Home تجزیہ سالِ نواوردعوتِ احتساب- شاہدالاسلام

سالِ نواوردعوتِ احتساب- شاہدالاسلام

by قندیل

قارئین کو سال نوکی مبارکباد۔ادائیگیِ رسم کے تحت 2020کا استقبال کرتے ہوئے اِس امید و یقین کے ساتھ نئے سال کی پہلی صبح کے موقع پر خوش آمدید کہنا لازمی ہے کہ دنیاداری نبھانے کے مروجہ طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سال نو کے موقع پر مبارکبادیاں پیش کی جائیں اور خوش امیدی کے سہارے آگے کی پر خار راہوں سے گزرنے کے حوالے سے گفت و شنید کے سلسلےکو آگے بڑھایا جائے۔ورنہ سچی بات تو یہ بھی ہے کہ رخصت ہونے والا سال ہمیں اس قدر غمناک یادوں اور کربناک اذیتوں سے دوچار کرچکا ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانااورسال نو کی خوشیوں میں گم ہوجانا ممکن نہیں!سال نوکی پہلی صبح یقینا کوئی خوشخبری لے کر آپ کے سامنے وارد نہیں ہوئی ہے کہ آپ مسرتوں کے شادیانے بجائیں اور ماضی کی تلخ یادوں کو فراموش کردیں۔البتہ یہ موقع خود احتسابی کا ضرور ہوسکتا ہےکہ آپ اورہم اس موقع پر سال گزشتہ کے لمحات کو یاد کریں اور دیکھیں کہ ملک وقوم کی بہتری اور تعمیرو ترقی کیلئے انفرادی طورپر کیا کچھ کیا اور کیا نہیں؟اپنے ضمیر کو ٹٹولنےاور اپنے عمل کا جائزہ لینے کیلئے یہ شاید ایک مفید دن ہو سکتاہے کہ ہم سب سال کی پہلی صبح کم از کم ایک سال کے دورانیے کا اپنااپنا نامۂ اعمال لے کر بیٹھ جائیں اور خود اپنے دل سے پوچھیں کہ ہمیں جو365 دن ملے،اُن کا ہم نے تعمیری لحاظ سےملک و معاشرہ اور قوم وملت کی بھلائی کیلئے انفرادی طورپرکیا کچھ استعمال کیا؟ارسطو نے انسان کو’سماجی ذی روح’ قرار دیا ہے۔ مذہباًدیکھیں تو ہمیں مذہب اسلام نے’اشرف المخلوقات’ قرار دیاہے۔مطلب واضح ہے کہ تمام ذی روح پر ہمیں برتری حاصل ہے۔آخرکیوں؟اس سوال کو سامنے رکھکر ہمیں یہ دیکھنے کی سخت ضرورت ہے کہ ‘اشرف’ہونے کا حق ہم کہاں ادا کرپارہے ہیں اورکہاں نہیں؟ ممکن ہے کہ ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ ‘اشرف’ واقع ہورہے ہوں،اپنے والدین، اعزہ اورلواحقین کے تئیں عملاً ‘اشرف المخلوقات’ ہونے کاثبوت پیش کررہے ہوں،لیکن کیا ہم معاشرہ کے تئیں،قوم و ملت کے تئیں،وطن عزیزکی تعمیر و ترقی کے تئیں،کمزوروں،بے کسوں، مظلوموں اورمقہوروں کے تئیں بھی اپنے ‘اشرف’ و’افضل’ہونے کاعملی نمونہ پیش کررہے ہیں؟ یہ ایک سوال ہے،جس کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں کہیں جانے اور کسی سے کچھ بھی دریافت کرنےکی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہمیں خود اپنے دل سے پوچھنا چاہئے کہ ہم بہ حیثیت فرد معاشرتی ذمےداریوں کی ادائیگی میں کیا کوئی رول نبھا پارہے ہیں یا فرد کی’انجمن’ کی حیثیت سے ہم اپنی دنیا میں آپ کھوئے ہوئے ہیں۔سال گزشتہ میں جوغلطیاں ا نفرادی طورپر کی گئیں،اُن کی تلافی یوں کی جاسکتی ہے کہ سال نو کا خیر مقدم کچھ یوں کریں کہ تجدید غلطی پھرنہ ہو۔ دوسروں کی کمیوں اور غلطیوں پرانگشت نمائی کی بجائے اپنی کوتاہیوں کو تلاش کرنااورآنے والے دنوں میں ان سے بچنے کی کوشش کرنا اگر ہم نے سیکھ لیا تو یقین جانئے مشکلیں آسان ہی نہیں ہوں گی بلکہ آدھی سے زیادہ پریشانیاں خودہی دور بھی ہوجائیں گی۔سال نو کے موقع پریہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ بہ حیثیت فرد معاشرتی ذمے داریوں کی ادائیگی میں ذرہ برابربھی غفلت نہیں برتیں گے اوردوسرے کیا کررہے ہیں،یہ دیکھنے کی بجائے ہم کیا کررہے ہیں،اس پر دھیان دیں گے۔اگراس پہلو پر توجہ نہیں دی گئی تو پھر انتہائی ادب واحترام کے ساتھ ہمیں یہ رائے قائم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوگا کہ ہم آدمی ہیں،انسان ہرگزنہیں!۔انسانیت کیا ہے؟اسکی عظمت کو سمجھنے اور انسانی اقدار کی حفاظت کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم گردو پیش کی صورتحال پر دھیان دیں اور یہ بھی دیکھیں کہ مذہب، نسل،ذات ،فرقہ، مسلک اورعلاقہ بلکہ مملکت کی ظاہری درجہ بندی سے بالا ترہوکرمحض انسانیت کی بنیاد پربہ حیثیت انسان ہم کس قدر فراخدلی سے کام لے رہے ہیں۔ تعصب و تنگ نظری کہاں ہمارے درمیان مانع و حارج ہورہی ہے؟ سال نو کی آمد سےٹھیک قبل وطن عزیز میں جس انداز کی ہنگامہ آرائی،احتجاج واشتعال اور خونریزی دیکھنےکوملی اور جس انداز میں اب بھی مظاہروں کا سلسلہ حسب حال برقرار ہے،اُس کی بنیاد پریہ نہیں کہاجاسکتا ہے کہ آنے والا دن ،ماہ اور سال سکون و عافیت سے گزر جائے گا۔ اسکے باوجود اچھی رائے قائم کرنا اور خوش امیدی میں مبتلا ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے۔بادِمخالف کا سامناجراتمند قومیں کرتی رہی ہیں ۔ اس لئے کہاجاسکتا ہے کہ بداعمالیوں کی جوسزا ہمیں اسوقت مل رہی ہے،اُس کا بھی خاتمہ یقینا ہوگا بشرطیکہ ہم نے اپنے حسن عمل کے ذریعہ حالات کا مقابلہ کرلیا۔اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم بد اطواراوربداخلاق واقع ہوتے ہیں یاخوش اخلاقی اورحسن تدبیر سے صورتحال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ زندہ قوم حالات کا مقابلہ کرتی ہے،حسن عمل سے بھی اور حسن تدبیر سے بھی۔احتجاج و اشتعال کے درمیان جو صورتحال پیدا ہوئی ہے،اُس سے مقابلہ کیلئے جذباتی ہونے کی بجائے جمہوری راستوں پر چلنے اورتخریب پسندوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی سخت ضرورت ہے،جو یہی چاہتے ہیں کہ انسانیت کے درمیان ایسی دیوار قائم کردی جائے جو سیاسی لحاظ سے مخصوص طبقہ کیلئے فائدہ مندثابت ہو۔ آزادی سے قبل جو کوششیں باہمی نفاق کو فروغ دینے کے حوالےسے ہوتی رہی تھیں،اُن ہی کوششوں کو نئے عنوان اور نئے اندازسے آگے بڑھایا جارہاہے۔اس لئے ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ملک کی وحدت و سا لمیت اوروطن عزیز کی تعمیروترقی کو نقصان پہنچانے والی قوت سے مقابلہ کرنے کا اندازکیا ہو۔ نیا سال اس پہلوسے بھی ہمیں غوروفکرکی دعوت دے رہاہے کہ ہم جذباتیت پسندی کی جگہ معروضیت پسندی کے ساتھ زندہ ہونے کا عملی ثبوت پیش کریں۔ فی الحال امیر قزلباش کے اس شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ:

یکم جنوری ہے نیاسال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے

You may also like

Leave a Comment