مند ہوں کہ ان ہی سے پڑھنے اور پڑھ کر کچھ لکھنے کی تحریک پائی ہے ۔ مذکورہ گروپ میں سلام بھائی ! کی حیثیت منفرد تھی ، منفرد اس معنیٰ میں کہ وہ مراٹھی اور ہندی ادب پڑھ سکتے تھے ، اور پڑھ کر اپنی رائے دے سکتے اور اردو کے ادیبوں کو غیر اردو ادب کے تعلق سے باخبر رکھ سکتے تھے ، اور باخبر رکھتے تھے ۔ بعد میں ساجد رشید نے ، جنہیں میں ساجد بھائی کہا کرتا تھا ، مراٹھی اور ہندی ادبی دنیا سے تعلقات قائم کر لیے تھے اور وہاں کے ادبی حالات سے اردو والوں کو باخبر رکھتے تھے ۔ انگریزی ادب کی خبر سب سے زیادہ انور خان کے پاس ہوتی تھی ۔ یہ وہ ادیب تھے جنہوں نے مرحوم باقر مہدی ، رشید حسن خان اور علی سردار جعفری وغیرہ کا دور دیکھا اور ان کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا تھا ۔ یہ سب اپنے اپنے میدان کے شہسوار تھے ، لیکن انہوں نے کبھی اپنے فن پر ، اپنی شہرت اور اپنی پذیرائی پر نہ گھمنڈ کیا اور نہ ہی کسی کو اپنے سے کمتر سمجھا یا کسی کو کمتر سمجھایا ۔ اب ایسے ادیب ، افسانہ نگار اور شاعر و طنز و مزاح نگار نہیں رہے ۔ اللہ مرحوم سلام بن رزق کے ساتھ ان سب کی مغفرت فرمائے ، آمین ۔
سلام بن رزاق کے ساتھ ایک دور کا خاتمہ ! – شکیل رشید
previous post