Home قومی خبریں شعبہ اردو اے ایم یو میں سلام بن رزاق کے انتقال پر تعزیتی نشست 

شعبہ اردو اے ایم یو میں سلام بن رزاق کے انتقال پر تعزیتی نشست 

by قندیل

علی گڑھ(پریس ریلیز) ممتاز افسانہ نگار سلام بن رزاق کے انتقال پر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک تعزیتی نشست کاا نعقاد کیا گیا۔صدر شعبہ اردو اور ڈائریکٹر اردو اکیڈمی پروفیسر قمر الہدی فریدی نے سلام بن رزاق کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا جانا علم و ادب بالخصوص فن افسانہ کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے۔وہ اپنے معاصرین میں ممتاز اور اپنے خوردوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔پروفیسر فریدی نے سلام بن رزاق کی شخصیت اور فکر و فن کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

واضح ہو کہ سلام بن رزاق کا گزشتہ سات مئی کو ممبئی میں انتقال ہو گیا تھا۔سلام بن رزاق کی بنیادی شناخت افسانہ نگار کی ہے لیکن انہوں نے شعر و ادب کی بیشتر اصناف میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ شاعری، ڈرامہ، ادب اطفال اور ترجمہ نگاری ان کی ادبی سرگرمیوں کا محور و مرکز رہے ہیں۔ سلام بن رزاق کی کم بیش تین درجن کتابیں شایع ہوچکی ہیں، جن میں چار افسانوی مجموعوں، ننگی دوپہر کا سپاہی، معبر، شکستہ بتوں کے درمیاں اور زندگی افسانہ نہیں کے علاوہ، بچوں کا ناول ننھے کھلاڑی، ترجمہ شدہ کتابوں میں مراٹھی ناول ماہم کی کھاڑی،مراٹھی افسانہ نگار جی اے کلکرنی کی کہانیاں اور عصری ہندی کہانیاں شامل ہیں۔ انہیں غالب ایوارڈ، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سمیت متعدد انعامات و اعزازات سے سرفراز کیا گیا۔سلام بن رزاق کی پندرہ سے زایدکہانیاں نصاب میں شامل ہیں۔

معروف فکشن نگار پروفیسر طارق چھتاری نے اپنے تعزیتی خطاب میں کہا کہ کچھ ادیبوں، ساینس دانوں اور فنکاروں کا جب تعزیتی جلسہ ہوتا ہے تو وہیں سے ان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور ایسالگتا ہے کہ ان کے ساتھ ہی ہمیں سفر کرنا ہے۔پروفیسر چھتاری نے کہا کہ سلام بن رزاق نے ترقی پسندی اور جدیدیت کے مثبت عناصر لیے اور ان کے امتزاج سے کہانی لکھی۔ان کاافسانوی سفر خط مستقیم پر چلا، ان کے یہاں کہانی پن کی واپسی کی بات کرنا ذرا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے خارجی عناصر کے ساتھ داخلی عناصر کو توجہ دی۔پروفیسر چھتاری نے سلام بن رزاق کے اخلاق و کردار اور مزاج و طبیعت کے حوالہ سے متعدد واقعات اوران کے فکشن کی فنی خوبیاں بیان کیں۔

پروفیسر صغیر افراہیم نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان سے ایک بڑا ادیب اور ایک بڑا انسان چلا گیا۔پروفیسر افراہیم نے سلام بن رزاق کے افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فن پاروں میں قصوں حکایتوں اور کتھاؤں کو جذب کر لیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ فنکار آزاد ہوتا ہے، سلام بن رزاق بھی اپنی طبیعت میں آزا د فنکار تھے۔ انہوں نے کبھی خود کو کسی تحریک یا ازم کا پابند نہیں بنایا۔

معروف فکشن نگار پروفیسر غضنفر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فکشن کی صدی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اردو فکشن کو نظر لگ گئی، ایک ایک کرکے ہمارے بہترین فکشن نگار راہی ملک عدم ہوتے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ مجھے ان میں کچھ ایسی انفرادیت نظر آئی جو ان کے معاصرین میں کم نظر آتی ہے۔انہیں اس زمانہ میں بھی یاد رکھا گیا جب ان کے معاصرین کو بھلا دیا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت سے اس قدر وابستہ نہیں ہوئے جیسے ان کے معاصرین ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہانی پن کو قایم رکھا۔ وہ ایسے فنکار تھے جو کمرہ میں بیٹھ کر نہیں لکھتا۔ وہ سماج کے ایک فرد تھے، اسی لیے ان کی کہانیاں پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ ہماری کہانی لکھ رہے ہیں، وہ عام آدمی کے، عام سماج کے کہانی کار تھے. پروفیسر غضنفر نے کہا کہ ان کے فکشن میں ہندی اور مراٹھی کے عناصر بھی شامل ہیں، جن سے ان کے فکشن کا دایرہ بڑھ جاتا ہے۔وہ مختلف قسم کے مسایل سے نبرد آزما رہے لیکن انہوں نے کبھی بھی ادب سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کیا۔

پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے کہا کہ جس زمانہ میں جدیدیت کا غلغلہ تھا، اس زمانہ میں ان کا جو مجموعہ ننھی دوپہر کا سپاہی آیا، اس کے افسانوں کے مزاج اور ان کی کشش نے سب کو متاثر کیا۔ انہوں نیاپنے پہلے مجموعہ کی اشاعت سے صف اول کے افسانہ نگاروں میں جو جگہ بنائی، وہ تا دم مرگ قایم رہی۔انہوں نے مراٹھی تراجم کے حوالہ سے بھی اردو ادب کی کافی خدمت کی۔پروفیسر اجملی نے الہ آباد کی بین الاقوامی افسانہ کانفرنس کے حوالہ سے سلام بن رزاق اور ان سے وابستہ یادوں کا تذکرہ کیا۔

شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر امتیاز احمد نے تعزیتی قرار داد پیش کی۔تعزیتی نشست میں شعبہ اردو کے موجودہ و سابق اساتذہ کے علاوہ کثیر تعداد میں طلبا اور ریسرچ اسکالر شریک ہوئے۔

You may also like